Ruh-ul-Quran - An-Najm : 62
فَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ وَ اعْبُدُوْا۠۩  ۞   ۧ
فَاسْجُدُوْا : پس سجدہ کرو لِلّٰهِ : اللہ کے لیے وَاعْبُدُوْا : اور عبادت کرو
پس اللہ ہی کو سجدہ کرو اور اسی کی بندگی بجا لائو
فَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ وَاعْبُدُوْا۔ (النجم : 62) (پس اللہ ہی کو سجدہ کرو اور اسی کی بندگی بجا لائو۔ ) خیرت و عافیت کے لیے نسخہ کیمیا سجدہ عاجزی اور فروتنی کی علامت ہے۔ اور عبادت پوری زندگی کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور بندگی میں دے دینے کا نام ہے۔ یعنی تمہاری خیریت اب اسی میں ہے اور تم اپنے برے انجام سے اسی صورت بچ سکتے ہو کہ خواب غفلت سے جاگو اور دوسرے دیویوں اور دیوتائوں کو چھوڑ کر اپنے رب ہی کو سجدہ کرو اور اسی کی بندگی بجالائو۔ بجائے سرکشی کے عاجزی اور فروتنی کا رویہ اختیار کرو۔ اور وہ زندگی جو اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اسے دوسرے کی مرضی کے مطابق بسر کرنے کی بجائے اس کی اطاعت اور رضا کے تابع کردو۔ ہم اس سے پہلے یہ بات عرض کرچکے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے جب اس سورة کو حرم میں لوگوں کے سامنے تلاوت کیا تھا تو آیت سجدہ پر پہنچ کر آپ نے سجدہ کیا اور مسلم اور کافر سب سجدے میں گرگئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ اس کی آخری آیت کو آیت سجدہ سمجھتے اور اس پر سجدہ کرتے تھے۔ اسی سے استدلال کرتے ہوئے امام ابوحنیفہ اور امام شافعی اور اکثر اہل علم اس آیت پر سجدہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ لیکن امام مالک اور بعض دیگر اہل علم حضرت زید بن ثابت ( رض) کی روایت کی وجہ سے اس سورة کی آخری آیت پر سجدہ کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔ کیونکہ حضرت زید بن ثابت ( رض) یہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے سورة نجم پڑھی اور حضور ﷺ نے سجدہ نہ کیا۔ لیکن اس سے آیت سجدہ پر سجدہ کا لازم نہ ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ کیونکہ آیت سجدہ سننے کے فوراً بعد سجدہ کرنا ضروری نہیں ہوتا، دوسرے وقت میں بھی سجدہ کیا جاسکتا ہے۔ حضرت زید ( رض) نے جب یہ سورة آنحضرت ﷺ کے سامنے پڑھی تو ممکن ہے کسی عذر کی وجہ سے آنحضرت ﷺ سجدہ نہ کرسکے ہوں۔ اس لیے صحیح رائے یہی ہے کہ اس آیت پر سجدہ کرنا لازم ہے۔
Top