Ruh-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 56
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ
وَمَا : اور نہیں خَلَقْتُ الْجِنَّ : پیدا کیا میں نے جنوں کو وَالْاِنْسَ : اور انسانوں کو اِلَّا : مگر لِيَعْبُدُوْنِ : اس لیے تاکہ وہ میری عبادت کریں
میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنَ ۔ (الذریٰت : 56) (میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔ ) جن و انس کا مقصد تخلیق گزشتہ آیت سے پیوستہ آیت میں نبی کریم ﷺ کو ہدایت کی گئی تھی کہ جو لوگ آپ کی مخالفت کے لیے ادھار کھائے بیٹھے ہیں اور کسی طرح بھی آپ کی بات سننے کے روادار نہیں تھے اور آپ کی خیرخواہی اور دلسوزی کو حماقت اور جنون کا نام دیتے ہیں۔ اپنی تبلیغی مساعی کے لیے انھیں موضوع اور ہدف بنانے کی بجائے ان لوگوں کی طرف توجہ کیجیے جو آپ کی نصیحت کو کان لگا کر سنتے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیونکہ آپ نے اپنی مسلسل مساعی سے ایک طرح سے ان پر اتمامِ حجت کردیا ہے، اب اگر آپ ان سے روگردانی کرتے ہیں تو آپ پر ان کی ہدایت کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے اور اس سلسلے میں آپ سے جواب طلبی نہیں کی جائے گی۔ پیش نظر آیت کریمہ میں اسی مضمون کو آگے بڑھاتے اور مستحکم کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کو پیدا ہی اپنی بندگی کے لیے کیا تھا۔ ان کی تخلیق کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں۔ اور اسی کا احساس پیدا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے نشانیاں کھولیں اور انھیں جاننے اور پہچاننے کے لیے حواس کی دولت سے بہرہ ور فرمایا، عقل کا نور عطا کیا، قوت تمیز بخشی اور قبولیتِ حق کی آسانی کے لیے فطرت کی رہنمائی مہیا کی۔ اور جو لوگ ان صلاحیتوں سے ہَوائے نفس کی پیروی کی وجہ سے فائدہ اٹھانے سے قاصر رہتے ہیں ان کے لیے اپنے رسول بھیجے اور اپنی کتابیں نازل فرمائیں، جنھوں نے ہر ممکن طریقے سے ان پر یہ بات واضح کی کہ ان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ کی بندگی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ تو کس قدر تعجب کی بات ہے کہ جو چیز ان کی تخلیق کا مقصد ہے اس کی طرف سے لاپرواہی اور بےنیازی ان کی زندگی کا مقصد بن کر رہ گئی ہے۔ ایک اعتراض کا جواب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس طرح انسانوں اور جنوں کا خالق ہے اسی طرح باقی تمام مخلوقات کا خالق بھی ہے۔ تو پھر اگر خالق ہونے کی وجہ سے اسے حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنی مخلوق کے لیے کوئی مقصد زندگی متعین کرے۔ تو پھر اس میں جنوں اور انسانوں کی تخصیص کیوں ؟ کیونکہ مخلوق ہونے میں تو تمام مخلوقات برابر ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بلاشبہ مخلوق ہونے میں تمام مخلوقات برابر ہیں۔ لیکن ایک صلاحیت ایسی ہے جو صرف جنوں اور انسانوں کو عطا کی گئی ہے باقی مخلوقات کو نہیں۔ وہ صلاحیت یہ ہے کہ جنوں اور انسانوں کو یہ اختیار بخشا گیا ہے کہ وہ اگر چاہیں تو اللہ تعالیٰ کی بندگی کریں اور اگر نہ چاہیں تو انھیں نافرمانی کا اختیار بھی حاصل ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی سے منہ موڑ کر دوسروں کی بندگی بھی کرسکتے ہیں۔ لیکن باقی جتنی مخلوقات ہیں انھیں اس طرح کی کوئی آزادی حاصل نہیں۔ وہ تکوینی طور پر اللہ تعالیٰ کے احکام کے پابند ہیں اور ان کی زندگی کا راز ان احکام کی تعمیل میں ہے۔ لیکن اس کے برعکس جنوں اور انسانوں کے لیے ایک شریعت نازل کی گئی ہے جس کی پابندی اللہ تعالیٰ کی بندگی ہے اس بندگی کو کرنے یا اسے نظرانداز کرنے کا انھیں اختیار حاصل ہے۔ دنیا میں اس حوالے سے ان کا مواخذہ نہیں ہوگا، کیونکہ یہ دنیا دارالعمل ہے دارالجزاء نہیں۔ کبھی کبھی توجہ دلانے کے لیے آزمائشیں تو نازل ہوں گی اور اتمامِ حجت کے بعد عذاب بھی آسکتا ہے کیونکہ انھیں پیدا اسی مقصد کے لیے کیا گیا ہے اور قیامت کے دن اسی مقصد کی تعمیل نہ کرنے کے نتیجے میں انھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کی طرف اس آیت کریمہ میں توجہ دلائی گئی ہے۔
Top