Ruh-ul-Quran - Ar-Rahmaan : 26
كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍۚۖ
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا : سب کے سب جو اس پر ہیں فَانٍ : فنا ہونے والے ہیں
ہر چیز جو روئے زمین پر ہے فنا ہوجانے والی ہے
کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ ۔ وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّـکَ ذُوالْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ ۔ فَبِاَیِّ اٰ لَآئِ رَبِّـکُمَا تُـکَذِّبٰنِ ۔ (الرحمن : 26 تا 28) (ہر چیز جو روئے زمین پر ہے فنا ہوجانے والی ہے۔ صرف آپ کے رب کی عظمت اور عزت والی ذات باقی رہنے والی ہے۔ تم اپنے رب کے کن کن احسانات کو جھٹلائو گے۔ ) پہلی آیت میں ضمیر مجرور کا مرجع الارض (زمین) ہے، جس کا ذکر آیت دس سے چلا آرہا ہے۔ جن و انس کو ایک اہم حقیقت کی طرف رہنمائی جن و انس جو دونوں مکلف مخلوق ہیں، مختلف حوالوں سے ان سے خطاب ہورہا ہے۔ زمین پر ان کی ذمہ داری اور تکلیفِ شرعی کے پیش نظر یہ بات ارشاد فرمائی گئی ہے کہ جن ہو یا انسان ان دونوں میں بگاڑ کا سب سے بڑا سبب عرفانِ ذات سے محرومی ہے۔ جب بھی ان میں سے کوئی اپنی ذات کی حقیقت سے بیخبر ہوتا یا غفلت کا شکار ہوتا ہے تو وہ اپنی حدودوقیود پامال کرتا ہوا ایسے امور انجام دیتا ہے جس سے مترشح ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو کسی کے سامنے جواب دہ نہیں سمجھتا۔ استکبار اس پر نسیان کا پردہ تان دیتا ہے۔ جواب دہی سے غفلت اسے حقوق کی ادائیگی سے محروم کردیتی ہے۔ اور اگر اس بات کا احساس دلا دیا جائے کہ تم اس زمین پر ہمیشہ رہنے والے نہیں بلکہ تمہاری زندگی اور یہاں قیام اس قدر ناپائیدار ہے کہ تمہیں کسی وقت بھی بلاوا آسکتا ہے۔ پانی کے بلبلے کو ٹوٹتے ہوئے کچھ دیر لگتی ہے لیکن تمہاری حیات کا بلبلہ جب ٹوٹنے پر آتا ہے تو ایک لمحے میں ٹوٹ جاتا ہے۔ نہ یہاں کسی کا تخت سلامت ہے اور نہ کسی کی کرسی۔ عہدہ و منصب کا فخروناز اپنی جگہ رہ جاتا ہے اور اس کا موصوف اچانک سفر پر چلا جاتا ہے۔ اس لیے ان دونوں کو احساس دلایا گیا کہ تم اگر اپنی حیثیت کے جامہ میں رہنا چاہتے اور اپنی اصل حیثیت کو جاننا چاہتے ہو تو ضروری ہے کہ اس بات کو دل و دماغ میں اتار لو کہ اس زمین پر بسنے والی ہر چیز فنا کی گھاٹ اترنے والی ہے۔ تم بھی اپنی زندگی کا سفر ختم کرکے کسی وقت بھی رخصت ہوجاؤ گے۔ لیکن جس ذات نے تمہیں زندگی جیسی بیش قیمت نعمت عطا فرمائی ہے اس کو فنا نہیں، وہ ہمیشہ باقی رہے گی۔ یہاں مختلف لوگوں نے جھوٹی عزتوں کے دعوے کیے ہیں۔ اور جھوٹی نام و نمود کی سروں پر کلغیاں سجائی ہیں، لیکن ان میں سے کسی کو بقا نہیں۔ ہر چیز معرض خطر میں ہے۔ اور ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہو کر دنیا میں اپنے کیے ہوئے اعمال کا حساب دینا ہے۔ اس وقت اندازہ ہوجائے گا کہ حقیقی عزت اور حقیقی عظمت صرف اللہ تعالیٰ کے لیے تھی باقی سب فریبِ نظر کا شکار تھے۔ تیسری آیت میں فرمایا کہ یہ زندگی اور پھر اس کی بقا کے لیے بیشمار اللہ تعالیٰ کی نعمتیں، احساسات، خیالات اور تصورات کی صورت میں بیشمار احسانات، یہ سب اللہ تعالیٰ نے عطا کیے ہیں۔ جب بھی جن و انس میں سے کوئی اپنی حیثیت کو بھولتا ہے تو وہ درحقیقت ان نعمتوں اور ان احسانات کو جھٹلاتا ہے۔ اس لیے دونوں سے خطاب کرکے فرمایا کہ اے جن و انس ! تم اپنے گردوپیش اور اپنی شخصیتوں کے اندر اور باہر طائرانہ نظر ڈال کے دیکھو کہ تم کس قدر نعمتوں اور احسانوں سے گراں بار ہو۔ تو آخر تم اللہ تعالیٰ کے کس کس احسان کو جھٹلائو گے۔
Top