Ruh-ul-Quran - An-Najm : 55
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكَ تَتَمَارٰى
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكَ : پس کون سی اپنے رب کی نعمتوں کے ساتھ۔ پس ساتھ کون سی اپنے رب کی نعمتوں کے تَتَمَارٰى : تم جھگڑتے ہو
پس اے مخاطب اپنے رب کی کن کن نشانیوں کے بارے میں تو شک کرے گا
فَبِاَیِّ اٰ لَآئِ رَبِّـکَ تَتَمَارٰی۔ (النجم : 55) (پس اے مخاطب اپنے رب کی کن کن نشانیوں کے بارے میں تو شک کرے گا۔ ) قریش کو ملامت جن قوموں نے بھی اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی تکذیب کی اور ان کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کیا، انھیں اللہ تعالیٰ نے جس طرح ہلاک اور تباہ کیا اس کا ذکر کرنے کے بعد آنحضرت ﷺ کی دعوت کے ہر مخاطب کو فرداً فرداً متوجہ کرکے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی کن کن نشانیوں پر شک کرو گے۔ اور پیغمبر جن عقائد، جن نظریات اور جن تصورات کا دعوت دیتا ہے ان میں سے تم کس کس کے بارے میں جھگڑا کرو گے۔ کیونکہ محولہ بالا قوموں کی تاریخ پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ جن باتوں کی وجہ سے ہم بدترین انجام سے دوچار ہوئے ہیں لوگو ! تم اس سے پرہیز کرنا۔ اور وہ رویہ اختیار نہ کرنا جس کی پاداش میں ہم پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا کوڑا برسا۔ آیتِ کریمہ میں اٰ لَآئِ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو اِلٰیکی جمع ہے۔ اس کا معنی عام طور پر نعمت سے کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ اس لفظ کا ادھورا مفہوم ہے۔ جس طرح اس کا اطلاق نعمت پر ہوتا ہے اسی طرح کرشمے، نشانیوں، عجائبِ قدرت اور کارناموں پر بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح آیت میں تَتَمَارٰی کا لفظ آیا ہے، جس کا معنی شک کرنا بھی ہوتا ہے اور جھگڑنا بھی۔ مقصود یہ ہے کہ سابقہ معذب قوموں نے اپنے نبیوں کی دعوت میں شک کیا۔ اور انھوں نے جن حقائق کے قبول کرنے کی دعوت دی ان کی صحت میں شک بھی کیا اور لڑنے جھگڑنے کے لیے تیار بھی ہوگئے۔ اور پھر ان باتوں کو دشمنی کا موضوع بنا لیا۔ اور وہ بھول گئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کیا نعمتیں عطا فرمائی ہیں اور یہ اسی کی عطا ہے اس میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ اور سابقہ امتوں کے انجام میں ہمارے لیے کیسی کیسی نشانیاں ہیں۔ انھوں نے ان نشانیوں سے عبرت حاصل کرنے سے بھی انکار کردیا۔ اور ہر بات میں شک کے راستے پر چل نکلے۔ ان کا انجام واضح ہے تم ان سے عبرت حاصل کرو۔ اور وہ روش اختیار نہ کرو جو ان کے لیے ہلاکت کا باعث ہوئی۔
Top