Ruh-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 54
فَتَوَلَّ عَنْهُمْ فَمَاۤ اَنْتَ بِمَلُوْمٍ٢ۗ٘
فَتَوَلَّ عَنْهُمْ : پس منہ موڑ لو ان سے فَمَآ اَنْتَ : پس نہیں آپ بِمَلُوْمٍ : جن پر ملامت کی جائے
پس آپ ان سے اعراض کریں، پس آپ پر کوئی ملامت نہیں
فَتَوَلَّ عَنْھُمْ فَمَآ اَنْتَ بِمَلُوْمٍ ۔ وَّذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔ (الذریٰت : 54، 55) (پس آپ ان سے اعراض کریں، پس آپ پر کوئی ملامت نہیں۔ نصیحت کرتے رہیے کیونکہ نصیحت ایمان والوں کو نفع پہنچاتی ہے۔ ) ان دو آیتوں میں پروردگار نے آنحضرت ﷺ کو دو اہم حقیقتوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اور آپ کے واسطے سے ہر اس داعی حق کو رہنمائی مہیا کی گئی ہے جو دعوت الیٰ اللہ کو اپنی زندگی کا اہم ترین مقصد بنا چکا ہے۔ نامور مخالفین پر اتمامِ حجت ہوچکا، عام لوگوں میں تذکیر کی ہدایت پہلی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ آپ نے ان لوگوں پر تبلیغ و دعوت کے لیے ہر طریقہ آزما کے دیکھ لیا اور زیادہ سے زیادہ وقت بھی صرف کیا اور نہ جانے کتنا خون جگر نچوڑا۔ جن کے بارے میں آپ کا گمان یہ تھا کہ یہ لوگ اگر اسلام کے راستے پر آجائیں تو ان کی وجہ سے لوگوں میں اسلام ایک تحریک کی شکل اختیار کرلے گا۔ اور جو غریب لوگ اس انتظار میں ہیں کہ یہ لوگ جن کی ہم نے ہمیشہ پیروی کی ہے اگر اسلام کو اللہ تعالیٰ کے دین کے طور پر قبول کرلیں تو ہمیں اطمینان ہوجائے گا کہ یہ واقعی اللہ تعالیٰ کا دین ہے اور اسی میں ہماری دنیا و عقبیٰ کی بھلائی ہے۔ لیکن آپ کی یہ مساعیِ جمیلہ نتیجہ خیز نہ ہوسکیں۔ اور جن لوگوں پر آپ نے محنت کی وہ پہلے سے زیادہ دین کے دشمن ثابت ہوئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے اندر دین سے بیزاری انتہا کو پہنچی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان کی محرومی کا فیصلہ فرما دیا ہے۔ اب آپ مزید ان پر محنت نہ کریں۔ چونکہ یہ محنتوں اور اوقات کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن آپ یہ گمان نہ کیجیے کہ آپ کو اس کے بارے میں کوئی جواب دہی کرنا ہوگی اور شاید آپ پر اس کا کوئی الزام آئے کہ آپ کی بعثت جب اسی مقصد کے لیے ہوئی ہے تو پھر آپ اس کام کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔ کیونکہ اس کے لیے جس قدر محنت کرنا چاہیے تھی آپ اس سے بڑھ کر کرچکے۔ دوسری آیت کریمہ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ آپ دوسرے لوگوں میں اس کام کو جاری رکھئے، لیکن اس کا انداز ایسا ہو جس سے سب مستفید ہوسکیں۔ کیونکہ اصل مقصود تو ایسے لوگوں کو تلاش کرنا ہے جو قبولیتِ حق کے لیے مستعد ہوسکیں۔ اور اس کا علم ایک داعی حق کو بھی نہیں ہوتا کہ کون میری دعوت کو قبول کرے گا اور کون رد کردے گا۔ اس کا حل یہی ہے کہ اس کام کو مسلسل جاری رکھئے۔ جو لوگ اس کو قبول کرنا چاہیں آپ ان پر محنت کیجیے۔ کیونکہ یہ ایک نصیحت ہے جس کا فائدہ مومنوں ہی کو پہنچتا ہے۔ یعنی جو اس کو مانتے اور دلوں میں جگہ دیتے ہیں۔ لیکن جو لوگ محض تضییعِ اوقات کے لیے آپ سے بحث کرنا چاہیں آپ ان سے منہ پھیر کر دوسرے لوگوں کی اصلاح کی فکر کریں۔ کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں آپ کی نصیحت جن کو نفع پہنچائے گی۔
Top