Ruh-ul-Quran - An-Najm : 43
وَ اَنَّهٗ هُوَ اَضْحَكَ وَ اَبْكٰىۙ
وَاَنَّهٗ : اور بیشک اس نے هُوَ اَضْحَكَ : وہی ہے جس نے ہنسایا وَاَبْكٰى : اور رلایا
بیشک وہی ہے جو ہنساتا ہے اور رولاتا ہے
وَاَنَّـہٗ ھُوَ اَضْحَکَ وَاَبْکٰی۔ وَاَنَّـہٗ ھُوَ اَمَاتَ وَاَحْیَا۔ وَاَنَّـہٗ خَلَقَ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی۔ مِنْ نُّطْفَۃٍ اِذَا تُمْنٰی۔ وَاَنَّ عَلَیْہِ النَّشْاَۃَ الْاُخْرٰی۔ (النجم : 43 تا 47) (بےشک وہی ہے جو ہنساتا ہے اور رولاتا ہے۔ اور بیشک وہی ہے جو مارتا ہے اور زندہ کرتا ہے۔ اور بیشک وہی ہے جس نے جوڑے کے دونوں فرد نر اور مادہ پیدا کیے۔ ایک بوند سے جب وہ ٹپکا دی جاتی ہے۔ اور بیشک دوبارہ اٹھانا اسی کی ذمہ داری ہے۔ ) اللہ تعالیٰ کی قدرت اور علم کی وسعت کی مثالیں اب چند ایسی باتیں بیان کی جارہی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی بےکراں قدرت، بےپناہ علم اور بیش بہا نعمتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ اور یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ جس ذات عزیز کے اس قدر احسانات ہوں گے اور جو اپنی قدرت و علم میں اس قدر مخلوقات پر چھائی ہوئی ہوگی اس کے سوا اور کون ہوسکتا ہے جو مولیٰ اور مرجع ہو۔ سب سے پہلی بات یہ فرمائی کہ وہی ہنساتا ہے اور وہی رلاتا ہے۔ ہنسنا خوشی کا نتیجہ ہے اور رونا غم کا نتیجہ ہے۔ اور مسلسل خوشیاں اچھی قسمت کی علامت ہیں اور مسلسل غم قسمت کے بگڑ جانے کی۔ قسمت کا بنانا یا بگاڑنا صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اور اگر تھوڑا سا تدبر کی نگاہ سے دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ طبیعت میں خوشی کی لہر کا اٹھنا اور یا صحیح موقع پر طبیعت میں حقیقی غم کا پیدا ہونا، یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ کتنے ایسے لوگ ہیں جن کو ہجومِ کار اور دولت کی ریل پیل نے احساسات سے محروم کردیا۔ اور کتنے ایسے لوگ ہیں جنھیں اقتدار کے نشے اور کرسی کی محبت نے خوشی اور غم کے تصورات سے بےنیاز کردیا۔ اس لیے جس کسی کو بھی یہ پاکیزہ احساسات نصیب ہوتے ہیں یقینا اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سایہ ہے۔ کسی نے سچ کہا تھا : گلشن میں جتنے پھول تھے، رنگ سب کے فق ملے میں ہنس دیا کہ ان کو بھی ہنسنے کا حق ملے دل کا ہر ایک گوشہ ٹٹولا بہ ایں خیال ممکن ہے دوستی کی یہیں کچھ رمق ملے اس کے بعد ارشاد فرمایا موت بھی وہی دیتا ہے اور زندگی بھی وہی عطا کرتا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی حقیقتیں حیات و ممات ہیں۔ ساری دنیا مل کر بھی کسی کو زندگی نہیں دے سکتی۔ اور اگر کوئی شخص زندگی سے مایوس ہو کر موت مانگے تو ظلم کے سوا دنیا اسے موت نہیں دے سکتی۔ غالب نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا : منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے مزید فرمایا کہ وہی ذات ہے جس نے مرد اور عورت کے جوڑے پیدا کیے، پانی کی ایسی بوند سے جسے ٹپکا یا جاتا ہے۔ یعنی رحم مادر میں جب پانی کی بوند ٹپکتی ہے تو اس کے بعد کوئی نہیں بتاسکتا کہ اس کی نشو و نما کیسے ہوگی۔ اس سے لڑکی پیدا ہوگی یا لڑکا، اس کی تکمیل ہوگی یا ناتمام ہی رہے گا، اس کی شکل و صورت کیسی ہوگی، اس کی سعادت و شقاوت کا کیا حال ہوگا، اس کی قسمت کیسی بنے گی۔ یہ ساری باتیں صرف وہ جانتا ہے جس نے مرد و عورت کے جوڑے پیدا کیے۔ پھر ان کے اندر جو حیرت انگیز تناسب پایا جاتا ہے یعنی کوئی ملک ایسا نہیں جس میں مرد زیادہ ہوں یا عورتیں زیادہ۔ معمولی فرق کے ساتھ کسی جگہ تناسب میں دراڑ نہیں پڑتی۔ یہ بجائے خود علم اور قدرت کی ایسی دلیل ہے اور اللہ تعالیٰ کے مولیٰ و مرجع ہونے کا ایسا ثبوت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ آخر میں فرمایا کہ جس کی قدرت اور علم کا حال ہم نے محولہ بالا مثالوں میں دیکھا اس کے بارے میں یہ تصور کرنا کہ وہ ایک دفعہ انسان کو پیدا کرکے تھک گیا ہے اب دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا یا اس کا علم اس قدر لاغر ہوگیا ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ کوئی شخص کہاں مرا اور کہاں دفن ہوا اور اس کے جسم کے ذرات کہاں ہیں۔ اور نہ اسے یہ خبر ہے کہ ہر شخص کے اعمال کیا ہیں اور کتنے ہیں۔ اس کی سوچ اور اس کے زاویہ ٔ نگاہ پر تأسف کا اظہار ہی کیا جاسکتا ہے۔
Top