Ruh-ul-Quran - An-Najm : 8
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰىۙ
ثُمَّ دَنَا : پھر قریب آیا فَتَدَلّٰى : پھر اتر آیا
پھر قریب آیا اور اوپر معلق ہوگیا
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی۔ فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی۔ (النجم : 8، 9) (پھر قریب آیا اور اوپر معلق ہوگیا۔ پس دو کمانوں کے بقدر یا اس سے بھی کچھ کم فاصلہ رہ گیا۔ ) حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی رویت کا منظر جب حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) آسمان کے بالائی مشرقی کنارے سے نمودار ہوئے اور نبی کریم ﷺ نے انھیں دیکھا تو انھوں نے آپ کی طرف بڑھنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ وہ بڑھتے بڑھتے آپ کے اوپر آکر فضا میں معلق ہوگئے۔ اور آپ کے اور ان کے درمیان صرف دو کمانوں کے برابر یا اس سے کچھ کم فاصلہ رہ گیا۔ قَابَ قَوْسَیْنِ کا ترجمہ تو ہے دو کمانوں کے بقدر۔ لیکن اہل عرب اسے غایت قرب کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اہل عرب چونکہ تیر و کمان سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے ان کے ذوق کا لحاظ کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ اور حضرت جبرائیل امین علیہ اسلام کی قربت کو دو کمانوں کے بقدر کہہ کر واضح فرمایا ہے۔ اَوْاَدْنٰی کا معنی ہے یا اس سے بھی زیادہ قریب۔ اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پروردگار کو اس فاصلے کے بارے میں شاید شک تھا، اس لیے اَوْ کا استعمال فرمایا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں شک کا گزر نہیں ہوتا۔ یہاں اَوْ کا استعمال شک کے لیے نہیں بلکہ اس بات کی طرف اشارے کے لیے ہے کہ ساری کمانیں ایک ناپ کی نہیں ہوتیں۔ اس لیے جب بھی دو کمانوں کے بقدر فاصلے کا ذکر کیا جائے گا تو کمانوں کے کم و بیش ہونے کی وجہ سے فاصلے کی مقدار میں بھی کمی بیشی ہوجائے گی۔ لیکن اگر یہ بات ذہن میں رہے کہ ان الفاظ کا استعمال صرف غایت قرب کے لیے ہوتا ہے تو پھر اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں۔
Top