Ruh-ul-Quran - Al-Hadid : 17
اِعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا١ؕ قَدْ بَیَّنَّا لَكُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ
اِعْلَمُوْٓا : جان لو اَنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ تعالیٰ يُحْيِ الْاَرْضَ : زندہ کرتا ہے زمین کو بَعْدَ مَوْتِهَا ۭ : اس کی موت کے بعد قَدْ بَيَّنَّا : تحقیق بیان کیں ہم نے لَكُمُ : تمہارے لیے الْاٰيٰتِ : آیات لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَعْقِلُوْنَ : تم عقل سے کام لو
خوب جان لو کہ اللہ زمین کو زندہ کردیتا ہے اس کے مردہ ہوجانے کے بعد، ہم نے تمہارے لیے اپنی آیتیں واضح کرکے بیان کردی ہیں تاکہ تم عقل سے کام لو
اِعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا ط قَدْ بَـیَّـنَّا لَـکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّـکُمْ تَعْقِلُوْنَ ۔ (الحدید : 17) (خوب جان لو کہ اللہ زمین کو زندہ کردیتا ہے اس کے مردہ ہوجانے کے بعد، ہم نے تمہارے لیے اپنی آیتیں واضح کرکے بیان کردی ہیں تاکہ تم عقل سے کام لو۔ ) مزید تنبیہ اور امید کی جھلک گزشتہ آیت کریمہ میں منافقین اور کمزور مسلمانوں کو جس طرح جھنجھوڑتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے پیش نظر آیت کریمہ میں بھی اسی حقیقت کی طرف مزید توجہ دلانے کے لیے زیادہ پرزور انداز اختیار کیا گیا ہے۔ پہلے لفظ سے ہی خواب غفلت سے جگانے کے لیے ارشاد فرمایا کہ خوب جان لو، آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی آمد اور اللہ تعالیٰ کے نبی کی بعثت اپنے اثرات و نتائج میں ایسے ہی ہے جیسے نزول باراں۔ بارش کے نزول سے پہلے زمین سورج کی گرمی سے جھلس چکی ہوتی ہے، کسی جگہ ہریاول کا نشان تک نظر نہیں آتا، کسی جگہ سے کوئی کونپل پھوٹتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی، زمین بالکل مردہ ہوچکی ہوتی ہے کہ بارانِ رحمت کا ایک چھینٹا پڑتے ہیں زمین لہلہا اٹھتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف ہریاول پھیل جاتی ہے۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے زمین نے مخملی لباس پہن لیا ہے۔ بالکل اسی طرح جس ملک میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ایک نبی مبعوث ہوتا ہے اور وحی و کتاب کا نزول اس پر شروع ہوتا ہے تو مری ہوئی انسانیت میں زندگی کی لہر اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ عقائدِ صحیحہ، اخلاقِ فاضلہ اور اعمالِ حسنہ کے چشمے پھوٹنے لگتے ہیں اور وہ تمام نیکیاں جو جاہلیت کے اثر سے مٹ چکی ہوتی ہیں، ازسرنو زندہ ہونے لگتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی تشریف آوری سے بھی چند ہی سالوں میں شدید مخالفت کے باوجود انسانیت نے وہ برگ و بار پیدا کیے کہ جس کی مثال اس سے پہلے بہت کم دیکھی گئی تھی۔ صحابہ کرام کے پاکیزہ معاشرے میں ایسی مثالیں نظر آتی ہیں جن میں عبادت سے لے کر اخلاق تک اور دیانت و امانت سے لے کر احساس کی پاکیزگی تک ایسی حیرت انگیز تبدیلی دکھائی دیتی ہے جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ یہ ہمہ گیر تبدیلی اور حسنات و خیر کا یہ خوشگوار منظر منافقین اور کمزور مسلمانوں کے سامنے تھا۔ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ اگر انسان خوبصورت انسانیت کے پتلے کا نام ہے اور وہی اس دھرتی کا اصل زیور ہے اور انسانوں کی زندگی اسی کی وجہ سے آسودہ اور خوشگوار ہوسکتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کا دین انفرادی اور اجتماعی زندگی میں غالب آسکتا ہے تو پھر اس کی ابتدا ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اور وہ دن دور نہیں جب یہ تبدیلی پہلے جزیرہ ٔ عرب کو اور پھر دنیا کے بیشتر حصے کو اپنی آغوش میں لے لے گی۔ تو اتنی بڑی دلیل اور اتنی بڑی نشانی کو دیکھ کر بھی اگر وہ صحیح رویہ اختیار نہیں کرتے اور ان کے دل حق کے سامنے نہیں پگھلتے تو پھر اور ایسی کیا نشانی ہوسکتی ہے جو ان کے اندر تبدیلی کی ضمانت بن سکتی ہے۔
Top