Ruh-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 38
وَ فِیْ مُوْسٰۤى اِذْ اَرْسَلْنٰهُ اِلٰى فِرْعَوْنَ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ
وَفِيْ مُوْسٰٓى : اور موسیٰ میں اِذْ اَرْسَلْنٰهُ : جب بھیجا ہم نے اس کو اِلٰى فِرْعَوْنَ : فرعون کی طرف بِسُلْطٰنٍ : ایک دلیل کے ساتھ مُّبِيْنٍ : کھلی
اور موسیٰ کی سرگزشت میں بھی نشانی ہے جبکہ ہم نے اس کو فرعون کی طرف ایک واضح سند کے ساتھ بھیجا
وَفِیْ مُوْسٰٓی اِذْ اَرْسَلْنٰـہُ اِلٰی فِرْعَوْنَ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ ۔ (الذریٰت : 38) (اور موسیٰ کی سرگزشت میں بھی نشانی ہے جبکہ ہم نے اس کو فرعون کی طرف ایک واضح سند کے ساتھ بھیجا۔ ) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی سرگزشت میں نشانی اس کا عطف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی سرگزشت پر ہے۔ ہم نے ترجمے میں اس کی طرف اشارہ کردیا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی سرگزشت میں نشانی یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے فرعون کی ہدایت کے لیے ایک واضح سلطان کے ساتھ بھیجا۔ سلطان سے دو چیزیں مراد ہیں ایک تو یہ کہ آپ کو اتنے واضح معجزات دیئے گئے جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے آپ کے لیے سندماموریت کی حیثیت رکھتے تھے۔ حیران کردینے والی اور خرق عادت چیزیں شعبدہ باز بھی دکھاتے ہیں اور جادوگر بھی۔ لیکن ان چیزوں کی مثال لانا یا ان کا توڑ کرنا ناممکن نہیں ہوتا۔ البتہ جس خرق عادت چیز کا اظہار اللہ تعالیٰ کے پیغمبر کی طرف سے ہوتا ہے کسی دوسرے انسان کے بس میں نہیں کہ وہ اس کی مثال لاسکے۔ اس لیے اسے پیغمبر کا معجزہ کہا جاتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون کے پاس بھیجتے ہوئے جو دو معجزات دیئے گئے وہ اس قدر واضح تھے کہ کوئی شخص بھی بقائمی ہوش و حواس اس کی مثال لانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اور فرعون نے جب اسے سحر قرار دے کر ملک بھر کے جادوگروں کو جمع کرکے مقابلہ کرنے کی کوشش کی تو نہ صرف ناکام رہا بلکہ جادوگر جو اس فن کے شناسا تھے وہ سمجھ گئے کہ یہ جادو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے رسول کا معجزہ ہے اس لیے وہ فوراً ایمان لے آئے۔ سلطان کا دوسرا معنی رعب اور دبدبہ کے ہیں۔ اس صورت میں اس رعب اور دبدبہ کے واضح ہونے کا مطلب یہ ہوگا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) انتہائی بےکسی اور بےبسی کی حالت میں فرعون کے سامنے تشریف لائے۔ آپ نے جس جرأت اور بےباکی سے فرعون کے سامنے اپنی دعوت پیش کی اور جس طرح اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کیں اس سے وہ اس حد تک مرعوب ہوا کہ باوجود اس کے کہ حضرت موسیٰ علیہ اسلام دنیوی وسائل اور رعب و دبدبہ کے ذرائع میں سے کوئی چیز بھی اپنے پاس نہیں رکھتے تھے۔ باایں ہمہ فرعون کا حال یہ تھا کہ وہ آپ کی دعوت کے سلسلے میں بارہا برافروختہ ہوا۔ اور بعض دفعہ اس نے آپ کو قتل کرنے کی دھمکی بھی دی۔ لیکن وہ اس پر عمل کبھی نہ کرسکا۔ اس نے آپ کی بےبسی کا مذاق اڑایا لیکن کبھی آپ پر دست درازی کی جرأت نہ کی۔ اور آپ کی دعوت کو روکنے کے جو ذرائع ہوسکتے تھے انھیں کبھی بروئے کار نہ لایا۔ ان تمام باتوں کو دیکھتے ہوئے ایک نشانی جو فوراً ذہن میں ابھرتی ہے وہ وہی ہے جس کا اگلی آیت کریمہ میں ذکر فرمایا گیا ہے۔
Top