بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Al-Hadid : 1
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ : تسبیح کی ہے۔ کرتی ہے لِلّٰهِ : اللہ ہی کے لیے مَا فِي السَّمٰوٰتِ : ہر اس چیز نے جو آسمانوں میں ہے وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین میں وَهُوَ الْعَزِيْزُ : اور وہ زبردست ہے الْحَكِيْمُ : حکمت والا ہے
اللہ ہی کی تسبیح کرتی ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے، وہ غالب اور حکیم ہے
سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج وَھُوَالْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ ۔ (الحدید : 1) (اللہ ہی کی تسبیح کرتی ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے، وہ غالب اور حکیم ہے۔ ) تسبیح کا مفہوم سَبَّحَ اگرچہ فعل ماضی ہے اور اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اس نے تسبیح کی ہے۔ لیکن قرآن کریم نے مختلف مواقع پر یُسَبِّحُ یعنی فعل مضارع بھی استعمال کیا ہے جس کا معنی ہے کہ وہ تسبیح کرتا ہے یا کرے گا۔ دونوں کو ملانے سے جو مفہوم نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں اور اس کے لیے کوئی زمانہ مخصوص نہیں۔ جب سے مخلوق کو وجود ملا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس میں مشغول ہے۔ یہ عمل اس وقت بھی جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ تسبیح کے اندر تنزیہ کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے اور بندگی و عبادت کا بھی۔ یعنی ہر چیز اپنے خالق کو اپنے قول اور عمل سے پاکیزہ اور منزہ ثابت کرتی ہے۔ یعنی وہ ایسی ذات ہے جو ہر نقص، ہر کمزوری، ہر عیب اور ہر خطا سے پاک ہے۔ یہ پاکیزگی اس کی ذات کا بھی حصہ ہے اور اس کی صفات کا بھی، اس کے افعال کا بھی اور اس کے احکام کا بھی۔ زبان سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا اور اس کی تقدیس بیان کرنا زبانی تسبیح ہے۔ اور نماز پڑھنا اور اس کے حضور میں قیام، رکوع اور سجود کرنا یہ عملی تسبیح ہے۔ اسی طرح اس کے احکام یعنی اس کے دین کو روئے زمین پر قائم کرنے کی کوشش کرنا اور دنیا کے ہر قانون، ہر ازم اور حسن و قبح کے ہر معیار پر اللہ تعالیٰ کے دین کی برتری ثابت کرنا اس کی قولی اور عملی تسبیح کا تقاضا ہے۔ قرآن کریم جب اس بات کا ذکر کرتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کررہی ہے تو اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ انسانوں کو یاددہانی کرائی جائے کہ جب کائنات کی وہ چیزیں جو درجہ اور مقام میں انسان کے مقابلے میں نہایت فروتر ہیں اور جنھیں نعمتیں بھی انسان کے مقابلے میں بہت کم ملی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح میں شب و روز مشغول ہیں تو انسان کو تو بدرجہ اولیٰ اس کی تسبیح کرنی چاہیے۔ اور ساتھ ہی ساتھ انسان کے لیے اس میں حوصلہ افزائی کا سامان بھی ہے کہ جب دنیا ایسے بحران میں مبتلا ہوجائے کہ جس میں کہیں بھی اللہ تعالیٰ کی یاد نظر نہ آتی ہو اور کہیں بھی اس کا حوالہ سنائی نہ دیتا ہو اور جو چند لوگ اس کی یاد سینے سے لگائے بیٹھے ہوں انھیں یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ انسان اگر اپنے مالک و خالق کو بھول چکے ہیں اور کسی طرح بھی اسے یاد کرنے کے لیے تیار نہیں کہ کائنات کی ایک ایک چیز جو میرے گردوپیش میں ہے یا مجھ سے دور ہے وہ کبھی اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کی تسبیح سے غافل نہیں ہوتی۔ اس لحاظ سے اس کا یاد کرنے والا تنہا نہیں بلکہ ہر طرف اس کے ہم زبان اور ہم دل بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ آیت کے آخر میں فرمایا کہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح میں اس لیے مشغول ہے اور انسانوں کو بھی اس لیے اس کی تسبیح کرنی چاہیے کہ وہ عزیز ہے۔ وہ ایسا زوردار، ایسا زبردست اور ایسا غالب ہے کہ کوئی شخص اس کے حکم کو چیلنج نہیں کرسکتا۔ کوئی چیز اس کی دسترس سے باہر نہیں ہے اور کوئی شخص اس کے فیصلے کو رد نہیں کرسکتا جبکہ دنیا میں بڑی سے بڑی طاقت کا دعویدار بھی ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی اس کی بڑائی کو چیلنج نہ کرسکے اور وہ ایسی ہمہ پہلو قوت رکھتا ہو کہ کہیں بھی اس کی احتیاج دکھائی نہ دے۔ اور ساتھ ہی فرمایا کہ وہ حکیم بھی ہے۔ کیونکہ نری طاقت ایک اندھی قوت کا نام ہے۔ اسی لیے اقبال نے توجہ دلاتے ہوئے یہ بات کہی ع اے صاحب نظراں ! نشہ قوت ہے خطرناک یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم عزیز کی صفت کے ساتھ قوی، مقتدر، جبار اور ذوانتقام جیسے الفاظ خاص حوالے کے بغیر ذکر نہیں کرتا بلکہ حکیم اور اس سے ملتی جلتی صفات کا ذکر فرماتا ہے۔ کہیں علیم کا ذکر ملتا ہے اور کہیں رحیم کا، کہیں غفور کا اور کہیں وہاب کا۔ اور اس طرح صفات کا اجتماع اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور قوت و حشمت رکھنے والے کے ساتھ ممکن نہیں۔ اور پھر اسی سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ جب کہ وہ ہر چیز پر غالب ہے اور اس کے ہر کام میں حکمت بھی ہے تو کیا اس کا یہ تقاضا نہیں کہ وہ ایک ایسا دن لائے جس میں ان لوگوں کو صلہ عطا فرمائے جنھوں نے اس کی مقرر کی ہوئی حدود کے اندر زندگی گزاری۔ اور ان لوگوں کو سزادے جنھوں نے اس کی حدود سے تجاوز کیا۔
Top