Ruh-ul-Quran - At-Tur : 9
یَّوْمَ تَمُوْرُ السَّمَآءُ مَوْرًاۙ
يَّوْمَ : جس دن تَمُوْرُ السَّمَآءُ : پھٹ جائے گا۔ لرزے گا، آسمان مَوْرًا : لرزنا۔ ڈگمگانا
اس دن کو یاد رکھو جس دن آسمان بری طرح ڈگمگائے گا
یَّوْمَ تَمُوْرُالسَّمَـآئُ مَوْرًا۔ وَّتَسِیْرُالْجِبَالُ سَیْرًا۔ فَوَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ ۔ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ خَوْضٍ یَّلْعَبُوْنَ ۔ (الطور : 9 تا 12) (اس دن کو یاد رکھو جس دن آسمان بری طرح ڈگمگائے گا۔ اور پہاڑ چلنے لگیں گے۔ پس تباہی ہے اس روز ان جھٹلانے والوں کے لیے۔ جو اپنی حجت بازیوں میں کھیل رہے ہیں۔ ) قیامت کی تصویر اور شبہات کا ازالہ اہلِ عرب کی عادت یہ تھی کہ جب آنحضرت ﷺ ان کے سامنے قیامت برپا ہونے کا ذکر فرماتے جس میں پہلے مرحلے پر ہر چیز ٹوٹ پھوٹ جائے گی اور دوسرے مرحلے پر ازسرنو زندگی برپا ہوگی تو وہ اعتراض کرتے ہوئے کہتے کہ یہ اتنا مستحکم بنا ہوا آسمان کیسے ٹوٹ پھوٹ جائے گا ؟ اور زمین پر جمے ہوئے پہاڑ کیسے اپنی جگہ چھوڑ دیں گے ؟ تو ان کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جس دن قیامت برپا ہوگی اس دن آسمان بھی اپنی جگہ قائم نہ رہ سکے گا۔ وہ مضطرب اور متردد ہو کر ادھر ادھر حرکت کرتا نظر آئے گا۔ یعنی اس روز عالم بالا کا سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا اور وہ پہاڑ جنھیں تم بہت مستحکم سمجھتے ہو وہ ہوا میں اڑتے پھریں گے اور ایسے معلوم ہوگا جیسے وہ چل رہے ہیں۔ اور دوسری جگہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پروردگار ان پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کردے گا۔ پھر اس دن ان لوگوں کے لیے جو آنحضرت ﷺ کی دعوت کا مذاق اڑاتے اور آپ کی ہر بات میں میں میخ نکالتے، اور ان بنیادی موضوعات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی بجائے محض تفریحاً ان پر باتیں چھانٹتے، ان کے لیے فرمایا گیا ہے کہ اس دن ان کے لیے ہلاکت اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ انھوں نے ہر صداقت کی تکذیب کی اور پھر ان ہلا دینے والی باتوں کو استہزاء اور مذاق کا موضوع بنایا۔ خوض کا مفہوم خوض کا معنی کسی چیز کے اندر گھسنے کے ہیں۔ خَاضَ الْقَوْمُ فِی الْحَدِیْثِ کا محاورہ اسی سے نکلا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ لوگ بات سے بات پیدا کرتے ہوئے کہیں سے کہیں جا پہنچے۔ یہاں اس کے ساتھ یَلْعَبُوْنَ کا اضافہ کرتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ وہ نہ صرف آنحضرت ﷺ کی دعوت کو بےجا اور بےمحابا گفتگو کا موضوع بناتے اور پھر کہیں کا کہیں پہنچ جاتے ہیں۔ بلکہ وہ یہ سب کچھ محض تفریحِ طبع کے لیے کرتے ہیں۔ متانت اور سنجیدگی انھیں چھو کر بھی نہ گزرتی۔ ان لوگوں کا یہ رویہ قیامت کے دن ان کے لیے تباہی کا باعث بنے گا۔ اور حق کی مخالفت میں ان کی یہ نکتہ آفرینیاں انھیں بہت مہنگی پڑیں گی۔
Top