Ruh-ul-Quran - Ar-Rahmaan : 62
وَ مِنْ دُوْنِهِمَا جَنَّتٰنِۚ
وَمِنْ دُوْنِهِمَا : اور ان دونوں کے علاوہ جَنَّتٰنِ : دو باغ ہیں
ان دو باغوں کے سوا اور بھی دو باغ ہوں گے
وَمِنْ دُوْنِہِمَا جَنَّتٰنِ ۔ فَبِاَیِّ اٰ لَآئِ رَبِّـکُمَا تُـکَذِّبٰنِ ۔ (الجن : 62، 63) (ان دو باغوں کے سوا اور بھی دو باغ ہوں گے۔ تو تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائو گے۔ ) اصحابُ الیمین کی جنت دُوْنِہِمَا اس کا ایک معنی تو ہے ان دونوں کے علاوہ۔ اور دوسرا معنی ہے ان دونوں سے فروتر۔ معنی کے اسی فرق کی وجہ سے اس آیت کے مفہوم کے تعین میں دشواری ہورہی ہے، لیکن جب ہم سورة الواقعۃ کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو دو گروہوں میں تقسیم فرمایا ہے۔ ایک گروہ ہے السابقون کا۔ اور دوسرا گروہ ہے جنھیں اصحابُ الیمین اور اصحابُ المیمنۃ کہا گیا ہے۔ ایسا معلوم ہوا ہے کہ اس سے پہلے جن نعمتوں کا ذکر ہوا ہے اور ان ہی نعمتوں میں دو باغوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے یہ سب نعمتیں سابقون کو دی جائیں گی جو مقربینِ بارگاہِ الٰہی میں سب سے بالاقامت ہیں اور اب جن باغات اور نعمتوں کا ذکر شروع ہورہا ہے ان سے اصحابُ الیمین کو نوازا جائے گا۔ اصحابُ الیمین اہل جنت میں سے ہونے کے باوجود مقام و مرتبہ میں سابقون کے بعد ہیں۔ اس لیے ان کی نعمتیں بھی نسبتاً ہزار رفعتوں کے باوجود دوسرے درجے کی ہوں گی۔ چناچہ یہاں جن دو باغوں کا ذکر ہے یہ پہلے دونوں باغوں سے کسی حد تک فروتر ہوں گے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ( رض) کی روایت بھی اس کی تائید کرتی ہے۔ ان کے صاحبزادے ابوبکر اپنے والد ماجد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دو جنتیں سابقین یا مقربین کے لیے ہوں گی، جن کے برتن اور آرائش کی ہر چیز سونے کی ہوگی۔ اور دو جنتیں تابعین یا اصحابُ الیمین کے لیے ہوں گی، جن کی ہر چیز چاندی کی ہوگی۔ (فتح الباری، کتاب التفسیر، تفسیر سورة الرحمن) اس کے بعد آیت ترجیع کا مفہوم واضح ہے۔
Top