Ruh-ul-Quran - At-Tur : 37
اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَآئِنُ رَبِّكَ اَمْ هُمُ الْمُصَۜیْطِرُوْنَؕ
اَمْ عِنْدَهُمْ : یا ان کے پاس خَزَآئِنُ : خزانے ہیں رَبِّكَ : تیرے رب کے اَمْ هُمُ الْمُصَۜيْطِرُوْنَ : یا وہ محفاظ ہیں۔ داروغہ ہیں
کیا آپ کے رب کے خزانے ان کے پاس ہیں یا وہ ان پر نگران بنائے گئے ہیں
اَمْ عِنْدَھُمْ خَزَآئِنُ رَبِّـکَ اَمْ ھُمُ الْمُصَیْطِرُوْنَ ۔ (الطور : 37) (کیا آپ کے رب کے خزانے ان کے پاس ہیں یا وہ ان پر نگران بنائے گئے ہیں۔ ) قریش کے اعتقادات کے تناظر میں ان سے چند سوالات قریشِ مکہ کے بعض اعتقادات کی وجہ سے ان سے چند سوالات کیے گئے ہیں۔ ان کا ایک اعتقاد یہ تھا کہ نبوت اور رسالت ایک عظیم منصب ہے اس کا اہل اول تو انسان نہیں ہوسکتا، کسی فرشتے کو ہونا چاہیے۔ اور اگر مان لیا جائے کہ انسانوں کی اصلاح کے لیے کسی انسان ہی کو رسول بن کر آنا چاہیے تو اسے یقینا اپنے وقت کا دولت و ثروت کے حوالے سے کوئی نمایاں ترین فرد ہونا چاہیے تاکہ لوگ اس کی عظمت اور بڑائی کے سامنے جھکیں اور ان کے احترام کی وجہ سے اس کی نبوت کو تسلیم کرلیں۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اس دور میں نبوت دی بھی گئی تو ایک ایسے شخص کو جو یتیم پیدا ہوا اور نہایت عسرت سے زندگی گزاری۔ اور آج تک اسے ایسا مال و دولت حاصل نہیں ہوسکا جو اسے بڑے لوگوں میں شامل کرسکے۔ حالانکہ مکہ اور طائف میں ذاتی وجاہت اور دولت و ثروت کے اعتبار سے بڑے بڑے لوگ موجود تھے۔ نبوت اگر دینا ہی تھی تو ایسے کسی شخص کو ملنی چاہیے تھی۔ یہ بھی ان کا اعتقاد تھا کہ دنیا میں خوشحالی، اثرورسوخ اور دولت و ثروت اللہ تعالیٰ کی دین ہے اور یہ اسی شخص کو ملتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ لوگوں میں سے ہوتا ہے۔ اور جو لوگ اس سے محروم رکھے جاتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ لوگ ہیں۔ اس سے استدلال کرتے ہوئے وہ یہ بات کہتے ہیں کہ آج خوشحالی ان لوگوں کو میسر ہے جو مدعی نبوت کی بات سننے کے روادار نہیں۔ دولت و ثروت کے وہ مالک ہیں جنھیں یہ بھی گوارا نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نبی اور اس پر ایمان لانے والوں کے ساتھ بیٹھیں۔ تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پسندیدگی مسلمانوں کو نہیں بلکہ ان لوگوں کو حاصل ہے جو پیغمبر پر ایمان نہیں لائے۔ اور اگر قیامت آہی گئی تو وہاں بھی ان ہی لوگوں کو سرافرازی حاصل ہوگی جو آج دولت و ثروت میں کھیل رہے ہیں۔ کیونکہ یہی اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے ہیں۔ ان دونوں باتوں کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ نبوت اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اور وہ اپنی رحمت کا مستحق کسے بناتا ہے یہ سراسر اس کا فیصلہ ہے۔ اور اس میں کوئی دوسرا شخص دخل نہیں دے سکتا۔ اسی طرح دولت و ثروت بھی اللہ تعالیٰ کے خزانوں سے آتی ہے اور ان خزانوں کی مالک بھی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ جسے وہ چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ مشرکینِ مکہ نے جس طرح خانہ ساز قسم کے خیالات اپنا رکھے ہیں اس کا مطلب تو یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزانوں کا مالک سمجھتے ہیں یا ان کا گمان یہ ہے کہ ان خزانوں کی تقسیم پر وہ مامور کیے گئے۔ جسے وہ پسند کریں ان کے لیے یہ خزانے کھلتے ہیں اور جنھیں وہ ناپسند کریں نہ انھیں نبوت مل سکتی ہے نہ انھیں دولت سے بہرہ ور کیا جاسکتا ہے۔
Top