Ruh-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 59
فَاِنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ذَنُوْبًا مِّثْلَ ذَنُوْبِ اَصْحٰبِهِمْ فَلَا یَسْتَعْجِلُوْنِ
فَاِنَّ لِلَّذِيْنَ : تو بیشک ان لوگوں کے لیے ظَلَمُوْا : جنہوں نے ظلم کیا ذَنُوْبًا مِّثْلَ : حصہ ہے، مانند ذَنُوْبِ : حصے کے اَصْحٰبِهِمْ : ان کے ساتھیوں کے فَلَا يَسْتَعْجِلُوْنِ : پس نہ وہ جلدی کریں مجھ سے
پس ان لوگوں کے لیے جنھوں نے ظلم کیا ویسا ہی مقرر پیمانہ ہے جیسا ان ہی جیسے لوگوں کے لیے تھا، یہ لوگ مجھ سے جلدی نہ مچائیں
فَاِنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ذَنُوْبًا مِّثْلَ ذَنُوْبِ اَصْحٰبِھِمْ فَلاَ یَسْتَعْجِلُوْنِ ۔ (الذریٰت : 59) (پس ان لوگوں کے لیے جنھوں نے ظلم کیا ویسا ہی مقرر پیمانہ ہے جیسا ان ہی جیسے لوگوں کے لیے تھا، یہ لوگ مجھ سے جلدی نہ مچائیں۔ ) قریش اور دیگر کفار کو تنبیہ ذَنُوْببھرئے ہوئے ڈول کو کہتے ہیں، خالی ڈول کے لیے یہ لفظ نہیں بولا جاتا۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض دیہات یا بعض پبلک جگہوں میں ٹھنڈا پانی کم دستیاب ہوتا ہے تو ایسے کنویں تیار کیے جاتے ہیں جہاں سے لوگ اپنی ضرورت کے مطابق پانی حاصل کرسکیں۔ اور ایسے کنوئوں پر ڈول کھینچنے کی پھر کی لگائی جاتی ہے اور عام سائز سے بڑے ڈول لٹکائے جاتے ہیں۔ جب چند آدمی پانی لینے کے لیے جمع ہوجاتے ہیں تو ان کی باریاں مقرر کردی جاتی ہیں اور اس طرح ہر شخص یا ہر گروہ اپنی باری پر پانی کھینچ لیتا ہے اور باہمی تصادم کی نوبت نہیں آتی۔ اس لیے بعض اہل لغت نیذَنُوْب کا ترجمہ باری سے بھی کیا ہے۔ آیت کریمہ میں ذَنُوْبسے مراد زندگی، یعنی مہلت عمل ہے جو ہر شخص کو عطا کی گئی ہے۔ افراد بھی اس مہلت عمل سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور قومیں بھی۔ اپنی اپنی باری پر دنیا میں آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ جو قوم بھی اپنی باری پر دنیا میں آئی اللہ تعالیٰ نے اس قوم کے ہر فرد کو عقل اور شعور کی دولت سے بہرہ ور کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ہدایت کے لیے اپنے رسول بھیجے اور کتابیں نازل کیں۔ اور یہ بتایا گیا کہ اگر تم نے اس مہلت عمل کو جو پیمانے کے طور پر تمہیں ملی ہے اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ اک ڈول ہے جسے تم نے بھرنا ہے۔ اگر تم نے اس مہلت عمل کو اپنے خالق ومالک کی ہدایت کے مطابق گزارا اور ڈول کو اس کی اطاعت سے بھر لیا تو یوں سمجھ لو کہ تم نے اپنی باری کا وقت ٹھیک گزارہ اور آخرت میں تم اس کا پھل کھائو گے اور اپنے بھرے ہوئے ڈول سے خوب تمتع کرو گے۔ لیکن اگر تم نے اس مہلت عمل کو غلط افکار اور غلط اعمال سے ظلم کے راستے پر ڈال دیا یعنی اس کی اصل حقیقت کو اور اس کے دینے والے کے حقوق کو جاننے اور تسلیم کرنے کی بجائے انکار کرکے اپنے اوپر اور اپنی فطرت پر ظلم کیا۔ تو پھر یاد رکھو تمہارے ساتھ بھی وہی کچھ ہوگا جو تم سے پہلے گزرنے والی قوموں کے ساتھ ہوچکا ہے۔ انھیں بھی تمہاری ہی طرح سب کچھ عطا کیا گیا تھا۔ لیکن انھوں نے اپنی اس مہلت عمل کا غلط فائدہ اٹھایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب نے ان کو تباہ کردیا۔ قریش کو تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ وہ اپنے خیالات و اعمال میں تمہارے ہی جیسے اور تمہارے ہی ہم مشرب تھے۔ وہ اگر اپنے غلط فیصلوں اور فطرت پر ظلم کے نتیجے میں غلط انجام کو پہنچے ہیں تو تم بھی ویسے ہی انجام کو پہنچو گے۔ اس لیے حقیقت کو سمجھنے اور اپنی مہلت عمل سے صحیح فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو۔ اسی سے تمہاری دنیا و عقبیٰ سنور سکتی ہے لیکن اگر تم نے وہی رویہ اختیار کیا جو تم سے پہلے تمہاری ہم مشرب قوموں نے اختیار کیا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول نے انھیں عذاب سے ڈرایا تو بجائے ڈرنے کے اور دلیر ہوگئے۔ اور بار بار استہزاء کے طور پر یہ کہنے لگے کہ وہ عذاب آکیوں نہیں جاتا اور آخر وہ کہاں رک کر رہ گیا ہے، تو آخر وہ ہلاک ہوگئے۔ تم بھی ان کی طرح مجھ سے عذاب مانگنے میں جلدی نہ کرو، ورنہ جس طرح وہ تباہ ہوئے اور یہ جسارت انھیں بڑی مہنگی پڑی یہی انجام تمہارا بھی ہوگا۔
Top