Ruh-ul-Quran - An-Najm : 19
اَفَرَءَیْتُمُ اللّٰتَ وَ الْعُزّٰىۙ
اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ : کیا پھر دیکھا تم نے لات کو وَالْعُزّٰى : اور عزی کو
کیا تم نے غور کیا ہے لات اور عزیٰ
اَفَرَئَ یْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰی۔ وَمَنٰوۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْرٰی۔ (النجم : 19، 20) (کیا تم نے غور کیا ہے لات اور عزیٰ ۔ اور منات پر جو تیسری اور درجہ کے اعتبار سے دوسری ہے۔ ) قریش کو ملامت اس آیت کریمہ کے اندر سوال میں تعجب کا پہلو بھی ہے اور استخفاف اور تحقیر کا بھی۔ تعجب اس بات پر کہ جس ذات عزیز نے تمہارے اندر نبوت کا دعویٰ کیا ہے وہ ذات تمہارے لیے اجنبی نہیں۔ تم اس کی زندگی کے ہر دور سے پوری طرح آگاہ ہو۔ اس کا حُسنِ کردار اور اصابتِ رائے ہمیشہ تمہاری نظروں میں قابل اعتماد رہی ہے اور تم نے ہمیشہ اسے عزت و احترام سے یاد کیا ہے۔ اور پھر زندگی کے جن حقائق کی تمہیں وہ دعوت دے رہا ہے ان میں سے ایک ایک بات نہ صرف اپنے اندر معقولیت رکھتی ہے بلکہ حقیقت اور صداقت کا اعلیٰ ترین معیار بھی ہے۔ اور تمہیں اس نے جس اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور اس کی صفات کو تسلیم کرنے کی ترغیب دی ہے تم اسے خالق ومالک مانتے، رزق رساں سمجھتے اور تمام ترعظمتوں کا مالک گردانتے ہو۔ اسے بجاطور پر یہ حق پہنچتا ہے کہ ایک مکلف مخلوق پر شریعت نازل کرے اور اس پر عمل کے لیے اس کو پابند بنائے۔ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ تم اس کے مقابلے میں دیویوں کے سامنے سر جھکاتے ہو، ان سے مرادیں مانگتے ہو اور انھیں اپنا معبود سمجھتے ہو۔ اور ان کی طرف منسوب رسم و رواج کو اپنے لیے شریعت سمجھتے ہو۔ سوال میں تخفیف اور تحقیر کا پہلو ان معنوں میں ہے کہ محمد کریم ﷺ نے تمہارے سامنے ایک ایسا کلام پیش کیا ہے جس کی نظیر لانے پر تم قادر نہیں۔ اور جو فرشتہ ان پر یہ کلام لے کر اترا ہے وہ اپنی حددرجہ بلندوبالا اور مقدس و محترم صفات کے حوالے سے اپنی نظیر آپ ہے۔ اور پھر جن حقائق کو اللہ تعالیٰ کا رسول تمہارے سامنے پیش کررہا ہے وہ اپنی نگاہوں سے انھیں دیکھ بھی چکا ہے۔ اور پھر جتنی صفات اس فرشتے کی ذکر کی گئی ہیں وہ تمام مردانہ ہیں جن میں نسوانیت کی بو تک نہیں۔ کس قدر ذلت کی بات ہے کہ تم اس مردانہ صفات کے حامل فرشتے کے لائے ہوئے پیغام اور اللہ تعالیٰ جیسے خالق ومالک کی بجائے چند دیویوں پر ایمان رکھتے ہو۔ جنھیں تم فرشتہ سمجھتے ہو اور اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں گردانتے ہو۔ تین دیویوں کی وضاحت ان میں نمونے کے طور پر تین دیویوں کا ذکر کیا جارہا ہے جو عقیدت اور مرجعیت کے اعتبار سے سب سے زیادہ اہمیت رکھتی تھیں۔ اور عرب کا ہر قبیلہ ان کی عظمت کی زنجیر میں بندھا ہوا تھا۔ ان تین دیویوں کا نام لات، عزیٰ اور منات تھا۔ جن اہل علم نے اَ لْاُخْرٰی کا ترجمہ ادنیٰ کے متضاد کے طور پر کیا ہے یعنی کم درجے والی۔ وہ اس کا یہ مطلب سمجھتے ہیں کہ اگرچہ عقیدت و عظمت میں عرب اس کا بھی ویسے ہی احترام کرتے تھے جیسے پہلی دونوں کا، لیکن پھر بھی یہ مرتبے میں ان سے دوسرے درجے پر تھیں۔ لیکن دیگر اہل علم نے اس کا ترجمہ دوسری یا ایک اور کے لفظ سے کیا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی دونوں دیویوں کی طرح یہ تیسری دیوی بھی تھی۔ یہ تینوں ایک ہی زمرے میں شمار ہوتی تھیں۔ اور سب اپنے مراتب اور مدارج میں برابر تھیں اور سب کے ساتھ ایک ہی طرح عرب عقیدت رکھتے تھے۔ ان میں سے پہلی ہے لات۔ اس کا استھان طائف میں تھا۔ بنو ثقیف اس کے بہت زیادہ معتقد تھے۔ اس کے معنی اور مادہ استقاق میں مفسرین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض لوگوں نے اس کو لَتّ کے مادہ سے لیا ہے جس کے معنی گوندنے اور متھنے کے ہیں۔ ان کا گمان یہ ہے کہ یہ دراصل ایک شخص تھا جو طائف کے قریب ایک چٹان پر رہتا تھا۔ اور زمانہ ٔ حج میں حاجیوں کو ستو گھول کر پلایا کرتا تھا۔ اس کے مرنے کے بعد لوگوں نے اس چٹان پر اس کا استھان بنا لیا اور اس کی عبادت کرنے لگے۔ لیکن یہ رائے صحیح معلوم نہیں ہوتی، کیونکہ قرآن کریم نے اس لفظ کی تا کو ساکن بیان فرمایا ہے جبکہ مادہ اشتقاق کے اعتبار سے اسے مشدد پڑھا گیا ہے۔ اور دوسری یہ بات کہ اس رائے میں اس شخص کو مذکر کہا گیا ہے جبکہ قرآن کریم اسے دیوی قرار دیتا اور مؤنث روایت کرتا ہے۔ عزیٰ … یہ عزیز اورا عز کی مؤنث ہے۔ اس کا معنی ہے عزت والی۔ اس کا استھان مکہ اور طائف کے درمیان وادی نخلہ میں حراض کے مقام پر واقع تھا۔ قریش اور دوسرے قبائل کے لوگ اس کی زیارت کرتے اور اس کے لیے قربانیاں کرتے تھے۔ منات… اس کا استھان مکہ اور مدینہ کے درمیان بحراحمر کے کنارے قدید کے مقام پر تھا۔ اسے مُنْـیَـۃٌ کے مادہ سے بنایا گیا ہے اس کا معنی ہے وہ دیوی جو آرزوئوں کے برآنے کا ذریعہ ہو۔ اوس و خزرج اور خزاعہ کے لوگ اس کے بہت معتقد تھے۔
Top