Ruh-ul-Quran - At-Tur : 29
فَذَكِّرْ فَمَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَّ لَا مَجْنُوْنٍؕ
فَذَكِّرْ : پس نصیحت کیجیے فَمَآ اَنْتَ : پس نہیں آپ بِنِعْمَتِ : نعمت سے رَبِّكَ : اپنے رب کی بِكَاهِنٍ : کا ھن وَّلَا مَجْنُوْنٍ : اور نہ مجنون
پس اے پیغمبر ! آپ نصیحت کرتے رہیں، آپ اپنے رب کے فضل سے نہ کاہن ہیں اور نہ مجنون
فَذَکِّرْ فَمَآ اَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّکَ بِکَاھِنٍ وَّلاَ مَجْنُوْنٍ ۔ (الطور : 29) (پس اے پیغمبر ! آپ نصیحت کرتے رہیں، آپ اپنے رب کے فضل سے نہ کاہن ہیں اور نہ مجنون۔ ) مخالفین کی یا وہ گوئی پر آنحضرت ﷺ کو تسلی آنحضرت ﷺ کی تبلیغ و دعوت کے جواب میں مخالفین نے جو رویہ اختیار کر رکھا تھا اور خاص طور پر آخرت کے حوالے سے وہ جس طرح مختلف اعتراضات اٹھا رہے تھے ان کا جواب دینے اور آخرت کی تصویر پیش کرنے کے بعد اب کلام کا رخ مخالفین کی ان ہٹ دھرمیوں اور زبان درازیوں کی طرف پھر گیا ہے جس کا اظہار وہ مختلف صورتوں میں کرتے رہتے تھے اور ساتھ ہی آنحضرت ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ ان کی یا وہ گوئی سے دل گرفتہ نہ ہوں بلکہ جس عظیم کام کے لیے آپ کو مبعوث کیا گیا ہے اس کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے رہیں۔ اقرار کی صورت میں تبشیر سے کام لیں اور انکار کی صورت میں انذار سے۔ اس طرح سے انھیں اس عظیم کام کی یاد دہانی جاری رکھیں۔ رہی یہ بات کہ وہ آپ کے بارے میں جس طرح کی بدزبانیاں کرتے ہیں وہ صرف ان کی بےبسی اور کمزوری کے ثبوت کے سوا اور کچھ نہیں۔ جب ایک شخص دلیل کے میدان میں ناکام ہوجاتا ہے اور صداقت کے جواب میں اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں رہتا تو وہ دلیل دینے والے اور صداقت کی طرف دعوت دینے والے کی شخصیت کو نشانہ بناتا ہے تاکہ لوگ اس کی طرف سے بدگمان ہو کر اس کی دعوت سے متأثر نہ ہونے پائیں۔ قریش مکہ اور دیگر مخالفین بھی یہی کچھ کررہے تھے۔ آنحضرت ﷺ جب انھیں قرآن پاک پڑھ کر سناتے اور یہ بھی بتاتے کہ یہ کتاب مجھ پر اللہ تعالیٰ نے نازل کی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو فرشتے کے واسطے سے مجھ پر نازل ہوا ہے۔ تو وہ بجائے قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کا جواب دینے اور اس کے پیش کردہ نظام زندگی پر بحث کرنے کے آنحضرت ﷺ کو کبھی کاہن کہتے اور کبھی آپ کو مجنون ٹھہراتے۔ کاہن کا مفہوم اور آنحضرت ﷺ پر اس الزام کا جواب کاہن عربی زبان میں جوتشی اور غیب جاننے کا دعویٰ کرنے والے کو کہتے ہیں۔ دورِجاہلیت میں یہ ایک مستقل پیشہ تھا جس کو بعض لوگ دنیا طلبی کے لیے اختیار کرتے تھے۔ وہ لوگوں کے ضعفِ اعتقاد سے فائدہ اٹھاتے اور لوگوں کے دلوں میں اپنی برتری کا رعب بٹھانے کے لیے کبھی ستارہ شناس ہونے کا دعویٰ کرتے اور کبھی ارواح اور شیاطین اور جنوں سے اپنے تعلق کا صور پھونکتے۔ اور لوگوں کے مختلف سوالوں کے جواب میں مسجع اور مقفع عبارت بولتے اور گول مول باتیں کرتے۔ مخصوص قسم کی وضع قطع بنائے رکھتے۔ لیکن ان تمام شعبدہ بازیوں اور عیاریوں سے طلب دنیا کے سوا اور کوئی مقصد نہ ہوتا۔ یہ کاہن کا وہ تعارف ہے جس سے اس زمانے کا کوئی شخص بھی انکار نہیں کرسکتا۔ سوال یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کو اس تعارف کو سامنے رکھتے ہوئے کیسے کاہن قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس لیے اس کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ آپ اپنے رب کے فضل و کرم سے نہ کاہن ہیں اور نہ مجنون ہیں۔ آپ کی زبان سے حکمت و معرفت کا چشمہ ابلتا ہے، راست بازی اور حق گوئی آپ کی علامت ہے، روح القدس آپ پر اترتے ہیں، آپ لوگوں کے دل و دماغ کی تطہیر کرتے اور ان کے اعمال میں پاکیزگی پیدا کرتے ہیں، آپ کی وضع قطع ایک عام آدمی جیسی ہے لیکن آپ کا حُسنِ کردار اور آپ کی فکری برتری اپنا لوہا منوائے بغیر نہیں رہتی۔ اور یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے ورنہ جس ماحول میں آپ نے تربیت پائی اس میں ایسی باتوں کا تصور تک موجود نہ تھا۔ جو لوگ آپ پر ایمان لاتے اور آپ کا اتباع کرتے ہیں وہ اپنے سیرت و کردار اور بول چال تک میں اپنے دور سے یکسر مختلف ہوجاتے ہیں۔ ان کے کردار کی بلندی اپنی غربت کے باوجود بھی چھپی نہیں رہتی۔ مخالفین بھی جانتے ہیں کہ آپ کا کہانت سے کوئی تعلق نہیں۔ اور کاہنوں جیسی وضع قطع اور سیرت و کردار سے آپ کا دور کا رشتہ بھی نہیں۔ آپ ﷺ پر مجنون کے الزام کی حقیقت اسی طرح کفارِمکہ کا آپ کو مجنون قرار دینا ایک الزام کے سوا کوئی حقیقت نہیں رکھتا کیونکہ الزام لگانے والے بھی جانتے ہیں کہ آپ جس بات کی دعوت دیتے اور لوگوں سے جس طرح حُسنِ سلوک سے پیش آتے اور اللہ تعالیٰ کا جو کلام پڑھ کر سناتے اور اپنے پاس آنے والوں کی جس طرح تربیت کرتے ہیں ان میں سے ایک ایک بات ایسی ہے جس پر عقل و دانش ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔ اس میں جنون والی بات کون سی ہے۔ رہی یہ بات کہ جب وحی آپ پر اترتی ہے تو آپ وحی کے جلال سے خاموش ہوجاتے، سر جھکا لیتے اور اس وقت تک دم بخود رہتے ہیں جب تک وحی کا سلسلہ ختم نہیں ہوجاتا۔ تو یہ تو آپ کی صداقت کی دلیل ہے نہ کہ آپ کے مجنون ہونے کی۔ لیکن جب کوئی شخص دشمنی کا ادھار کھا لیتا ہے اور وہ مخالفت میں شرم و حیاء کا ہر پردہ چاک کردیتا ہے تو وہ اپنی کمزوری کو چھپانے کے لیے الزامات سے داعی حق کا راستہ روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ جس طرح موجودہ زمانے میں بعض بےشرم مغربی مصنفین اسلام کیخلاف اپنے بغض کی آگ ٹھنڈی کرنے کے لیے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ معاذاللہ حضور ﷺ پر صرع یعنی مرگی کے دورے پڑتے تھے اور ان ہی دوروں میں جو کچھ آپ کی زبان سے نکلتا تھا لوگ اسے وحی سمجھ کر قبول کرلیتے تھے۔ اسی طرح مشرکینِ مکہ بھی آنحضرت ﷺ پر مجنون ہونے کا الزام لگاتے تھے۔ لیکن جو شخص بھی آپ کے لائے ہوئے دین اور آپ کی قیادت اور رہنمائی کے حیرت انگیز کارناموں پر غور کرے گا وہ ان الزامات کی حقیقت کو بڑی آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔
Top