Ruh-ul-Quran - Ar-Rahmaan : 60
هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُۚ
هَلْ : کیا جَزَآءُ : بدلہ ہے الْاِحْسَانِ : احسن کا اِلَّا الْاِحْسَانُ : سوائے احسان کے (کچھ اور ہے ؟ )
نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے
ھَلْ جَزَآئُ الْاِحْسَانِ اِلاَّ الْاِحْسَانُ ۔ فَبِاَیِّ اٰ لَآئِ رَبِّـکُمَا تُـکَذِّبٰنِ ۔ (الجن : 60، 61) (نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ پھر اے جن و انس ! تم اپنے رب کے کن کن احسانوں کو جھٹلائو گے۔ ) جزاء و سزا کے حق میں عقل و فطرت کی گواہی اس آیت کریمہ میں ایک بات تو یہ فرمائی گئی ہے کہ دنیوی زندگی اپنے اندر ایک ایسا حسن رکھتی ہے جس میں ہر ایک کے لیے اپیل موجود ہے۔ اور پھر خواہشاتِ نفس اپنے اندر ایسی اکساہٹ رکھتی ہیں کہ جس سے بچ نکلنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود جو شخص نہ دنیا کے خوبصورتیوں اور آسانیوں کی طرف توجہ دیتا ہے اور نہ خواہشاتِ نفس اسے اپنا گرویدہ بنانے میں کامیاب ہوتی ہیں، محض اس لیے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی رضا عزیز ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے خوف سے کبھی اپنا دامن دنیا کی آلودگیوں سے تر نہیں ہونے دیتا۔ تو کیا اس کی ان نیکیوں کا اسے صلہ نہیں ملنا چاہیے، کیا اس کی قربانیوں کا کوئی بدلہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ایسا ہو تو پھر خیر و شر کی کیا حقیقت باقی رہے گی۔ اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی سربلندی کا کیا تصور باقی رہے گا۔ جس دنیا میں خیر کا صلہ نہ ہو اور شر کی سزا نہ ہو اس دنیا کے مالک کے بارے میں کیا تصور قائم کیا جاسکتا ہے کہ وہ عادل اور رحیم ہے یا شر کو سپورٹ کرنے والا یا دنیا کے معاملات سے بےنیاز ہے۔ اور اگر وہ واقعی خیر کی سربلندی چاہتا ہے اور برائی سے اسے نفرت ہے اور اس کے باوجود وہ برائی کرنے والے کو سزا نہیں دیتا تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نہ قادر و عادل ہے اور نہ قاہر و جابر۔ وہ ایک کمزور خدا ہے جس نے کائنات کو پیدا تو کردیا لیکن اس کے بعد یہاں خیر کو غلبہ دینے اور شر کو ناکام کرنے سے عاجز رہ گیا۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسے ایسے تصورات انتہائی واہیات اور عقل سے گرے ہوئے ہیں۔ عقل کا فتویٰ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ عادل بھی ہے اور رحیم و کریم بھی۔ اس کے عدل کا تقاضا ہے کہ وہ احسان کا صلہ احسان سے دے۔ اور جن لوگوں نے ہر طرح کے حالات میں نیکی کا دامن تھامے رکھا ان کو انعامات سے نوازے۔ اور جن لوگوں نے اس کے برعکس طرزعمل اختیار کیا انھیں سزا دے۔ اس کے بعد آیت ترجیع ہے جس کا مفہوم واضح ہے۔
Top