Ruh-ul-Quran - Al-Hadid : 22
مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَا١ؕ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌۚۖ
مَآ اَصَابَ : نہیں پہنچتی مِنْ : سے مُّصِيْبَةٍ : کوئی مصیبت فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَلَا فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ : اور نہ تمہارے نفسوں میں اِلَّا : مگر فِيْ كِتٰبٍ : ایک کتاب میں ہے مِّنْ قَبْلِ : اس سے پہلے اَنْ نَّبْرَاَهَا ۭ : کہ ہم پیدا کریں اس کو اِنَّ ذٰلِكَ : بیشک یہ بات عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر يَسِيْرٌ : بہت آسان ہے
اور تمہیں کوئی مصیبت نہیں پہنچتی نہ زمینی پیداوار میں اور نہ تمہارے اپنے نفوس میں، مگر یہ کہ وہ ایک کتاب میں اس سے پہلے کہ ہم اس کو وجود دیں، لکھی ہوئی ہے، یہ اللہ پر بہت آسان ہے
مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلاَ فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اِلاَّ فِیْ کِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَھَا ط اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ۔ لِّـکَیْلاَ تَاسَوْا عَلٰی مَافَاتَـکُمْ وَلاَ تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰ تٰـکُمْ ط وَاللّٰہُ لاَ یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرِ نِ ۔ (الحدید : 22، 23) (اور تمہیں کوئی مصیبت نہیں پہنچتی نہ زمینی پیداوار میں اور نہ تمہارے اپنے نفوس میں، مگر یہ کہ وہ ایک کتاب میں اس سے پہلے کہ ہم اس کو وجود دیں، لکھی ہوئی ہے، یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔ (یہ سب کچھ اس لیے ہے) تاکہ جو چیز جاتی رہے اس پر غم نہ کرو، اور جو کچھ تمہیں اللہ عطا فرمائے اس پر مت اترائو، اور اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اکڑنے والے اور فخر کرنے والے ہوں۔ ) ایک اور اہم ہدایت گزشتہ آیات میں دنیوی زندگی، مال و دولت اور پیش آنے والے مسائل کے حوالے سے ایسی ہدایات دی گئی ہیں جن سے ایک مومن اور کافر میں تصورات اور اعمال کے اعتبار سے فرق واضح ہوجاتا ہے۔ اور ہدایات کو قبول کرنے سے مومن کے ایمان کو جلا ملتی ہے اور انکار کی صورت میں ایک کافر اور منافق اسلام کے بنیادی تصورات سے اور دور ہٹ جاتا ہے۔ دنیا کو ضرورت بتانے کے بعد آخرت کو مقصد قرار دیا گیا ہے۔ اور جہاد و انفاق کو ایمان کی علامت قرار دے کر ایک مومن کے لیے مطلوب و مرغوب بنادیا گیا ہے۔ اور پھر ایک مومن کے لیے اجر وثواب کے طور پر جو انعامات مقرر کیے گئے ہیں ان کی نوید سنائی گئی اور کافر اور منافق کو سخت ترین عذاب سے متنبہ کیا گیا۔ پیش نظر آیت کریمہ میں یہ فرمایا جارہا ہے کہ ایک مومن جب دنیا، مال و دولت اور انفاق و جہاد کے بارے میں اسلامی تصورات کو قبول کرلیتا ہے تو اسے اس بات کا احساس ہونا چاہیے اور یہ خیال بھی اس کے دماغ کی زینت بن جانا چاہیے کہ حق و باطل کی کشمکش اور عام معمول کی زندگی میں بھی ایک مومن کو مشکلات پیش آتی ہیں اور جن مصائب سے انھیں واسطہ پڑتا ہے وہ مشکلات اور وہ مصائب اپنے آپ پیش آنے والے نہیں ہوتے۔ بلکہ ہر بات کا فیصلہ پہلے سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوچکا ہے۔ اور انسانی زندگی کے وجود میں آنے سے پہلے انھیں ایک کتاب یعنی لوح محفوظ میں لکھا جا چکا ہے۔ ہمارے لیے اس بات کا جاننا فی الواقع مشکل ہے کہ جو چیز ابھی وجود میں نہیں آئی اس کا کسی کتاب میں لکھے جانے کا کیا معنی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے لیے ایسا کرنا نہایت آسان ہے کیونکہ لوح محفوظ علم الٰہی کی تعبیر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا علم زمانوں میں مقید نہیں۔ وہ ماضی، حال اور مستقبل کی تمام حدود وقیود سے مبرا ہے۔ وہ اس وقت بھی ان چیزوں سے واقف تھا جب وہ چیزیں کسی کے تصور میں بھی نہ آئی تھیں اور وہ تب بھی واقف ہوگا جب وہ خواب و خیال ہوچکی ہوں گی۔ لیکن اصحابِ ایمان کو اس حقیقت سے بہرہ ور کرنا اس لیے ضروری ہے کہ تاکہ جب اللہ تعالیٰ کی راہ میں انھیں کوئی مصیبت پیش آئے اور یا وہ اسلامی زندگی گزارتے ہوئے کسی مشکل میں گرفتار ہوجائیں تو کبھی اس سے دل آزردہ نہ ہوں، کبھی شکست خوردہ نہ ہوں، کبھی اس سے ہمت نہ ہارنے پائیں۔ کیونکہ انھیں اس بات کا اطمینان ہونا چاہیے کہ اس بات کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے سے ہوچکا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا کہ میرے ساتھ ایسا ہو۔ تو پھر اگر مجھے ہرحال میں اس کی خوشنودی پیش نظر ہے تو میں اس سے دل گرفتگی کیوں محسوس کروں۔ اور اسی طرح اگر اسے زندگی کے معمولات یا حق و باطل کی کشمکش میں کوئی کامیابی نصیب ہو یا کوئی بڑی منفعت ہاتھ آئے تو اسے کبھی اس پر اترانا اور فخر نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ جس طرح مصیبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اسی طرح سے مسرت و شادمانی اور فلاح و کامیابی بھی تو اسی کی جانب سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی ایک میں مبتلا کرکے اصل میں مومن کا امتحان لیتا ہے جو اس کی تربیت کے لیے لازمی ہے۔ آج اگر مسلمان مدینہ طیبہ میں ناگفتہ بہ حالات کا شکار ہیں اور آئے دن کسی نہ کسی ابتلاء سے دوچار ہورہے ہیں اور دشمن نے ان کا مالی مقاطعہ کر رکھا ہے اور ان کی زندگی دشوار تر ہوگئی ہے تو انھیں کسی طرح بھی اس سے آزردہ اور دل گرفتہ نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ یہ باتیں اللہ تعالیٰ کے یہاں پہلے سے طے پاچکی ہیں کہ مسلمانوں کی تربیت کے لیے ان مراحل سے گزرنا ضروری ہے۔ اسی طرح اگر آئندہ چل کر مسلمانوں کو کامیابیاں ملنے والی ہیں اور عسر کے بعد یسر کی زندگی شروع ہونے والے ہے جیسا کہ خلافتِ راشدہ میں ہوا تو تب بھی انھیں کسی کمزوری کا شکار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ کوئی کامیابی اللہ تعالیٰ کے علم کے بغیر کسی مومن کو نصیب نہیں ہوتی۔ ہر بات کا پہلے سے فیصلہ ہوچکا تھا اور اسی کے مطابق وقوع پذیر ہوا تو پھر آخر مسلمان یہ کیوں سوچیں کہ یہ کامیابیاں چونکہ ہماری کوششوں کی مرہونِ منت ہیں تو ہمیں اس پر فخر کرنے اور اترانے کا بجاطور پر حق ہے۔ یہ بات ایک مسلمان کو ہرگز زیب نہیں دیتی۔ مصائب پر صبر، نفع اور کامیابی پر شکر یہ ایک مومن کی سیرت و کردار کے دو پہلو ہیں جس میں ذرا سی کمزوری اس کی ایمانی زندگی کے لیے نقصان دہ ہے۔ چونکہ ہر طرح کی بڑائی اور ہر طرح کی عظمت اللہ تعالیٰ کو زیب دیتی ہے اس لیے جو شخص بھی اکڑنے اور فخر کرنے لگتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ صاحب ایمان لوگوں کی شکل میں تو اللہ تعالیٰ ایک ایسی جماعت تیار کررہا ہے جو انسانوں کے لیے نمونے کی جماعت ہوگی۔ ظاہر ہے ان لوگوں میں اس طرح کی کسی بات کا تصور بھی ناقابلِ قبول ہے۔
Top