Ruh-ul-Quran - Al-Hadid : 6
یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَ یُوْلِجُ النَّهَارَ فِی الَّیْلِ١ؕ وَ هُوَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
يُوْلِجُ الَّيْلَ : داخل کرتا ہے رات کو فِي النَّهَارِ : دن میں وَيُوْلِجُ النَّهَارَ : اور داخل کرتا ہے دن کو فِي الَّيْلِ ۭ : رات میں وَهُوَ عَلِيْمٌۢ : اور وہ جاننے والا ہے بِذَاتِ الصُّدُوْرِ : سینوں کے بھید
وہی داخل کرتا ہے رات کو دن میں، اور وہی داخل کرتا ہے دن کو رات میں، اور وہ سینوں کے بھیدوں کو بھی جانتا ہے
یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّھَارِ وَیُوْلِجُ النَّھَارَ فِی الَّیْلِ ط وَھُوَ عَلِیْمٌ م بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ۔ (الحدید : 6) (وہی داخل کرتا ہے رات کو دن میں، اور وہی داخل کرتا ہے دن کو رات میں، اور وہ سینوں کے بھیدوں کو بھی جانتا ہے۔ ) رات کو دن میں داخل کرنے اور دن کو رات میں داخل کرنے سے مراد شب و روز کی آمد و رفت ہے۔ دن جاتا ہے تو رات آتی ہے اور رات جاتی ہے تو دن آتا ہے۔ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک آٹومیٹک سسٹم ہے جو خودبخود ظہورپذیر ہورہا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں دن کی روشنی ہو یا رات کی تاریکی، دونوں کا لانے والا وہی ہے۔ جب رات کی تاریکی پوری طرح چھا جاتی ہے تو کوئی توقع نہیں کرسکتا کہ اب کبھی اجالے کی نمود بھی ہوگی۔ اور جب سورج کی گرمی پوری تمازت پر ہوتی ہے تو کوئی اندازہ نہیں کرسکتا کہ رات کی ٹھنڈک بھی آئے گی۔ لیکن ہم اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ظہور ہر روز دیکھتے ہیں۔ اور پھر اتنا بڑا واقعہ اس طرح وقوع پذیر ہوتا ہے کہ آہٹ تک سنائی نہیں دیتی۔ رات دن پر لپٹی چلی آرہی ہے اور دن رات پر لپٹا چلا آرہا ہے جس کو قرآن کریم نے تکویر سے تعبیر کیا ہے۔
Top