Ruh-ul-Quran - Ar-Rahmaan : 14
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِۙ
خَلَقَ الْاِنْسَانَ : اس نے پیدا کیا انسان کو مِنْ صَلْصَالٍ : بجنے والی مٹی سے كَالْفَخَّارِ : ٹھیکری کی طرح
اس نے انسان کو پیدا کیا ٹھیکری جیسے سڑے ہوئے گارے سے
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ ۔ وَخَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ ۔ فَبِاَیِّ اٰ لَآئِ رَبِّـکُمَا تُـکَذِّبٰنِ ۔ (الرحمن : 14 تا 16) (اس نے انسان کو پیدا کیا ٹھیکری جیسے سڑے ہوئے گارے سے۔ اور جنات کو پیدا کیا، آگ کے شعلہ سے۔ تو اے جنو اور انسانو ! تم اپنے رب کی کن کن قدرتوں کو جھٹلائو گے۔ ) جن و انس کے مادہ خلقت سے یاددہانی انسان کے اندر جو شرک پایا جاتا ہے اور آخرت سے انکار یا اعراض عام دیکھا جاتا ہے اس کا اصل سبب صرف یہ ہے کہ انسان زبان سے اپنے رب کو سب کچھ تسلیم کرتا ہے لیکن اس کا دل اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کو اس طرح ماننے کو تیار نہیں ہوتا جس سے دل میں یہ یقین پیدا ہوجائے کہ اس کے یہاں کوئی چیز ناممکن نہیں اور کوئی ذات اس کے برابر نہیں۔ اس کے سوا کسی کو کبریائی زیب نہیں دیتی۔ اسی وجہ سے کبھی کسی کو اس کا شریک ٹھہرادیا جاتا ہے اور کبھی آخرت کو بعیداز عقل قرار دے کر انکار کردیا جاتا ہے۔ اس لیے پیش نظر آیات میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور جنوں کی تخلیق کے حوالے سے اپنی قدرت کا ذکر فرمایا ہے تاکہ اس کا احساس ہوسکے کہ اس کی قدرت کتنی عظیم اور کتنی بےپناہ ہے۔ سب سے پہلے یہ بات ارشاد فرمائی کہ یہ انسان جو آج اپنے آپ کو نہ جانے کیا سمجھ رہا ہے اور جس کی فتوحات نے فی الواقع زمین پر ایک تہلکہ مچا رکھا ہے اور جس کی قوت ایجاد نے ایسی حیرت انگیز چیزوں کو وجود بخشا ہے کہ عام آدمی کے لیے جس کا جاننا بھی مشکل ہوگیا ہے اور جسکی سائنس فہم و ادراک کی حدود سے آگے نکل گئی ہے اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اسے قدرت نے جس طریقے او جن عناصر سے تخلیق فرمایا ہے وہ انسان کی بےبسی کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ چناچہ جب ہم اس حوالے سے قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں تخلیقِ انسانی کے مختلف مراتب نظر آتے ہیں جن کو اگر ایک ترتیب سے بیان کیا جائے تو وہ اس طرح سے ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے تراب یعنی مٹی سے پیدا فرمایا ہے اور پھر کبھی اسے طِیْنٌ کے حوالے سے ذکر کیا گیا ہے یعنی وہ گارا جو مٹی میں پانی ملا کر بنایا جاتا ہے۔ پھر اسی کو طِیْنِ لاَزِبْ قرار دیا گیا یعنی لیس دار گارا۔ اور پھر اسے حَمَأٍمَسْنُوْنَ قرار دیا گیا۔ یعنی وہ گارا جس کے اندر بو پیدا ہوجائے۔ اور پھر اسے صَلْصَالٍ کَالْفَخَّار سے یاد کیا گیا یعنی وہ سڑا ہوا گارا جو سوکھنے کے بعدپ کی ہوئی مٹی کے ٹھیکرے جیسا ہوجائے۔ اور آخری مرحلہ میں اسے بشر کا نام دیا گیا۔ یہ تخلیقِ انسانی کی آخری صورت ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص روح پھونکی اور اسے فرشتوں کا مسجود بنادیا گیا۔ اور پھر آگے اس کی نسل ایک حقیر پانی کے ست سے چلائی گئی جسے نطفہ بھی کہا گیا ہے۔ انسان اپنی تخلیق کے مراتب پر غور کرے تو اسے اگر ایک طرف اللہ تعالیٰ کی قدرت کی وسعت نظر آئے گی تو دوسری طرف اپنی کم مائیگی اور بےبسی کا احساس بھی ہوگا۔ اور پھر جنوں کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے انھیں آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ہے۔ یہ آگ دنیا کی آگ نہیں بلکہ وہ خاص نوعیت کی آگ ہے اور مارج اس شعلہ کو کہتے ہیں جس میں دھواں نہ ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے جدِامجد کو اسی شعلہ ٔ آتش سے پیدا کیا گیا۔ اور بعد میں اس کی ذریت سے جنوں کی نسل پیدا ہوئی۔ اور اب آگے ان کی ذریت کیسے بڑھ رہی ہے ہم ان کے توالد و تناسل کی حقیقت سے کماحقہ واقف نہیں۔ لیکن جن بھی جب اس اپنی تخلیق پر غور کریں تو انھیں بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کی وسعت اور اپنی بےبسی کا احساس پیدا ہوگا۔ اور اسی حوالے سے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جس عظیم ذات نے تم پر یہ احسانات کیے ہیں اور تم اس کی قدرت کے شاہکار کے طور پر آج دنیا میں موجود ہو تو تم اس کی قدرتوں کا کس طرح انکار کرسکتے ہو۔ اور اس کے تقاضوں کی صورت میں تم پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں انھیں کیسے جھٹلا سکتے ہو۔
Top