Ruh-ul-Quran - Ar-Rahmaan : 7
وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ
وَالسَّمَآءَ : اور آسمان رَفَعَهَا : اس نے بلند کیا اس کو وَوَضَعَ : اور قائم کردی۔ رکھ دی الْمِيْزَانَ : میزان
اور اس نے آسمان کو بلند کیا اور اس میں میزان رکھی
وَالسَّمَآئَ رَفَعَھَا وَوَضَعَ الْمِیْزَانَ ۔ (الرحمن : 7) (اور اس نے آسمان کو بلند کیا اور اس میں میزان رکھی۔ ) آسمان کا وجود اور اس کی بلندی عدل اور توازن کے باعث ہے اللہ تعالیٰ نے آسمان کو اس قدر بلند کیا ہے کہ آج تک اس کی بلندی کا اندازہ نہیں کیا جاسکا۔ سائنس دان آج تک اس کے وجود کو نہ جان سکے اور اس دکھائی دینے والی نیلگونی چیز کو حدِنگاہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن آسمان کے وجود سے ان کی بیخبر ی کوئی دلیل نہیں۔ کیونکہ عدم علم، عدمِ وجود کو مستلزم نہیں ہوتا۔ کتنے ایسے حقائق ہیں جن سے آگاہی سائنس نے رفتہ رفتہ حاصل کی ہے۔ اسی طرح آج بھی بہت سی ایسی حقیقتیں ہیں جن کی طرف سفر جاری ہے لیکن منزل اب تک بھی کوسوں دور معلوم ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی نہ کسی دن سائنس آسمان کے وجود کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائے۔ لیکن ہمارے لیے مخبرصادق ﷺ کی خبر کافی ہے کیونکہ آپ معراج کے سفر میں نہ صرف آسمانوں کو دیکھ چکے ہیں بلکہ ان کی سیر بھی کرچکے ہیں۔ اور حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر آنحضرت ﷺ تک جتنے بھی عظیم انبیاء و رسل تشریف لائے ہیں سب نے آسمان کے وجود کا اعتراف کیا اور خبر دی ہے۔ اور مزید یہ کہ اتنی عظیم مخلوق کے اعتراف کے باوجود آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ اسے ستونوں پر کھڑا کیا گیا ہے۔ یہ ایک بےستون چھت ہے جس نے ساری کائنات کو گھیر رکھا ہے۔ اور اس کے ثابت و قائم ہونے کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر ایک میزان رکھی ہے۔ اور بیشتر مفسرین نے میزان سے مراد عدل اور توازن لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کے اس پورے نظام کو عدل پر قائم کیا ہے۔ اور یہ بےحد و حساب تارے اور سیارے جو فضا میں گھوم رہے ہیں اور یہ عظیم الشان قوتیں جو اس عالم میں کام کررہی ہیں اور یہ لاتعداد مخلوقات اور اشیاء جو اس جہان میں پائی جاتی ہیں ان سب کے درمیان اگر کمال درجہ کا عدل و توازن نہ قائم کیا ہوتا تو یہ کارگاہِ ہستی ایک لمحہ کے لیے بھی نہ چل سکتی تھی۔
Top