Ruh-ul-Quran - An-Najm : 50
وَ اَنَّهٗۤ اَهْلَكَ عَادَا اِ۟لْاُوْلٰىۙ
وَاَنَّهٗٓ : اور بیشک وہی ہے اَهْلَكَ : جس نے ہلاک کیا عَادَۨا الْاُوْلٰى : عاد اولیٰ کو
اور یہ کہ اسی نے ہلاک کیا عاداولیٰ کو
وَاَنَّـہٗٓ اَھْلَـکَ عَادَا نِ الْاُوْلٰی۔ وَثَمُوْدَا ْ فَمَآ اَبْقٰی۔ وَقَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُ ط اِنَّھُمْ کَانُوْا ھُمْ اَظْلَمَ وَاَطْغٰی۔ (النجم : 50 تا 52) (اور یہ کہ اسی نے ہلاک کیا عاداولیٰ کو۔ اور ثمود کو بھی، پس ان میں سے کسی کو باقی نہ چھوڑا۔ اور ان سے پہلے قوم نوح کو بھی، بیشک وہ نہایت ظالم اور سرکش لوگ تھے۔ ) تاریخ کے حوالہ سے قریش کو تنبیہ یہ آیتیں حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ (علیہما السلام) کے صحیفوں کی آیتیں ہوں یا ان کی حیثیت توسیعِ کلام کی ہو، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کلام دونوں صورتوں میں اللہ تعالیٰ ہی کا ہے۔ اور اس سے مقصود قریش کو تنبیہ کرنا ہے کہ تم نے جو آج ہمارے رسول کے خلاف روش اختیار کر رکھی ہے اور تم اس کی تکذیب پر تلے ہوئے ہو اور تمہاری ایذارسانی حد سے بڑھتی جارہی ہے۔ یہی روش ان قوموں نے بھی اختیار کی جن میں سب سے پہلی قوم، قوم عاد تھی۔ اس سے مراد وہ قدیم قوم عاد ہے جس کی طرف حضرت ہود (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تھے۔ انھوں نے جب حضرت ہود (علیہ السلام) کی نہ صرف تکذیب کی بلکہ ان کے قتل کے درپے ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں ہجرت کا حکم دیا اور اس قوم کو عذاب کے ذریعے تباہ و برباد کردیا۔ پھر ان میں جو لوگ باقی بچے اور وہ حضرت ہود (علیہ السلام) پر ایمان لائے ان کی نسل کو عاداخریٰ کہا جاتا ہے اور ثمود ان ہی کے بقایا میں سے تھے۔ انھوں نے اپنے زمانے میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے دوائر میں خوب ترقی کی۔ انھوں نے پہاڑوں میں اپنے محلات کھودے۔ یہ اس زمانے کی ایسی ترقی یافتہ قوم تھی کہ جن کی قوت کی داستانیں آج بھی ضرب المثل ہیں۔ لیکن جب انھوں نے بھی تکذیب کا راستہ اختیار کیا اور اللہ تعالیٰ کے نبی کی دعوت کو قبول کرنا تو کجا سننا بھی گوارا نہ کیا۔ تو پھر ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب برسا اور ان کو ایسا تباہ کیا کہ کسی ایک شخص کو بھی زندہ نہ چھوڑا۔ اسی طرح ان سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم گزر چکی ہے۔ وہ عاد وثمود سے بھی بڑھ کر ظالم اور سرکش تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر بھی پانی کا سیلاب بھیجا اور انھیں تباہ کردیا۔ اس کے علاوہ بھی بعض قومیں ہلاک کی گئیں، لیکن ان میں سے کوئی قوم ایسی نہ تھی جن پر یہ تباہی اللہ تعالیٰ کے ظلم کا نتیجہ ہو۔ بلکہ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا یہ ان کے حد سے بڑھے ہوئے بگاڑ اور سرکشی کا نتیجہ تھا۔ قریش کو اچھی طرح یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات عادل ہے۔ وہ نہ کسی بھی ظلم کرتی ہے اور نہ کسی کی سرکشی کو حد سے بڑھ کر برداشت کرتی ہے۔ قریش نے بھی اگر اپنی روش نہ بدلی تو یہ بھی اس انجام سے بچ نہیں سکیں گے جو اس سے پہلی امتوں کا ہوچکا ہے۔
Top