Ruh-ul-Quran - Al-Hashr : 11
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ نَافَقُوْا یَقُوْلُوْنَ لِاِخْوَانِهِمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَئِنْ اُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَكُمْ وَ لَا نُطِیْعُ فِیْكُمْ اَحَدًا اَبَدًا١ۙ وَّ اِنْ قُوْتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ یَشْهَدُ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ
اَلَمْ : کیا نہیں تَرَ : آپ نے دیکھا اِلَى : طرف، کو الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے نَافَقُوْا : نفاق کیا، منافق يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں لِاِخْوَانِهِمُ : اپنے بھائیوں کو الَّذِيْنَ : جن لوگوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا، کافر مِنْ : سے اَهْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب لَئِنْ : البتہ اگر اُخْرِجْتُمْ : تم نکالے گئے لَنَخْرُجَنَّ : تو ہم ضرور نکل جائیں گے مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ وَلَا نُطِيْعُ : اور نہ مانیں گے فِيْكُمْ : تمہارے بارے میں اَحَدًا : کسی کا اَبَدًا ۙ : کبھی وَّاِنْ : اور اگر قُوْتِلْتُمْ : تم سے لڑائی ہوئی لَنَنْصُرَنَّكُمْ ۭ : توہم ضرور تمہاری مدد کریں گے وَاللّٰهُ : اور اللہ يَشْهَدُ : گواہی دیتا ہے اِنَّهُمْ : بیشک یہ لَكٰذِبُوْنَ : البتہ جھوٹے ہیں
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھوں نے نفاق کی روش اختیار کی ہے، وہ اپنے ان بھائیوں سے جنھوں نے اہل کتاب میں سے کفر کیا ہے، کہتے ہیں کہ اگر تمہیں نکالا گیا تو ہم تمہارے ساتھ نکلیں گے اور تمہارے معاملہ میں ہم کسی کی بات نہیں مانیں گے، اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم ضرور تمہاری مدد کریں گے، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ لوگ بالکل جھوٹے ہیں
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ نَافَقُوْا یَقُوْلُوْنَ لِاِخْوَانِہِمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْـکِتٰبِ لَئِنْ اُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَکُمْ وَلاَ نُطِیْعُ فِیْکُمْ اَحَدًا اَبَدًا لا وَّاِنْ قُوْتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّـکُمْ ط وَاللّٰہُ یَشْھَدُ اِنَّھُمْ لَـکٰذِبُوْنَ ۔ (الحشر : 11) (کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھوں نے نفاق کی روش اختیار کی ہے، وہ اپنے ان بھائیوں سے جنھوں نے اہل کتاب میں سے کفر کیا ہے، کہتے ہیں کہ اگر تمہیں نکالا گیا تو ہم تمہارے ساتھ نکلیں گے اور تمہارے معاملہ میں ہم کسی کی بات نہیں مانیں گے، اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم ضرور تمہاری مدد کریں گے، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ لوگ بالکل جھوٹے ہیں۔ ) اَلَمْ تَرَکا خطاب یا تو اظہارتعجب کے لیے ہے اور یا اس لیے ہے کہ منافقین کی جن باتوں کا ان آیات میں ذکر کیا گیا ہے مسلمان عام طور پر ان سے واقف تھے اور سینہ بہ سینہ وہ باتیں پھیلی ہوئی تھیں۔ لیکن قرآن کریم نے ان کا تجزیہ کرکے نہ صرف ان باتوں کی تائید کی بلکہ منافقین کی تذلیل کا سامان بھی کیا۔ احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ سورة بنونضیر کے مدینے سے اخراج کے بعد نازل ہوئی ہے۔ اس لیے ضروری نہیں کہ یہ رکوع اپنے نزول میں مقدم ہو، اور اب کتابت میں اسے دوسرے نمبر پر کردیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جبکہ اس سورة کا نزول یا اس رکوع کا نزول غزوہ بنی نضیر سے پہلے ہوا ہو۔ لیکن جب یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ یہ سورة غزوہ بنی نضیر کے بعد نازل ہوئی ہے تو پھر جو ترتیب اس وقت سورة میں ہم دیکھ رہے ہیں یہی ترتیب نزول میں بھی یقینا ہوگی۔ منافقین کو اہل کتاب کا بھائی کہنے کا مفہوم آیتِ کریمہ میں منافقین کو اہل کتاب کا بھائی قرار دیا گیا ہے۔ اس سے بعض لوگوں نے یہ استدلال کیا ہے یہ منافق درحقیقت یہود ہی میں سے تھے جنھیں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا لیکن حقیقت میں یہ مومن نہیں تھے۔ لیکن اس کی حقیقت گمان کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس لیے کہ روایات سے یہ بات ثابت ہے اور تاریخ بھی اس کی تائید میں ہے کہ یہ عبداللہ بن ابی کا گروہ تھا جنھوں نے غزوہ بنی قینقاع کے وقت بھی بنی قینقاع کا ساتھ دیا تھا اور آنحضرت ﷺ ان کے بارے میں سخت فیصلہ فرمانے والے تھے کہ عبداللہ بن ابی نے نہایت اصرار کے ساتھ آپ کو ان کی جان بخشی پر راضی کیا۔ یہی وہ لوگ تھے جو بنی نضیر کو بھی درپردہ پیغامات بھیج رہے تھے ان میں اس بات کا امکان تو ہے کہ اکادکا افراد یہود میں سے بھی ہوں ورنہ عام طور پر یہود کا کوئی شخص ایمان لانے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔ کیونکہ وہ لوگ اجتماعی طور پر آنحضرت ﷺ کے دعوائے نبوت کو مسترد کرچکے تھے۔ اور اس عصبیت میں مبتلا تھے کہ نبوت بنی اسرائیل سے باہر نہیں جاسکتی۔ منافقین کی درپردہ کوششوں کا انکشاف اس آیت کریمہ میں منافقین جو درپردہ بنی نضیر کو پیغامات بھیجتے تھے ان کا پول کھولا گیا اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انھوں نے ان کو ہر ممکن طریقے سے حوصلہ دینے کی کوشش کی اور ان سے جھوٹے وعدے بھی کیے۔ اور یہاں تک کہا کہ ہم دو ہزار آدمیوں کے ساتھ تمہاری مدد کو آئیں گے اور بنی قریظہ اور بنی غطفان بھی تمہاری حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں گے۔ لہٰذا تم مسلمانوں کے مقابلے میں ڈٹ جاؤ۔ اور اگر لڑائی کی نوبت آگئی تو ہم لڑائی میں تمہارا ساتھ دیں گے اور ہر ممکن طریقے سے تمہاری مدد کریں گے۔ اور اگر شہر سے نکلنے کا موقع آیا تو تم اکیلے شہر سے نہیں نکالے جاؤ گے بلکہ ہم بھی تمہارے ساتھ نکلیں گے۔ لیکن جب مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کیا تو منافقین اپنی کسی بات پر قائم نہ رہ سکے۔ بنونضیر کو اندازہ ہوگیا کہ یہ لوگ صرف زبان کے غازی ہیں۔ اس لیے وہ بہت جلد حوصلہ ہار بیٹھے اور مدینے سے نکل جانے پر مجبور ہوگئے۔ اس آیت کریمہ میں منافقین کا یہ قول بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ہم تمہارے معاملے میں کسی کی کوئی بات ماننے کو تیار نہیں ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ چونکہ اپنے آپ کو مومن کہتے تھے اور ایمان ایک ایسا معاہدہ ہے جس میں آدمی اپنی ساری وفاداریاں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے نام پر وقف دیتا ہے۔ اور دین کے معاملے میں وہ کسی کو ترجیح دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس لیے یہود نے یقینا ان سے یہ کہا ہوگا کہ جب تمہیں تمہارے ایمان کے حوالے سے آنحضرت ﷺ یا مسلمان یہود سے ترک تعلق پر مجبور کریں گے اور صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے تمہاری وفاداری کا تقاضا کریں گے تو پھر تم کیا کرو گے ؟ انھوں نے جواب میں یہ بات کہی کہ ہم تمہارے بارے میں کسی کی بات تسلیم نہیں کریں گے۔ آیت کے آخر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ یہ لوگ اپنے وعدوں میں جھوٹے ہیں۔ ان کی زبانوں پر جو کچھ ہے وہ ان کے دلوں میں نہیں۔
Top