Ruh-ul-Quran - Ar-Rahmaan : 56
فِیْهِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ١ۙ لَمْ یَطْمِثْهُنَّ اِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَ لَا جَآنٌّۚ
فِيْهِنَّ : ان میں ہوں گی قٰصِرٰتُ : جھکانے والیاں الطَّرْفِ ۙ : نگاہوں کو لَمْ يَطْمِثْهُنَّ : نہیں چھوا ہوگا ان کو اِنْسٌ : کسی انسان نے قَبْلَهُمْ : ان سے پہلے وَلَا جَآنٌّ : اور نہ کسی جن نے
ان میں شرمیلی نگاہوں والیاں ہوں گی جن کو ان سے پہلے کسی انسان یا جن نے ہاتھ نہیں لگایا ہوگا
فِیْھِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ لا لَمْ یَطْمِثْھُنَّ اِنْسٌ قَبْلَھُمْ وَلاَ جَـآنٌّ۔ فَبِاَیِّ اٰ لَآئِ رَبِّـکُمَا تُـکَذِّبٰنِ ۔ کَاَنَّھُنَّ الْیَاقُوْتُ وَالْمَرْجَانُ ۔ فَبِاَیِّ اٰ لَآئِ رَبِّـکُمَا تُـکَذِّبٰنِ ۔ (الجن : 56 تا 59) (ان میں شرمیلی نگاہوں والیاں ہوں گی جن کو ان سے پہلے کسی انسان یا جن نے ہاتھ نہیں لگایا ہوگا۔ تم اپنے رب کے کن کن احسانات کو جھٹلائو گے۔ وہ حوریں ایسی ہوں گی گویا یاقوت اور مونگے ہوں۔ تم اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلائو گے۔ ) اہلِ جنت کے حرم کی شان انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ ہزاروں نعمتوں کے باوجود بیوی کی عدم موجودگی میں اپنی شخصیت میں خلاء محسوس کرتا ہے۔ اور اس کی خوشیاں بھی ناتمام رہتی ہیں۔ چناچہ اسی فطرت کے لحاظ سے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جنت کا عیش تو عیش دوام ہوگا، اس کی خوشیاں بھی مکمل اور پائیدار ہوں گی۔ ایسی جنتوں میں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اہل جنت کو حوروں کی صورت میں بیویاں نہ دی جائیں۔ لیکن وہ بیویاں ایسی ہوں گی جو شرم و حیا والی، عفت مآب اور شرمیلی نگاہوں والی ہوں گی۔ کیونکہ ایک عورت کو جو چیز جنت نگاہ بناتی ہے وہ اس کا حسن بھی ہے اور اس سے بڑھ کر اس کا شرمیلا پن بھی۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ شرمیلا پن اس کے حسن کا بھی محافظ ہے اور اس کے اخلاق کا بھی۔ کیونکہ جس عورت میں شرم و حیا کا فقدان ہے وہ ہر جائی تو ہوسکتی ہے، وفادار نہیں ہوسکتی۔ اور اس کی جگہ اپنے رفیقِ حیات کا دل نہیں بلکہ باہر کی دلچسپیاں ہیں۔ اس لیے جنت کی بیویوں اور حوروں میں لاجواب حسن و جمال کے ساتھ ساتھ عفت مآبی، شرم و حیا اور اس کا شرمیلا پن ارشاد فرمایا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس حسن کو آزادانہ نگاہیں خراج ادا کریں یا وہ حسن جو دوسروں کی نگاہوں سے قبولیت کی سند چاہتا ہو، اس میں سب کچھ ہوسکتا ہے پاکیزہ جمالی نہیں ہوسکتی۔ جگر نے بالکل ٹھیک کہا : رنگ آہی نہیں سکتا پاکیزہ جمالی کا بےباک نگاہوں کے روندے ہوئے چہرے پر دوسری بات اس آیت میں یہ فرمائی گئی ہے کہ جنت کی ان حوروں کو اس سے پہلے نہ کسی انسان نے چھوا ہوگا اور نہ کسی جن نے ہاتھ لگایا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کنواری اور باکرہ ہوں گی۔ اس سلسلے میں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی زندگی میں خواہ کوئی عورت کنواری مری ہو یا کسی کی بیوی کی حیثیت سے، جوان مری ہو یا بوڑھی ہوکر، آخرت میں جب یہ سب نیک خواتین جنت میں جائیں گی تو جوان اور کنواری بنادی جائیں گی۔ وہاں ان میں سے جس خاتون کو بھی کسی نیک مرد کی رفیقہ ٔ حیات بنایا جائے گا وہ جنت میں اپنے اس شوہر سے پہلے کسی سے تعلق رکھنے والی نہ ہوگی۔ اور دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جنت میں صرف نیک انسان ہی نہیں جائیں گے بلکہ نیک جن بھی جائیں گے۔ اور وہاں جس طرح انسان مردوں کے لیے انسان عورتیں ہوں گی، اسی طرح جن مردوں کے لیے جن عورتیں بھی ہوں گی۔ دونوں کی رفاقت کے لیے ان ہی کے ہم جنس جوڑے ہوں گے۔ رہی یہ بات کہ جنات کی جنت الگ ہوگی یا انسانوں کے قریب اس کی حقیقت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جن اور انسان دونوں جنسوں کی عورتیں حیادار اور اچھوتی ہوں گی۔ اس کے بعد ترجیع کی آیت ہے اور اس کا موقع و محل واضح ہے۔ اس کے بعد کی آیت میں ان ہی جنتی عورتوں کے حسن کی تعریف میں فرمایا گیا ہے کہ وہ ایسی ہیں جیسے یاقوت اور مرجان۔ ان دونوں کا ذکر ان کے چہروں کی رعنائی، رنگت کی صفائی اور خوبصورتی کی انتہا کے حوالے سے بھی ہے۔ اور اس بات کے لیے بھی کہ ان کا حسن ایسا ہی محفوظ اور مکنون ہے جسے ہیرے اور موتی محفوظ اور چھپا کے رکھے جاتے ہیں۔ اور اس کے بعد ترجیع کی آیت ہے جس کا مفہوم بالکل واضح ہے۔
Top