Ruh-ul-Quran - An-Najm : 18
لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰیٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى
لَقَدْ رَاٰى : البتہ تحقیق اس نے دیکھیں مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ : اپنے رب کی نشانیوں میں سے الْكُبْرٰى : بڑی بڑی
اور آپ نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں
لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیٰتِ رَبِّہِ الْـکُبْرٰی۔ (النجم : 18) (اور آپ نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔ ) آنحضرت ﷺ کے مشاہدات کی حقیقت گزشتہ آیات میں آپ نے جو حیران کن مشاہدات کیے ان میں خاص طور پر ایک ایسے وجود کا افقِ اعلیٰ پر نمودار ہونا اور پھر انتہائی قریب آجانا اور آپ پر وحی کا اتارنا، اس سے کسی کو غلط فہمی ہوسکتی تھی کہ نہ جانے اس سے کیا مراد ہے۔ لیکن پیش نظر آیت کریمہ نے ایسے تمام واہموں کو ختم کرکے رکھ دیا اور حتمی انداز میں یہ بات ارشاد فرمائی کہ عالم ناسوت کی انتہا اور عالم لاہوت کی ابتداء کے نقطہ اتصال پر آپ نے جسے دیکھا تھا وہ اللہ تعالیٰ کی ذات نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی آیات تھیں۔ یعنی وہ بڑی بڑی نشانیاں تھیں جنھیں صرف آنحضرت ﷺ ہی دیکھ سکتے تھے۔ اور پھر ان نشانیوں کی کوئی تفصیل بیان نہیں فرمائی۔ کیونکہ وہ نہ ہماری عقل کی گرفت میں آسکتیں اور نہ ہمارا وجدان ان کا ادراک کرسکتا۔ البتہ کبریٰ کے لفظ نے اس بات کا تعین کردیا کہ وہ نشانیاں ان نشانیوں سے بالاتر تھیں جن کا مشاہدہ آفاق وانفس میں ہر قدم پر ہر صاحب نظر کو ہوتا ہے۔ البتہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ان مشاہدات میں سے چند کا تذکرہ معراج کی روایات میں کیا گیا ہے۔ اور جس وجود کو آپ نے افقِ اعلیٰ پر پہلی مرتبہ دیکھا اور پھر اسے دوسری دفعہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا۔ وہ بھی اللہ نہ تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کے عظیم فرشتے حضرت جبرائیل تھے۔ کیونکہ اگر آنحضرت ﷺ نے اس موقع پر پروردگار کی زیارت کی ہوتی تو یہ ایک ایسا غیرمعمولی واقعہ ہوتا جس کا ذکر قرآن کریم میں ضرور ہوتا جبکہ قرآن کریم اس بات کا ذکر کرچکا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی جلالتِ قدر کے باوجود جب اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی درخواست کی تو پروردگار نے انکار فرما دیا کہ آپ مجھے نہیں دیکھ سکتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ شرف صرف آنحضرت ﷺ کو عطا کیا گیا کہ یہ کیسے ممکن تھا کہ قرآن کریم آنے والی دنیا کو اس عظیم شرف کی آگاہی سے محروم رکھتا۔ لیکن قرآن کریم میں کہیں اشارہ تک نہیں کیا گیا کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تھا۔ بلکہ سورة بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں واقعہ معراج کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ہم اپنے بندے کو اس لیے لے گئے تھے کہ اس کو اپنی نشانیاں دکھائیں۔ اور یہاں سدرۃ المنتہیٰ پر حاضری کے سلسلے میں بھی یہ فرمایا گیا کہ اس نے اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں۔ اس لیے اس بحث کی کوئی گنجائش نہیں کہ آپ نے معراج کے سفر میں پروردگار کو دیکھا تھا یا نہیں۔ مزیدبرآں یہ کہ حضرت عائشہ ( رض) کی روایات نے اس معاملے کو اس قدر مبرہن کردیا ہے کہ اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ بخاری، کتاب التفسیر میں حضرت مسروق کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عائشہ ( رض) سے عرض کیا ” اماں جان، محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ “ انھوں نے جواب دیا : ” تمہاری اس بات سے میرے تو رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ تم یہ کیسے بھول گئے کہ تین باتیں ایسی ہیں جن کا اگر کوئی شخص دعویٰ کرے تو جھوٹا دعویٰ کرے گا۔ “ (ان میں سے پہلی بات حضرت عائشہ ( رض) نے یہ فرمائی) کہ ” جو شخص تم سے یہ کہے کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تھا وہ جھوٹ کہتا ہے۔ “ پھر حضرت عائشہ ( رض) نے یہ آیتیں پڑھیں لاَ تُدْرِکُـہُ الْاَبْصَارُ (نگاہیں اس کو نہیں پاسکتیں، اور مَاکَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّـکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلاَّ وَحْیًا اَوْمِنْ وَّرَائِ حِجَابٍ اَوْیُرْسِلَ رَسُوْلاً فَیُوْحِیْ بِاِذْنِہٖ مَایَشَآئُ (کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر یا تو وحی کے طور پر، یا پردے کے پیچھے سے، یا یہ کہ ایک فرشتہ بھیجے اور وہ اس پر اللہ کے اذن سے وحی کرے جو کچھ وہ چاہے) ۔ اس کے بعد انھوں نے فرمایا ” لیکن رسول ﷺ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو دو مرتبہ ان کی اصلی صورت میں دیکھا تھا۔ “ اس حدیث کا ایک حصہ بخاری، کتاب التوحید، باب 4 میں ہے اور کتاب بدء الخلق میں مسروق کی جو روایت امام بخاری نے نقل کی ہے اس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ ( رض) کی یہ بات سن کر عرض کیا کہ پھر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا کیا مطلب ہوگا ثُمَّ دَنٰی فَتَدَلّٰی فَـکَان قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْاَدْنٰی ؟ اس پر انھوں نے فرمایا ” اس سے مراد جبرئیل ہیں۔ وہ ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے انسانی شکل میں آیا کرتے تھے مگر اس موقع پر وہ اپنی اصلی شکل میں آپ کے پاس آئے اور سارا افق ان سے بھر گیا۔ “ مسلم کتاب الایمان باب فی ذکر سدرۃ المنتہیٰ میں حضرت عائشہ ( رض) سے مسروق کی یہ گفتگو زیادہ تفصیل کے ساتھ نقل ہوئی ہے اور اس کا سب سے اہم حصہ یہ ہے : حضرت عائشہ ( رض) نے فرمایا ” جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تھا وہ اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا افترا کرتا ہے۔ “ مسروق کہتے ہیں کہ میں ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ یہ بات سن کر میں اٹھ بیٹھا اور میں نے عرض کیا، ام المومنین جلدی نہ فرمایئے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ وَلَقَدْ رَاٰہُ بِالْاُفُقِ الْمُبِیْنِ ؟ اور لَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَـۃً اُخْرٰی ؟ حضرت عائشہ ( رض) نے جواب دیا اس امت میں سب سے پہلے میں نے ہی رسول اللہ ﷺ سے اس معاملے کو دریافت کیا تھا۔ حضور ﷺ نے فرمایا انما ھوجبریل علیہ السلام، لم ارہٗ علٰی صورتہ التی خلق علیھا غیرھا تین المرتین، رایتہٗ منھبطا من السمآء سادّا عظم خلقہ مابین السّماء والارض ” وہ تو جبریل (علیہ السلام) تھے۔ میں نے ان کو ان کی اس اصلی صورت میں جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا ہے، ان دو مواقع کے سوا کبھی نہیں دیکھا۔ ان دو مواقع پر میں نے ان کو آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا، اور ان کی عظیم ہستی زمین و آسمان کے درمیان ساری فضا پر چھائی ہوئی تھی۔ “ ابنِ مزدویہ نے مسروق کی اس روایت کو جن الفاظ میں نقل کیا ہے وہ یہ ہیں ” حضرت عائشہ ( رض) نے فرمایا، سب سے پہلے میں نے ہی رسول اللہ ﷺ سے یہ پوچھا تھا کہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ حضور ﷺ نے جواب دیا نہیں، میں نے تو جبرئیل (علیہ السلام) کو آسمان سے اترتے دیکھا تھا۔ “ (تفہیم القرآن)
Top