Ruh-ul-Quran - An-Najm : 39
وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىۙ
وَاَنْ لَّيْسَ : اور یہ کہ نہیں لِلْاِنْسَانِ : انسان کے لیے اِلَّا مَا سَعٰى : مگر جو اس نے کوشش کی
اور یہ کہ انسان کے لیے وہی ہے جو اس نے کمائی کی ہوگی
وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی۔ وَاَنَّ سَعْیَہٗ سَوْفَ یُرٰی۔ ثُمَّ یُجْزٰہُ الْجَزَآئَ الْاَوْفٰی۔ (النجم : 39 تا 41) (اور یہ کہ انسان کے لیے وہی ہے جو اس نے کمائی کی ہوگی۔ اور یہ کہ اس کی کمائی عنقریب دیکھی جائے گی۔ اور پھر اس کو پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ ) گزشتہ مضمون کی مزید وضاحت اس آیت میں اوپر والی آیت کی مزید وضاحت فرمائی گئی ہے۔ یعنی گزشتہ صحیفوں میں یہ بات بھی واضح کردی گئی تھی کہ ہر شخص اللہ تعالیٰ کے یہاں صرف اپنی محنت کا حاصل پائے گا۔ یعنی یہ نہیں ہوگا کہ نیکی کوئی کرے اور اس کا پھل کسی اور کو ملے۔ اس طرح یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ کوئی شخص برائی کرے اور اس کی سزا کوئی اور بھگتے۔ یعنی مالک اور زمیندار کے جرم میں مملوک اور ہاری پکڑا جائے۔ اور صاحب کو اس لیے چھوڑ دیا جائے کہ اسے پکڑنے کی قانون میں ہمت نہیں یا اسے گرفت میں نہیں لایا جاسکتا۔ اس سے خودبخود یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ گزشتہ امتوں میں اور اس امت میں بھی یہ تصور کہ اگر آبائواجداد بڑے نیک لوگ اور بڑی فضیلت کے مالک تھے تو ان کے جانشین چاہے وہ سیرت و کردار کی کیسی قباحتوں میں ملوث ہوں وہ اپنے آبائواجداد کی خوبیوں کی وجہ سے بخشے جائیں گے۔ یہ برائی چونکہ بہت پرانی ہے اس لیے قرآن کریم نے کئی جگہ اس کا ذکر فرمایا۔ سورة البقرۃ آیت 134 میں ارشاد فرمایا گیا تِلْـکَ اُمَّۃٌ قَدْخَلَتْ لَھَامَا کَسَبَتْ وَلَـکُمْ مَّاکَسَبْتُمْ ” یہ ایک گروہ تھا جو گزر گیا، اس کو ملے گا جو اس نے کمایا اور تمہیں ملے گا جو تم کمائو گے۔ “ اگر نیک باپ کے اعمال کے صلہ میں بیٹے کی بخشش ہوسکتی ہے تو حضرت نوح (علیہ السلام) سے زیادہ نیک کون ہوسکتا ہے۔ اور اگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جیسے خلیل اللہ کی دعا کافر باپ کے لیے قبول ہوسکتی، تو آذر رانداہ درگاہ نہ ہوتا۔ ایک مومن کو دوسرے مومن کی نیکی کا فائدہ صرف دو صورتوں میں پہنچتا ہے۔ ایک یہ کہ نیکی ایمان کے رشتہ محبت پر مبنی ہو۔ مثلاً ایک مومن اپنے دوسرے مومن بھائی کے لیے دعا کرے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا۔ اور دوسرا یہ کہ آدمی کو بلاواسطہ یا بالواسطہ اس نیکی میں کوئی دخل ہو۔ مثلاً باپ کا حُسنِ تربیت، استاد کا اخلاص کے ساتھ شاگردوں کو تعلیم دینا اور اپنا عملی نمونہ پیش کرنا یا تعلیم کے لیے صاحب حیثیت لوگوں کا وسائل فراہم کرنا۔ اس طرح کا کوئی دخل بھی اس نیکی میں اسے فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ ورنہ اصولی طور پر نیکی اسی کے لیے مفید ہے جس سے وہ صادر ہوتی ہے۔ اور برائی بھی اسی کے لیے نقصان دہ ہے جو اس کا ارتکاب کرتا ہے۔ مزید فرمایا کہ نیکی کا اجر اور برائی پر سزا یہ محض خیالی باتیں نہیں۔ بلکہ جس نے بھی نیکی یا برائی کا ارتکاب کیا وہ قیامت کے دن اپنی آنکھوں سے دیکھے گا کہ اس کے نامہ عمل میں اس کی ایک ایک نیکی موجود ہوگی اور اس کے تمام اعمال کا جائزہ لیا جائے گا۔ اور پھر ایسا نہیں ہوگا کہ کسی کی نیکی کے بدلے میں کمی کی جائے اور کسی برائی کی سزا میں اضافہ کردیا جائے۔ ہر شخص جزاء و سزا کے معاملے میں عدل و انصاف کو بروئے کار آتے دیکھے گا۔
Top