بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - An-Najm : 1
وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰىۙ
وَالنَّجْمِ : قسم ہے تارے کی اِذَا هَوٰى : جب وہ گرا
قسم ہے ستاروں کی، جب وہ غروب ہوگئے
وَالنَّجْمِ اِذَا ھَوٰی۔ مَا ضَلَّ صَاحِبُـکُمْ وَمَا غَوٰی۔ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی۔ اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی۔ (النجم : 1 تا 4) (قسم ہے ستاروں کی، جب وہ غروب ہوگئے۔ تمہارا ساتھی نہ بھٹکا ہے اور نہ گمراہ ہوا ہے۔ وہ اپنی خواہشِ نفس سے نہیں بولتا۔ وہ تو ایک وحی ہے جو اسے کی جاتی ہے۔ ) اَلنَّجْم سے مراد کیا ہے ؟ عام طور پر مفسرین اَلنَّجْمِ سے ثریا مراد لیتے ہیں۔ بعض اہل علم نے اس سے زہرہ مراد لیا ہے۔ لیکن ان دونوں میں سے کسی ایک کو مراد لینے پر بھی کوئی قرینہ موجود نہیں۔ ابوعبید نحوی کا قول زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کہ یہاں النجم بول کر جنسِ نجوم مراد لی گئی ہے، یعنی یہ اسم جنس کے مفہوم میں ہے۔ جیسے قرآن کریم نے سورة النحل اور سورة الرحمن میں اس سے اسم جنس ہی مراد لیا ہے۔ جیسے وَبِالنَّجْمِ ھُمْ یَھْتَدُوْنَ ” وہ ستاروں سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ “ یا وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدَانِ ” اور ستارے اور درخت سجدہ کرتے ہیں۔ “ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی آیت کے پہلے لفظ یعنی النجم سے پروردگار نے ستاروں کی قسم کھائی ہے لیکن ان ستاروں کی جب وہ غروب ہوجاتے ہیں۔ یعنی صرف ستاروں کی قسم نہیں بلکہ غروب ہونے والے ستاروں کی قسم ہے۔ اور ہم کئی دفعہ یہ بات پڑھ چکے ہیں کہ قسم کی حیثیت گواہ یا دلیل کی ہوتی ہے اور اس کے بعد کا آنے والا جملہ جوابِ قسم یا مقسم علیہ ہوتا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ دوسری آیت میں یہ جو فرمایا گیا کہ تمہارے صاحب یعنی نبی کریم ﷺ نہ بھٹکے ہیں اور نہ گمراہ ہوئے ہیں۔ یہ جوابِ قسم ہونے کی وجہ سے دعویٰ ہے جس کے ثبوت کے لیے قسم کی صورت میں دلیل پیش کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے جو آنحضرت ﷺ کی دعوت کو بےاثر کرنے اور قرآن کریم کو لوگوں کے لیے اجنبی بنانے میں جس پر اپیگنڈے سے کام لیا ہے اس کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ بھٹک گئے اور گمراہ ہوگئے ہیں۔ اس کی وجہ سے وہ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں جو ان کی دعوت کا مضمون ہیں۔ حالانکہ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ محمد ﷺ تمہارے صاحب اور تمہارے ساتھی ہیں۔ تمہارے لیے وہ کوئی اجنبی آدمی نہیں۔ تم ان کے بچپن، ان کے لڑکپن، ان کی جوانی اور ان کی ڈھلتی عمر سے واقف ہو۔ ان کے معاملات کی ایک ایک چیز تمہارے سامنے واضح ہے، ان کی زندگی ایک ایسی کھلی کتاب کی طرح ہے جس کے ایک ایک ورق سے تم آگاہ ہو۔ ان کی سیرت و کردار اور ان کے عادات و خصائل میں سے کوئی چیز بھی تمہاری نگاہوں سے مخفی نہیں۔ تو ان کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ گمراہ ہیں یا وہ بھٹکے ہوئے آدمی ہیں یہ ایک ایسی جسارت ہے جسے دشمنی میں اندھے آدمی کے سوا کوئی دوسرا شخص نہیں کرسکتا۔ اس کی دلیل پیش کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ستارے جب ٹمٹماتے رہتے ہیں تو ان کی دھیمی دھیمی اور مدہم سے روشنی میں چلنے والے، دیکھنے والے اور اندازہ لگانے والے قدم قدم پر غلطیاں کرتے ہیں۔ وہ اشیاء کی دھندلی سی شکلیں دیکھتے ہیں اور حقیقت کی پہچان میں عجیب و غریب غلطیاں کرتے ہیں۔ کسی درخت کو بھوت سمجھ بیٹھتے ہیں، ریت میں کوئی ابھری ہوئی چٹان دیکھ کر درندہ گمان کرتے ہیں۔ کیونکہ دھندلی روشنی جس میں اندھیرا غالب اور روشنی مغلوب ہوتی ہے آدمی کو غلط اندازہ لگانے سے بچا نہیں سکتی۔ لیکن جب ستارے ڈوب جائیں اور صبح روشن نمودار ہوجائے تو ہر چیز اپنی اصلی شکل میں دکھائی دینے لگتی ہے۔ اس وقت کسی چیز کی اصلیت میں کوئی اشتباہ پیش نہیں آتا۔ یہی معاملہ نبی کریم ﷺ کا ہے۔ اگر وہ تمہارے صاحب نہ ہوتے، یعنی تمہارے لیے اجنبی ہوتے اور کہیں باہر سے اچانک تمہارے شہر میں آکر نبوت کا دعویٰ کرتے تو تمہارے لیے اس بات کا ہزار دفعہ امکان تھا کہ تم ان کے بارے میں کچھ بھی گمان کرسکتے تھے۔ لیکن اب جبکہ ان کی زندگی اور شخصیت صبح روشن کی طرح تم پر پوری طرح عیاں ہے تو پھر تم انھیں گمراہ یا بھٹکا ہوا آدمی قرار دیتے ہو، تو اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ چالیس سال کی عمر تک جو شخص تمہارے لیے الامین، الصادق، نہایت عقیل اور معاملہ فہم انسان تھا آج یکلخت گمراہ کیسے ہوگیا ؟ اور اس نے جان بوجھ کر ایک ٹیڑھی راہ کیسے اختیار کرلی اور دوسرے لوگوں کو بھی اس ٹیڑھی راہ کی طرف دعوت دینے لگا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تم اس معاملہ کو دشمنی کی نگاہ سے دیکھ رہے ہو۔ پھر اسی سلسلہ ٔ مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ بھٹکا ہوا اور بہکا ہوا آدمی وہ ہوتا ہے جو خواہشِ نفس کی پیروی کرتا ہے۔ خواہشات کی تکمیل اور مفادات کے حصول کے لیے اپنے جی سے غلط سلط باتیں بناتا ہے اور لوگوں کے سامنے پیش کرکے اپنی غلط شخصیت کو استوار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ حالانکہ تم جانتے ہو کہ ایسی حرکتیں کرنے اور ایسے غلط عزائم پالنے کی عمر جوانی کی ہوتی ہے، ڈھلتی جوانی کی نہیں۔ اور جس شخص نے جوانی ایسی گزاری ہو کہ دشمن بھی اس کی پاکیزگی کی قسم کھاتے ہوں اور اسے جاننے والے اس کی اصابتِ رائے کے گن گاتے ہوں اس کے بارے میں یہ گمان نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ہَوائے نفس کے تحت ایسا کلام لوگوں کے سامنے پیش کرے گا جو اس کی اندرونی خواہشات کا آئینہ دار ہوگا۔ اس لیے فرمایا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا عظیم بندہ کبھی خواہشِ نفس سے نہیں بولتا، بلکہ جب بھی بولتا ہے وہ وحی ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل کی جاتی ہے۔ آیت میں وحی کے لفظ کا سب سے پہلا مصداق یقینا قرآن کریم ہے کہ آنحضرت ﷺ اس قرآن کریم کو اپنی خواہشِ نفس سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیش کرتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر وحی کیا جاتا ہے، وہ ان کا اپنا تصنیف کردہ نہیں ہوتا۔ ایک سوال کا جواب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ آپ اپنی خواہشِ نفس سے نہیں بولتے بلکہ آپ جو کچھ کہتے ہیں وہ ایک وحی ہے جو آپ پر نازل کی جاتی ہے۔ کیا اس کا اطلاق صرف قرآن کریم پر ہوتا ہے یا کسی اور چیز پر بھی، اسے بہت اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کی شخصیت چار حوالوں سے عبارت ہے۔ پہلا حوالہ یہ ہے کہ آپ نے اسلام کے اصول، اسلام کی بنیادی تعلیمات، اسلام کے بنیادی نظریات یعنی عقائد، اسلام کی عائد کردہ عبادات اور احکام۔ انھیں نہایت اختصار کے ساتھ قرآن کریم کی صورت میں پیش کیا اور اسے لوگوں تک پہنچایا۔ دوسرا حوالہ آپ کی شخصیت کا یہ ہے کہ آپ نے ان اصولوں کو فروع کے ساتھ مرتبط کرکے قابل فہم اور قابل عمل بنایا۔ آپ نے ہر مجمل کی تفصیل بیان فرمائی، ہر مبہم چیز کو کھولا اور تھیوری کو پریکٹس میں لا کر عملی شکل مہیا فرمائی۔ اور یہ وہ چیز ہے جو وحی کی صورت میں آپ پر نازل کی گئی لیکن اسے وحی خفی کہتے ہیں۔ تیسرا حوالہ آپ کی شخصیت کا یہ ہے کہ اگر کسی معاملے میں وحی نازل نہیں ہوئی تو آپ نے اس پر اجتہاد فرمایا۔ یعنی پیش آمدہ معاملہ کے لیے ایسا حکم تجویز کیا جسے اسلامی حکم قرار دیا گیا۔ لیکن اس میں ہم ایک عجیب حیرت انگیز چیز دیکھتے ہیں کہ بعض اجتہادات کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اصلاح فرمائی گئی اور ضرورت محسوس ہوئی تو اس میں کسی چیز کو بدل دیا گیا اور باقی اجتہادات کو کبھی صراحتاً دین کی شکل دی گئی اور کبھی اس پر خاموشی اختیار کرکے اسے آنحضرت ﷺ کی سنت بنادیا گیا۔ آپ کی شخصیت کا چوتھا حوالہ یہ ہے کہ آپ نے عادات و خصائل کے طور پر بعض چیزیں اختیار کیں، بعض چیزوں کو آپ نے پسند و ناپسند کا شرف بخشا، بعض چیزوں پر آپ نے خاموشی اختیار کی، اور بعض چیزیں آپ کی عادات کی صورت اختیار کرگئیں۔ ان تمام چیزوں کا تعلق آپ کے مزاج اور آپ کے ذوق سے ہے۔ مزاج ہمیشہ ایسے تصورات سے جنم لیتا ہے جو کسی بھی شخصیت کے بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں اور ذوق کبھی جمالیاتی ذوق کی صورت اختیار کرتا ہے اور کبھی عفو و درگزر کے قالب میں ڈھل جاتا ہے۔ ایسی تمام صورتوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نہیں آتی اور آپ اس کے لیے اجتہاد بھی نہیں فرماتے۔ لیکن یہ وہ چیزیں ہیں جو مزاج اور ذوق کی صورت میں خود بخود عملی صورت اختیار کرتی جاتی ہیں۔ لیکن انھیں حق اس معنی میں قرار دیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو معصوم پیدا فرمایا ہے۔ عصمت ہرحال میں آپ کی نگرانی کرتی ہے۔ وہ کبھی آپ سے ایسا فعل سرزد نہیں ہونے دیتے جو اسلام کے کسی تقاضے سے بھی متصادم ہوتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھ پر قرآن کریم نازل کیا ہے، میرے ہونٹوں سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ اور اسی طرح آپ نے یہ بات بھی ارشاد فرمائی کہ مجھ سے جس بات کا ظہور رات کی تاریکی میں دیکھو، دن کے اجالے میں اس کا اعلان کردو۔ کیونکہ میں کوئی ایسا کام نہیں کرسکتا جس میں اللہ تعالیٰ کی رضا شامل نہ ہو اور جسے اسلامی قرار نہ دیا جاسکے۔
Top