Ruh-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 43
وَ فِیْ ثَمُوْدَ اِذْ قِیْلَ لَهُمْ تَمَتَّعُوْا حَتّٰى حِیْنٍ
وَفِيْ ثَمُوْدَ : اور ثمود میں اِذْ قِيْلَ لَهُمْ : جب کہا گیا ان سے تَمَتَّعُوْا : فائدے اٹھا لو حَتّٰى حِيْنٍ : ایک وقت تک
اور ثمود کی سرگزشت میں بھی نشانیاں ہیں جبکہ ان سے کہا گیا کہ تم ایک خاص وقت تک اور عیش کرلو
وَفِیْ ثَمُوْدَ اِذْ قِیْلَ لَہُمْ تَمَتَّعُوْا حَتّٰی حِیْنٍ ۔ فَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّھِمْ فَاَخَذَتْھُمُ الصّٰعِقَۃُ وَھُمْ یَنْظُرُوْنَ ۔ فَمَا اسْتَطَاعُوْا مِنْ قِیَامٍ وَّمَا کَانُوْا مُنْتَصِرِیْنَ ۔ (الذریٰت : 43 تا 45) (اور ثمود کی سرگزشت میں بھی نشانیاں ہیں جبکہ ان سے کہا گیا کہ تم ایک خاص وقت تک اور عیش کرلو۔ تو انھوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی، تو ایک اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب نے ان کو آلیا اور وہ دیکھتے رہے۔ پھر نہ وہ اٹھ ہی سکے اور نہ اپنا بچائو کرسکے۔ ) قومِ ثمود کے انجام کا ذکر عاد کے بعد قوم ثمود کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے ان میں بھی عبرت کی بہت سی نشانیاں ہیں۔ ان کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تھے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کے معجزے کے طور پر اللہ تعالیٰ نے ایک اونٹنی غیرمعمولی طریقے سے ان کے سامنے لا کھڑی کی۔ اور ہدایت کی کہ اسے نقصان نہ پہنچانا۔ لیکن ان میں سے ایک سرکش لیڈر نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں۔ تو حضرت صالح (علیہ السلام) نے ان کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اب تمہارے لیے زندگی سے متمتع ہونے اور نعمتوں سے بہرہ ور ہونے کے لیے تین دن باقی ہیں۔ ان تین دنوں میں جو کھانا پینا چاہتے ہو، کھا پی لو۔ لیکن یہ یاد رکھو کہ اس دھمکی اور تنبیہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ممکن ہے اس میں ان کے لیے توبہ کا امکان بھی رکھا ہو۔ اس آیت کریمہ میں حِیْنکا لفظ ہے۔ لیکن سورة ہود میں اسیثلَثَۃَ اَیَّامٍکے ساتھ متعین کردیا گیا ہے کہ یہ مدت تین دنوں کے لیے ہوگی۔ لیکن ان بدنصیبوں نے ان تین دنوں سے کوئی فائدہ اٹھانے کی بجائے اپنی بدنصیبی میں اضافہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کی اور اس آخری مہلت کی بھی کوئی پرواہ نہ کی، بلکہ نہایت تکبر سے اپنی روش پر قائم رہے۔ تو آخر اللہ تعالیٰ کے عذاب نے انھیں پکڑ لیا۔ سورة ہود میں اس عذاب کے لییصیحۃ کا لفظ آیا ہے اور پیش نظر آیت میں صاعقہکا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دھماکے کی طرح ان کو ایک ڈانٹ سنائی دی۔ اور اچانک ٹوٹ پڑنے والا عذاب ان پر مسلط ہوگیا۔ اور یہ سب کچھ اس طرح کھلم کھلا ہوا کہ وہ دیکھ رہے تھے لیکن بچائو نہ کرسکتے تھے۔ چونکہ یہ عذاب دفعۃً آیا تھا اس لیے انھیں سنبھلنے کے لیے ایک لمحہ بھی نہ مل سکا۔ سورة القمر میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہاِنَّا اَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ صَیْحَۃً وَّاَحِدَۃً فَکَانُوْا کَھَشِیْمِ الْمَحْتَظِرْ ” ہم نے ان کے اوپر ایک ہی ڈانٹ بھیجی، تو وہ باڑے والے کے باڑے کی خشک اور ریزہ ریزہ لکڑیوں کے مانند ہو کر رہ گئے۔ اور اس چیخ اور دھماکے سے وہ اس حد تک سراسیمہ ہوئے اور اس کڑک نے ایسی دہشت ان پر طاری کی کہ وہ کھڑے ہونے کے قابل بھی نہ رہے اور زمین پر گرپڑے۔ سورة الاعراف میں اس کا حال یوں بیان کیا گیا ہے فَاَخَذَتْھُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِی دَارِھِمْ جَاثِمِیْنَ ” پس ان کو کپکپی نے آپکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ پڑے رہ گئے۔ کہاں تو یہ حال کہ وہ اپنے غرور وتکبر سے کسی کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہ تھے اور کہاں اب یہ حال کہ وہ اپنی مدافعت تک نہ کرسکتے تھے اور کھڑے نہ ہوسکتے تھے۔
Top