Ruh-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 47
وَ السَّمَآءَ بَنَیْنٰهَا بِاَیْىدٍ وَّ اِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ
وَالسَّمَآءَ : اور آسمان بَنَيْنٰهَا : بنایا ہم نے اس کو بِاَيْىدٍ : اپنی قوت۔ ہاتھ سے وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ : اور بیشک ہم البتہ وسعت دینے والے ہیں
اور آسمان کو ہم نے بنایا اپنی قدرت سے، اور ہم بڑی ہی وسعت رکھنے والے ہیں
وَالسَّمَآئَ بَنَیْنٰـھَا بِاَیْدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ ۔ (الذریٰت : 47) (اور آسمان کو ہم نے بنایا اپنی قدرت سے، اور ہم بڑی ہی وسعت رکھنے والے ہیں۔ ) قدرت کی نشانیوں کے ضمن میں آسمان سے استدلال آخرت کے حق میں تاریخی دلائل پیش کرنے کے بعد اپنی قدرت و ربوبیت کی طرف توجہ دلا رہے ہیں۔ انھیں آفاقی دلائل بھی کہا جاسکتا ہے اور اسی ضمن میں توحید کی یاددہانی بھی کرائی جارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مشاہدات کے سلسلے میں سب سے پہلا مشاہدہ انسان کو اپنے سر پر تنے ہوئے آسمان کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ اور وہ جیسے جیسے غور کرتا ہے آسمان کے عجائب اس کے سامنے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ وہ یہ دیکھ کر حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ ایک وسیع چھت جس کے نیچے کوئی ستون نہیں اور جس کی وسعتوں کا کوئی اندازہ نہیں۔ جو ذات اس قدر عظیم مخلوق کی تخلیق کرسکتی ہے اور پھر اس میں بیشمار مخلوقات کو سامانِ تربیت مہیا کرسکتی ہے اس کی طاقت اور قدرت کے لیے انسان کو نئی زندگی دینا کیا مشکل ہے۔ اسی مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کریم نے سورة النزعت میں ارشاد فرمایا ئَ اَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَآئُ ” کیا تمہارا پیدا کیا جانا زیادہ مشکل ہے یا آسمان کا۔ “ پھر ایک غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہم بڑی وسعت رکھنے والے اور بڑی قدرت رکھنے والے ہیں یعنی تمہیں یہ جو خیال ہے کہ کائنات کا خالق تو وہی ہے جسے ہم اللہ کے نام سے یاد کرتے ہیں، اسی نے ہر چیز کو پیدا کیا۔ لیکن اب فنا اور ہلاکت کے بعد دوبارہ انسانوں کو پیدا کیا جانا عقل سے مستبعد ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک دفعہ آسمان کو پیدا کرکے اپنی ساری قوتیں نچوڑ چکا ہے اور اپنے سارے وسائل صرف کرچکا ہے اور اب ازسرنو اسے بنانا یہ اس کے بس کی بات نہیں۔ اس لیے ارشاد فرمایا کہ ہماری قدرت اور وسعت میں کوئی کمی نہیں آئی، ہم جن قدرتوں کے مالک پہلے تھے آج بھی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ بعض دوسرے مقامات میں بھی اسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً ایک جگہ ارشاد فرمایا ہم نے آسمانوں اور زمین یعنی ساری کائنات کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔ وَمَا مَسَّنَا مِنْ لَّغُوْبٍ ” ہم کو ذرا بھی تکان نہیں ہوئی۔ “ یعنی ہم اسی طرح تازہ دم ہیں جس طرح پہلی دفعہ اس کائنات کے بنانے میں تھے۔ تھکاوٹ اور ماندگی مخلوق کی صفات ہیں، خالق کی نہیں۔
Top