Ruh-ul-Quran - Ar-Rahmaan : 13
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ : تو ساتھ کون سی نعمتوں کے رَبِّكُمَا : اپنے رب کی تم دونوں تُكَذِّبٰنِ : تم دونوں جھٹلاؤ گے
پس اے جن و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائو گے
فَبِاَیِّ اٰ لَآئِ رَبِّـکُمَا تُـکَذِّبٰنِ ۔ (الرحمن : 13) (پس اے جن و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائو گے۔ ) یہ آیت ترجیع ہے اس میں لفظ اٰ لَآئِاور دیگر حقائق کا مفہوم یہ آیت اس سورة میں بار بار آرہی ہے۔ ایسی آیت جو بار بار آئے اس کو آیت ترجیع کہتے ہیں جس سے سامعین کو غور و فکر کی طرف متوجہ کرنا اور جھنجھوڑنا مقصود ہوتا ہے۔ اس آیت کے الفاظ کو سمجھنے کے لیے دو باتوں کا جاننا بہت ضروری ہے۔ اس میں لفظِ اٰ لَآئِ استعمال ہوا ہے۔ ہمارے مترجمین بالعموم اس کا ترجمہ نعمتوں سے کرتے ہیں۔ اور یہ ترجمہ صحیح ہے۔ لیکن اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں یہ لفظ صرف نعمتوں کے حوالے سے ذکر نہیں کیا گیا بلکہ اس کے اور معانی بھی ہیں۔ اٰ لَآئِ جمع ہے اِلًی۔ اَلًی اور اِلْیٌ کی۔ نعمتوں کے علاوہ اس لفظ کے دوسرے جو معانی مستعمل ہیں ان میں سے ایک ہے قدرت اور عجائبِ قدرت یا کمالاتِ قدرت۔ ابن جریر طبری نے ابن زید کا قول نقل کیا ہے کہ فَبِاَیِّ اٰ لَآئِ رَبِّـکُمَا کے معنی ہیں فَبِاَیِّ قُدْرَۃِ اللّٰہِ امامِ رازی نے بھی آیات 14، 15 اور 16 کی تفسیر میں لکھا ہے کہ یہ آیات بیان نعمت کے لیے نہیں، بیانِ قدرت کے لیے ہیں۔ اور آیات 22، 23 کی تفسیر میں وہ فرماتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے عجائبِ قدرت کے بیان میں ہیں نہ کہ نعمتوں کے بیان میں۔ اس کے دوسرے معنی ہیں خوبیاں، اوصافِ حمیدہ اور کمالات و فضائل۔ اس معنی میں اس لفظ کو اہل لغت اور اہل تفسیر نے تو بیان نہیں کیا لیکن دور جاہلیت کے شعراء جن کا کلام حجت سمجھا جاتا ہے انھوں نے کثرت سے اس لفظ کو اس معنی میں استعمال کیا۔ اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ ِ اٰ لَآئِ کے تین معنی ہیں 1 نعمتیں، 2 قدرت، عجائبِ قدرت یا کمالاتِ قدرت، 3 خوبیاں، اوصافِ حمیدہ اور کمالات و فضائل۔ بہتر یہ ہے کہ اس لفظ کو اس کے وسیع معنی میں لیا جائے اور ہر جگہ موقع و محل کے لحاظ سے جو معنی مناسب نظر آئے وہ مراد لیے جائیں۔ دوسری بات جو اس آیت میں قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ اس میں رَبِّـکُمَا تثنیہ کی ضمیر استعمال ہوئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کا مخاطب ایک نہیں بلکہ دو ہیں۔ آگے چل کر آیت نمبر 33 میں جن و انس کو خطاب کرکے اس حقیقت کو واضح کردیا گیا ہے کہ یہاں مخاطب انسانوں کے ساتھ جن بھی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ خطاب بےسبب تو نہیں ہوسکتا۔ اس کی ایک ہی وجہ ہوسکتی ہے کہ جس طرح انسان نبی کریم ﷺ کے لائے ہوئے اس دین کے مخاطب اور مکلف ہیں اور ان کے لیے لازم ٹھہرایا گیا ہے کہ وہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی توحید کو مانیں، اسی طرح نبی کریم ﷺ کی رسالت اور ختم رسالت کو بھی تسلیم کریں اور آخرت پر بھی یقین لائیں۔ یہی باتیں جنات کے لیے بھی لازمی ہیں۔ چناچہ اس سورة اور بعض دوسری سورتوں میں بھی جنات کے لیے ان ہی باتوں کو لازم ٹھہرایا گیا ہے۔ اسی سورة میں دیکھ لیجیے کہ دونوں کو اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کمالات اور اس کے بےحد و حساب احسانات، اس کے مقابلے میں ان کی عاجزی اور بےبسی اور اس کے حضور ان کی جواب دہی کا احساس دلا کر اس کی نافرمانی کے انجامِ بد سے ڈرایا گیا ہے۔ اور فرماں برداری کے بہترین نتائج سے آگاہ کیا گیا ہے۔ سورة الاحقاف میں بھی جنات کے سابقہ انبیائے کرام پر ایمان کا ذکر ہے۔ اور ان کی سابقہ کتابوں کے مطالعہ ہی کا نتیجہ تھا کہ انھوں نے قرآن کریم کو سنتے ہی یقین کرلیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی کتاب ہے۔ اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان رکھنے والے جنات تھے۔ سورة الجن میں بھی جنات کا ذکر ایمان و اسلام کے حوالے سے آیا ہے اور کفر و شرک سے ان کی بیزاری کا اظہار فرمایا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں بھی انسانوں ہی کی طرح کافر و مومن اور مطیع اور سرکش پائے جاتے ہیں۔ لیکن اس خطاب نے قطعی طور پر اس بات کو واضح کردیا کہ رسول اللہ ﷺ اور قرآن مجید کی دعوت جن اور انس دونوں ہی کے لیے ہے اور حضور ﷺ کی رسالت صرف انسانوں ہی تک محدود نہیں ہے۔ اور اگر احادیث و روایات کو دیکھا جائے تو اس میں جنات کے حوالے سے ہمیں احکام دیئے گئے ہیں اور ہمارے حوالے سے جنات کو دیئے گئے احکام کا بھی ذکر ہے۔ اسی طرح جو چیزیں ان کے لیے حرام کی گئی ہیں حدیث میں اس کی بھی وضاحت کی گئی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عقائد، اخلاق، آدابِ زندگی میں تو جن و انس میں کوئی فرق نہیں۔ لیکن ان کی زندگی کے حوالے سے بعض ایسے احکام بھی ہیں جو ان کے ساتھ مخصوص ہیں۔ اور وہ بھی انھیں نبی کریم ﷺ کی معرفت دیئے گئے ہیں۔ جس طرح ہمارے لیے شرعی احکام کی بنیاد تو یقینا قرآن کریم ہے لیکن تفصیلی احکام اور مبہمات کی وضاحت اور عملی دشواریوں کا حل سنت میں موجود ہے اور ہم اسی سے رہنمائی حاصل کرنے کے پابند ہیں۔ اسی طرح جنات سے جو آنحضرت ﷺ کی ملاقاتوں کا ذکر حدیث میں آیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی معرفت انھیں اسلام کی وہ تعلیم بھی پہنچی ہے جس کے جن و انس دونوں مکلف ہیں۔ اور وہ احکام بھی دیئے گئے ہیں جو صرف ان کے لیے مخصوص تھے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے اور اس کے اس قدر شواہد موجود ہیں کہ جن کا انکار کرنا آسان نہیں کہ جنات انسانی شکلوں میں بعض دینی مدارس یا بعض بڑے علماء سے شخصی طور پر استفادہ کرتے رہے ہیں اور آج بھی کررہے ہیں۔ اور کبھی یہ سوال نہیں اٹھا کہ ان کا مذہب اسلام کے علاوہ کچھ اور ہے۔ اور ان کی طرف کوئی نبی مبعوث کیے گئے ہیں۔ پیشِ نظر آیت میں ایک اور بات کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ بات جن و انس سے بار بار فرمائی گئی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی بیشمار نعمتوں، اس کی قدرت کے کرشموں میں سے کس کس کا انکار کرو گے اور کس کس کو جھٹلائو گے۔ سوال یہ ہے کہ جھٹلانے سے کیا مراد ہے ؟ اس کی متعدد صورتیں ہیں جو تھوڑے سے غور و فکر سے سمجھ میں آسکتی ہیں۔ 1 اللہ تعالیٰ کو ان نعمتوں کا خالق ماننے سے انکار کردیا جائے اور یہ خیال کیا جائے کہ جو کچھ ہم اپنے گردوپیش میں دیکھ رہے ہیں یہ سب مادے کے اتفاقی ہیجان کا نتیجہ ہے، یا ایک حادثہ ہے جس میں کسی حکمت اور صناعی کا کوئی دخل نہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ایسا کہنے والے عام لوگ نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جنھیں علم و دانش کا پیکر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ان کے پاس اس بات کا کوئی جواب موجود نہیں کہ اس کائنات میں ایک نظم و ضبط ہے، ایک ترتیب ہے، ایک حکمت ہے، ایک قانون ہے جو غیرمرئی ہونے کے باوجود تمام مخلوقات پر مسلط ہے جبکہ ہم اپنے تجربے سے اس بات کا انکار نہیں کرسکتے کہ اگر کسی بندر کو ایک ہزار سال تک کسی ٹائپ رائٹر پر بٹھا دیا جائے اور وہ مسلسل ٹائپ کرتا رہے تو کبھی اس کے اندر سے نہ کوئی ڈکشنری نکلے گی، نہ شکسپیئر کے ڈرامے برآمد ہوں گے، اور نہ افلاطون کے مکالمے نکلیں گے۔ تو آخر مادے میں ایک اتفاقی ہیجان یہ حکمت سے بھرپور کائنات کو وجود کیسے دے سکتا ہے۔ اور یہ حکمت اور صناعی ایک حادثے کے نتیجے میں کیسے وجود میں آسکتی ہے۔ 2 تکذیب کی یہ بھی ایک صورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کو خالق تو مانا جائے لیکن اس کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک کرلیا جائے جس سے یہ دلچسپ صورتحال پیدا ہوتی ہے کہ نعمتیں دینے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے، لیکن شکریہ دوسروں کا ادا کیا جارہا ہے، اور گن دوسروں کے گائے جارہے ہیں۔ 3 تکذیب کی ایک تیسری شکل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو خالق ومالک تو مانا جائے مگر اس بات کو تسلیم نہ کیا جائے کہ اس خالق ومالک کے احکام کی اطاعت اور اس کی ہدایات کی پیروی کرنا بھی ضروری ہے۔ اور یا اگر اسے زبانی حد تک تسلیم بھی کیا جائے لیکن عملی حیثیت سے دور دور تک اس کا وجود نہ ہو۔ اور اس کی زندگی پر اس کے کوئی اثرات نہ ہوں۔ ایسی تمام ممکن صورتیں اس تکذیب سے مراد ہیں اور ان ہی پر ملامت اور تنبیہ کی جارہی ہے۔
Top