Ruh-ul-Quran - Al-Hashr : 22
هُوَ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ١ۚ هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ
هُوَ اللّٰهُ : وہ اللہ الَّذِيْ : وہ جس لَآ اِلٰهَ : نہیں کوئی معبود اِلَّا هُوَ ۚ : اس کے سوا عٰلِمُ الْغَيْبِ : جاننے والا پوشیدہ کا وَالشَّهَادَةِ ۚ : اور آشکارا هُوَ الرَّحْمٰنُ : وہ بڑا مہربان الرَّحِيْمُ : رحم کرنے والا
وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، غائب و حاضر کا جاننے والا، وہ رحمن و رحیم ہے
ھُوَاللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰـہَ اِلاَّھُوَ ج عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ ج ھُوَالرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ ۔ (الحشر : 22) (وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، غائب و حاضر کا جاننے والا، وہ رحمن و رحیم ہے۔ ) اللہ تعالیٰ کی عظمت کو دلوں میں اتارنے کے لیے صفاتی ناموں کا ذکر انسانوں کو یہ بتانے کے لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کیسی عظیم ہے جس نے ان پر قرآن اتارا ہے اس نے مسلسل اپنی صفات بیان فرمائیں تاکہ انسان کو کسی نہ کسی حد تک اللہ تعالیٰ کی ذات کا احساس اور استحضار پیدا ہو۔ جن میں سب سے پہلی بات یہ ارشاد فرمائی کہ وہ تمہارا اِلٰہ اور معبود ہے اور اس کے سوا تمہارا کوئی اور معبود نہیں۔ اس وجہ سے امید وبیم دونوں حالتوں میں تمہیں اسی سے رجوع کرنا چاہیے، اس کے سوا کوئی اس کا استحقاق نہیں رکھتا کہ اس کو معبود مانا جائے یا اس کی پرستش کی جائے یا اس کو مرجع سمجھ کر اس سے امیدیں وابستہ کی جائیں۔ اس کی شان یہ ہے کہ وہ غائب و حاضر دونوں کو جاننے والا ہے۔ یعنی جو کچھ مخلوقات سے پوشیدہ ہے وہ اسے بھی جانتا ہے، اور جو کچھ ان پر ظاہر ہے وہ اس سے بھی واقف ہے۔ اس صفت کے اندر امیدوبیم دونوں کے پہلو ہیں۔ بیم کا پہلو یہ ہے کہ انسان جو کچھ بھی کرتا ہے چاہے وہ مخفی طریقے سے کرے یا اعلانیہ وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ اور جب سب کچھ اس کے علم میں ہے تو وہ لازماً ایک ایک چیز سے متعلق بازپرس کرے گا۔ پھر نہ کوئی اپنے کسی قول و فعل کو چھپا سکے گا اور نہ اس کا کوئی سفارشی اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کے باب میں غلط بیانی کرسکے گا۔ ماضی میں جو کچھ گزر چکا، حال میں جو کچھ موجود ہے اور مستقبل میں جو کچھ ہوگا ہر چیز اس کو براہ راست معلوم ہے، وہ کسی ذریعہ علم کا محتاج نہیں۔ تو پھر کس طرح اس سے کوئی بات مخفی رکھی جاسکتی ہے۔ امید کا پہلو اس میں یہ ہے کہ جب اس کا رب اس کے ہر غائب و حاضر سے واقف ہے تو اس کو اس پر پورا بھروسہ رکھنا چاہیے، اور اپنی ہر درخواست اسی کے آگے پیش کرنی چاہیے۔ مزید فرمایا کہ وہ رحمن و رحیم بھی ہے۔ اَلرَّحْمٰنُ ، اَلرَّحِیْمُ رحمن اور رحیم اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے دونام ہیں۔ ان دونوں کا مادہ رحمت ہے۔ لیکن یہ رحمت کے دو مختلف پہلوئوں کو نمایاں کرتے ہیں۔ عربی زبان میں ’ رحمن ‘ فعلان کے وزن پر مبالغے کا صیغہ ہے اور ’ رحیم ‘ فعیل کے وزن پر صفت مشبہ ہے۔ فعلان میں تین باتیں نمایاں ہیں۔ 1 فعلان کا وزن صفات عارضہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے پیاسے کے لیے عطشان، غضبناک کے لیے غضبان، سراسیمہ کے لیے حیران، مست کے لیے سکران، کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ 2 فعلان کا وزن جوش و خروش اور ہیجان پر دلیل ہوتا ہے۔ اس طرح رحمن کا لفظ جو رحمت سے اسم مبالغہ ہے۔ اس کے معنی ہوں گے کہ رحمن وہ ذات ہے جس میں صفت رحمت پائی جاتی ہے اور اس کی رحمت میں ایک جوش اور ایک ہیجان ہے۔ یہ مخلوقات کے لیے اس طرح ابلتی ہے جیسے چشمہ ابلتا ہے۔ 3 فعلان کا وزن اپنے اندر وسعت اور ہمہ گیری رکھتا ہے۔ اس لحاظ سے رحمن کے معنی ہوں گے وہ ذات جس کی رحمت سارے عالم ساری کائنات اور جو کچھ اب تک پیدا ہوا ہے اور جو کچھ آئندہ ہوگا سب پر حاوی اور شامل ہے۔ اسی وجہ سے اس اسم کو لفظ اللہ کے تقریباً برابر قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد ہوا : قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِادْعُوا الرَّحْمٰنَ ط اَیًّامَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسٓمَآئُ الْحُسْنٰی۔ (بنی اسرائیل : 110) (اے پیغمبر ! فرمادیجیے کہ اللہ کہہ کر پکار ویا رحمان کے نام سے پکارو کسی طرح بھی پکارو اس کے سب نام بہتر ہیں ) ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی طرح لفظ رحمان بھی پروردگار کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے۔ کسی مخلوق کو رحمان کہنا جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی ایسا نہیں ہوسکتا جس کی رحمت سے عالم کی کوئی چیز خالی نہ رہے۔ اس لیے جس طرح لفظ اللہ کی جمع اور تثنیہ نہیں آتا۔ رحمان کا بھی جمع وتثنیہ نہیں آتا کیونکہ وہ ایک ذات پاک کے ساتھ مخصوص ہے۔ دوسرے اور تیسرے کا وہاں احتمال ہی نہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ کفار قریش اسم اللہ سے تو واقف تھے مگر اسم رحمن سے انھیں بالکل آگاہی نہیں تھی۔ اس لیے قرآن کریم نے متعددمواقع پر اس کا ذکر فرمایا کہ کفار مکہ سے جب پوچھا جاتا کہ زمین و آسمان کا خالق کون ہے ؟ سورج اور چاند کو کس نے مسخر کیا ہے ؟ آسمان سے پانی کون اتارتا ہے ؟ زمین کو ازسر نو کون زندگی دیتا ہے ؟ یہاں تک کہ جب ان سے پوچھا جاتا کہ تمہیں کس نے پیدا کیا ؟ پھر تمہیں رزق کون دیتا ہے ؟ دعائیں کون سنتا ہے ؟ تو وہ سب کے جواب میں کہتے تھے کہ اللّٰہمگر جب ان سے کہا جاتا کہ رحمان کو سجدہ کرو تو کہتے کہ رحمان کیا ہوتا ہے ؟ اسی لیے قرآن کریم نے کہا : وَھُمْ بِذِکْرِ الرَّحْمٰنِ ھُمْ کٰفِرُوْنَ ۔ (الانبیاء : 36) (یہی تو وہ ہیں کہ جو رحمان کے ذکر سے انکاری ہیں) اسی لیے علماء نے لکھا ہے کہ اگر کسی کا نام عبدالرحمن ہو اسے رحمان کہہ کر بلاناجائز نہیں کیونکہ یہ نام ذات الٰہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ مگر اس کے مقابلے میں لفظ رحیم جو اللہ تعالیٰ کے پیارے ناموں میں سے ہے وہ فعیل کے وزن پر صفت مشبہ ہے اور فعیل کا وزن دوام و استمرار، پائیداری واستواری پر دلالت کرتا ہے اور یہ وزن ایسی صفات کے لیے بولا جاتا ہے جو صفات عارضہ نہیں بلکہ صفات قائمہ ہوتی ہیں۔ مثلاً کریم کرم کرنے والا، عظیم بڑائی رکھنے والا، علیم علم رکھنے والا، حکیم حکمت رکھنے والا، دوسری یہ بات کہ اس میں رحمت کے کامل اور مکمل ہونے کا معنی پایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رحیم وہ ہوگا جس کی رحمت میں دوام اور تسلسل پایا جائے اور جس کی رحمت صفت کمال کے ساتھ متصف ہو۔ تو رحمن کے بعد رحیم کا ذکر کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پروردگار کی اپنی خلق کے لیے رحمت میں صرف جوش ہی نہیں بلکہ پائیداری اور استقلال بھی ہے۔ اس لیے اس نے یہ نہیں کیا ہے کہ اپنے رحمانیت کے جوش میں دنیا پیدا تو کر ڈالی لیکن پیدا کرکے پر اس کی خبر گیری اور نگہداشت سے غافل ہوگیا بلکہ اس کو پیدا کرنے کے بعد وہ اپنی پوری شان رحیمیت کے ساتھ اس کی پرورش اور نگہداشت بھی فرما رہا ہے۔ بندہ جب بھی اسے پکارتا ہے وہ اس کی پکار سنتا ہے اور اس کی دعائوں اور التجاؤں کو شرف قبولیت بخشتا ہے۔ پھر اس کی رحمتیں اسی چند روزہ زندگی تک محدود نہیں ہیں بلکہ جو لوگ اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے رہیں گے ان پر اس کی رحمت ایک ایسی ابدی اور لازوال شان سے ہوگی جو کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ رحیم میں ایک دوام اور تسلسل صفت کمال کے ساتھ پایا جاتا ہے تو جس طرح اس کائنات کا ارتقاء بالآخر اسے آخرت میں داخل کردے گا اور اس کی تمام نعمتیں جنت کی آغوش میں پہنچ کر ارتقاء کی منزل کو پالیں گی اسی طرح پروردگار کے رحیم ہونے کی صفت دنیا سے آخرت کی طرف اس کی رحمت کے ارتقاء کا ایک عمل ہے جو اپنی صفت کمال کے ساتھ آخرت اور جنت میں رونما ہوگا۔ اس لیے جن علماء نے الرحیم کو آخرت کے ساتھ مخصوص کیا ہے۔ ان کا شاید یہی مفہوم ہے کہ رحمت اپنی تکمیلی شان میں وہاں جلوہ گر ہوگی۔ رحمت کیا ہے ؟ یہ تو تھا الرحمن اور الرحیم کا مفہوم اور دونوں کے معنی میں فرق۔ اب سوال یہ ہے کہ دونوں کے معنوں میں ہم نے جس صفت رحمت کا ذکر کیا ہے وہ رحمت ہے کیا ؟ اگر اس رحمت کا مفہوم یہ ہے کہ اس نے کائنات کو عدم سے وجود بخشا تو یہ بات اس کی صفت خلق کا مظہر ہے اور اگر اس کا معنی یہ ہے کہ وہ پیدا کرنے کے بعد تربیت کا سامان کررہا ہے اور ہر مخلوق کو اس کی ضرورت کے مطابق سامانِ تربیت میسر آرہا ہے اور ہر ایک کی ضرورت کو پورا کیا جارہا ہے تو یہ تو وہ چیز ہے جس کو پروردگار کی صفت ربوبیت انجام دے رہی ہے۔ مگر یہاں تو رحمت کا ذکر ہورہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ رحمت کیا ہے ؟ اس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کائنات پر تدبر کی ایک نگاہ ڈالیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں کائنات کے لیے صرف پرورش اور تربیت کا سامان ہی مہیا نہیں ہورہا بلکہ پرورش سے بھی زیادہ بنانے، سنوارنے اور فائدہ پہنچانے کی حقیقت کام کررہی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی فطرت میں بنائو ہے، اس کے بنائو میں خوبی ہے، اس کے مزاج میں اعتدال ہے، اس کے افعال میں خواص ہیں، اس کی صورت میں حسن ہے، اس کی صدائوں میں نغمہ ہے اور اس کی بو میں عطر بیزی ہے اور اس کی کوئی بات ایسی نہیں جو اس کارخانہ کی تعمیر اور درستگی کے لیے مفید نہ ہو۔ پھر یہاں پر بس نہیں اس دنیا میں مخلوقات کو اپنی زندگی اور بقاء کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے صرف ایسا نہیں کہ انھیں مہیا کردیا گیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دیکھتے ہیں کہ اس کارگاہِ عالم میں عناصرِ حیات میں سے ہرعنصر، اس کے مؤثرات میں سے ہر مؤثر، اس کے خواص میں سے ہر خاصہ، ایک بےپناہ فیضان کا جوش رکھتا ہے اور ہر کسی کے اندر یہ خواہش تڑپتی دکھائی دیتی ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اپنے فیضان اور اپنی خدمت سے مخلوقات کو نوازے۔ سورج، چاند، ستارے، ہوا، بارش، دریا، سمندر، پہاڑ ان میں سے کون ہے جو مخلوقات کے لیے راحت رسانی اور آسائش دینے میں دوسرے سے پیچھے ہو۔ پھر ہم زمین کو دیکھتے ہیں تو دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں کہ اس کی سطح پھلوں اور پھولوں سے لدی ہوئی ہے۔ اس کی تہہ میں آب شیریں کی سوتیں بہہ رہی ہیں، گہرائی میں سونا چاندی نکل رہا ہے، سائے کیلیے درخت سراٹھائے کھڑے ہیں، چلنے پھرنے کے لیے سبزے کا ایک مخملیں فرش بچھا دیا گیا ہے۔ آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے سبزے کی چادریں بچھادی گئی ہیں۔ پھولوں میں رنگ وحسن پیدا کردیا گیا ہے۔ میدانوں کے اکتائے ہوئے لوگوں کے لیے سربفلک پہاڑ اٹھادیئے ہیں۔ ان میں آبشاریں ہیں جو سینوں کو مسرت سے بھرے دے رہی ہیں۔ اس میں قسم قسم کے درخت ہیں جن کی حسن افروزی اپنی ایک شان رکھتی ہے۔ پھر باغ وانہار ہیں، سبزیاں ہیں، پھل ہیں، قسم قسم کی بیلیں ہیں، پھر زمین کے چارپائے، فضا کے پرند، پانی کی مچھلیاں، یہ سب کیا ہے ؟ ظاہر ہے کہ یہ ساری چیزیں انسان کی ضرورت کے لیے ضروری نہیں تھیں۔ انسان کے لیے لکڑی کی ضرورت تھی، لیکن کیا ضروری تھا کہ درختوں کو چھتریاں بنادیا جاتا ؟ انسان کو غلے کی ضرورت تھی، لیکن لہلہاتی فصل کو نقرئی لباس پہنانے کی کیا ضرورت تھی ؟ پرندے گوشت کے لیے ضروری سہی، لیکن ان کی خوبصورت آوازیں، کوئل کی کو ک، مور کا ناچ، پپی ہے کی پی، چڑیوں کے چہچ ہے اور عام پرندوں کے ترانے یہ تو انسان کی ضرورت نہ تھے اور اگر آسمان کی طرف دیکھاجائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہم پر ایک چھت تانی گئی ہے لیکن ستاروں کا نظام اور اس کی سیروگردش، سورج کی روشنی اور اس کی بوقلمونی، چاند کی گردش اور اس کا اتار چڑھائو، فضائے آسمانی کی وسعت اور اس کی نیرنگیاں بارش کا سماں اور اس کے تغیرات، یہ سب کیا ہے ؟ یہ چیزیں یقیناانسان کی ضرورتوں میں شامل نہیں۔ ان چیزوں پر غور کریں گے تو آپ محسوس فرمائیں گے کہ یہاں ربوبیت سے زیادہ ایک اور چیز کارفرما ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو قرآن صفت رحمت سے تعبیر کرتا ہے یعنی یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ خالق کائنات میں رحمت ہے اور اس کی رحمت اپنا ظہور بھی رکھتی ہے اور جس میں رحمت ہو اور جس کی رحمت ظہور بھی رکھتی ہو تو جو کچھ اس سے صادر ہوگا اس میں خوبی اور بہتری ہوگی، حسن و جمال ہی ہوگا، اعتدال وتناسب ہی ہوگا۔ اس کے سوا کچھ ہو ہی نہیں سکتا اور پھر یہ اس کی صفت رحمت کا ظہور صرف یہاں تک محدود نہیں کہ خارج میں آپ ہر طرف حسن و رعنائی دیکھ رہے ہیں بلکہ اس کی رحمت کا اصل ظہور اس بات میں ہے کہ اس نے صرف ہمیں حسن و رعنائی ہی سے نہیں نوازا بلکہ اس سے محظوظ ہونے کے لیے احساس بھی بخشا۔ اس نے روئے خوش بخشا تو نظر کو احساسِ حسن بھی بخشا۔ اس نے پھول میں خوشبو رکھی تو ہمیں قوت شامہ سے بھی نواز۔ اس نے پانی کو ٹھنڈک عطا کی تو ہمیں ٹھنڈک کی قدر کا جذبہ بھی دیا۔ اس نے پھول میں رنگ رکھا توہ میں رنگوں کی شناخت بھی بخشی، یعنی ہر چیز سے اور اس کی حقیقی قدروقیمت سے حظ اٹھانے کے لیے جس احساس کی ضرورت تھی اس احساس سے اس نے تمام مخلوقات کو بہرہ ور فرمایا۔ وہ اپنی مخلوقات کو اولاد دیتا ہے تو اولاد کی محبت بھی دیتا ہے۔ سعی و کاوش کی سرگرمیوں کے لیے جوش وجذبہ بھی عطا کرتا ہے۔ گھر دیتا ہے تو اس کے لیے حفاظت کا جوش بھی عطا فرمایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض صورتوں میں ایک آدمی کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ سخت گرمی میں محنت اور مزدوری کررہا ہے، چہرے سے پسینہ ٹپک رہا ہے، چلچلاتی دھوپ میں بوجھ اٹھانے پر مجبور ہے، دیکھنے والی نگاہ سمجھتی ہے کہ یہ شخص اپنی زندگی سے انتہائی ناخوش ہوگا مگر شام کو دن بھر کی مزدوری کا معاوضہ پاکر جب اپنے جھونپڑے میں بیوی اور بچوں کے جھرمٹ میں بیٹھ کر وہ مسکر امسکرا کر باتیں کرتا ہے تو تب اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا مزدوری کرنا تو ایک ضرورت تھی لیکن ایسی خوشی کو پیدا کردینا یہ اس پروردگار کا کمال ہے جو رحمان اور رحیم ہے۔ اسی طرح آپ دیکھتے ہیں کہ بچے کی پیدائش ماں کے لیے کیسی جانکاہی اور مصیبت ہوتی ہے۔ اس کی پرورش اور نگرانی کس طرح خود فروشانہ مشقتوں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ تاہم یہ سارا معاملہ کچھ ایسی خواہش اور جذبے کے ساتھ وابستہ کیا گیا ہے کہ ہر عورت میں ماں بننے کی قدرتی طلب ہے اور ہر ماں پرورشِ اولاد کے لیے مجنونانہ خود فراموشی رکھتی ہے۔ وہ زندگی کا سب سے بڑا دکھ سہتی ہے اور پھر اس دکھ میں زندگی کی سب سے بڑی مسرت محسوس کرتی ہے اور جب وہ اپنی ساری راحتیں قربان کردیتی ہے، اپنی رگوں کے خون کا ایک ایک قطرہ دودھ بنا کر پلادیتی ہے، تو اس کے دل کا ایک ایک ریشہ سب سے بڑے احساسِ مسرت سے معمور ہوجاتا ہے، یہ کیا ہے ؟ یہ اس خالق کائنات کی صفت رحمت کا اظہار ہے اور پھر اگر وقت نظر سے کام لیا جائے تو اس رحمن ورحیم کے افادہ اور فیضان اور اس کی رحمت کے ظہور کی صورت کچھ انہی مظاہر پر موقوف نہیں بلکہ کارخانہ ہستی کے تمام اعمال و قوانین کا یہی حال ہے۔ مثلا دیکھئے کہ انسان ٹھوکریں کھاتا ہے، غلطیاں کرتا ہے، تو ہونا یہ چاہیے کہ غلطیوں کا خمیازہ بھگتے اور بدعملی اس کو فوراً تباہی کی طرف لے جائے لیکن ہم یہاں دیکھتے ہیں کہ اس کی صفت رحمت کا ظہور اس طرح ہورہا ہے کہ یہاں بڑے سے بڑے گناہگار کو سنبھلنے کے لیے مہلت دی جارہی ہے۔ اپنی روش کو تبدیل کرنے کا موقع دیا جارہا ہے اور اس کی جزا اور سزا کا قانون فوراً حرکت میں آنے کی بجائے آہستہ آہستہ اس کے ساتھ چلتا رہتا ہے اور اس کے عفو و درگزر کا دروازہ آخر تک کھلا رہتا ہے۔ اس لیے قرآن کریم نے کہا کہ اگر پروردگار لوگوں کو ان کی زیادتیوں پر فوراً پکڑنے لگتاتو زمین پر چلنے والا کوئی زندہ نہ رہتا۔ یہ اس کی رحمت ہے جو اچھائی کرنے والے کو بھی مہلت دیتی ہے تاکہ اس کی اچھائی نشو و نما پائے اور برائی کرنے والے کو بھی مہلت دیتی ہے تاکہ وہ متنبہ اور خبردار ہو کر اصلاح و تلافی کی کوشش کرے۔ وَلَوْ یُؤَاخِذُاللّٰہُ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوْا مَاتَرَکَ عَلٰی ظَہْرِھَا مِنْ دَآبَّۃٍ وَّلٰـکِنْ یُّؤَخِّرُھُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی ج فَاِذَا جَآئَ اَجَلُھُمْ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِعِبَادِہٖ بَصِیْرًا۔ اس خدائے رحمن ورحیم کی رحمت کے مظاہر بیشمار ہیں مگر انسان کی کوتاہ فکری ہے کہ وہ چونکہ شب وروز اس کی بےپایاں رحمتوں سے فائدہ اٹھارہا ہے، اس لیے اسے نہ اس کی پہچان ہوتی ہے، نہ اس کی قدروقیمت کا احساس ہوتا ہے۔ ایک لمحہ کے لیے تصور کریں کہ دنیا موجود ہے مگر حسن و رعنائی کے تمام جلووں اور احساسات سے خالی ہے۔ آسمان ہے مگر فضا کی یہ نگاہ پر ورنیلگونی نہیں ہے۔ ستارے ہیں مگر ان میں درخشندگی اور جہاں تابی کی جلوہ آرائی نہیں ہے۔ غورکیجیے ! ایسی دنیا کے ساتھ زندگی کا تصور کتنا بھیانک اور ہولناک ہوگا۔ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھئے، رات روز جلوہ گر ہوتی ہے مگر آنکھوں میں نیند نہیں آتی۔ صبح مسکراتی ہوئی طلوع ہوتی ہے لیکن نقاہت یا کوئی بیماری بستر سے اٹھنے نہیں دیتی۔ باہر پرندے چہچہا رہے ہیں سورج اپنی کرنوں سے کائنات کو منور کررہا ہے، لیکن آشوب چشم یا پائوں کی تکلیف باہر نکل کر محو نظارہ ہونے کی اجازت نہیں دیتی یا آدمی ان نعمتوں سے فائدہ اٹھاتا ہے، لیکن بھوک کا احساس مرجانے سے یہ نعمتیں مزا نہیں دے رہیں۔ گرمیوں میں ٹھنڈے پانی کی نعمت میسر ہے لیکن دانتوں کی تکلیف یا معدے کی سوزش پانی پینے کی متحمل نہیں ہورہی۔ باہر آزادی سے گھومنا پھرنا ایک معمول کی نعمت ہے مگر پائوں کی زنجیر باہر نکلنے کی اجازت نہیں دے رہی۔ یہ بظاہر معمولی نعمتیں ہیں لیکن اگر چھن جائیں تب آدمی کو اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی زندگی کیسی بدمزہ ہوگئی ہے۔ یہی اس پروردگار کی رحمت ہے جس کی قدردانی سے ہماری عقول نارسا قاصر ہیں۔ مزید دیکھئے ! کبھی آپ نے غور کیا کہ اگر آپ ایک ہی طرح کے معمولات اور مصروفیات میں ایک عرصہ گزارتے ہیں تو حالات کی یہ یکسانی طبیعت کو اکتا دیتی ہے اور آپ کہیں سیر کا پروگرام بنانے لگتے ہیں۔ لیکن آپ نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ اگر عام میدانی علاقے والوں کے لیے پہاڑی سلسلے نہ ہوتے اور پہاڑی سلسلے والوں کے لیے ہموار میدان نہ ہوتے، ریگستان والوں کے لیے دریائوں کی روانی نہ ہوتی اور دریا کے کنارے رہنے والوں کے لیے ریگستان کے ٹیلے نہ ہوتے تو آپ اس اکتاہٹ کا کیا علاج کرتے ؟ اگر اس سے بھی ایک قدم اور آگے بڑھیں تو آپ کو تعجب ہوگا کہ گھر بیٹھے قدرت نے ہمیں اس یکسانی سے بچنے کے لیے کیسی کیسی نعمتیں عطاکی ہیں۔ مثلاً اختلافِ لیل ونہار، درختوں کا سبزے کالباس پہن لینا، بےآباد اور بےرنگ زمین پر رنگ رنگ کے پھولوں کا کھل جانا، ایسے ہی بیشمار اختلافات ہیں جو پروردگارِ عالم کی صفت رحمت کا ظہور دنیا کی زیب وزینت اور ہماری تسکین و راحت کا سامان ہیں۔ گلہائے رنگ رنگ سے ہے زینت چمن اے ذوقؔ اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے اسی کی طرف پروردگار توجہ دلاتے ہوئے فرماتا ہے : اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰواتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِلَاٰیٰتٍ لِّـاُولِی الْاَلْبَابِ ۔ (آلِ عمران : 190) (بلاشبہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں رات دن کے ایک کے بعد ایک آتے رہنے میں اربابِ دانش کے لیے بڑی ہی نشانیاں ہیں ) مزید فرمایا : وَمِنْ رَّحْمَتِہٖ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَلَعَلَّـکُمْ تَشْکُرُوْنَ ۔ (القصص : 73) (یہ اس کی رحمت کی کارسازی ہے کہ تمہارے لیے رات اور دن ٹھہرائے گئے ہیں تاکہ رات کو راحت پائو اور دن میں اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر ادا کرو) رحمت کا ایک اور پہلو اس بحث کا ایک اور گوشہ بھی ہے جس پر توجہ دینا بےحد ضروری ہے کہ پروردگار کی رحمتوں کے مختلف مظاہر کا ہم نے تذکرہ کیا۔ تصور کیجیے ! اگر یہ جابجا اس کے ظہور کی صورتیں اور اس کے صدور کی شکلیں اپنی جگہ قائم ہوتیں اور ہر انسان اس سے بقدر ہمت استفادہ کے لیے کوشاں ہوتا اور ہر ایک اپنے آپ کو ان کا حقیقی وارث اور مالک سمجھتا اور کسی کو اس بات کا علم نہ ہوتا کہ انسانوں کا انسانوں سے کیا رشتہ ہے ؟ ان نعمتوں پر اگرچہ سب کا مساوی حق ہے مگر انسانی معیشت میں جو لوگ کسی وجہ سے پیچھے رہ گئے ان کا آگے بڑھ جانے والوں پر کیا حق ہے ؟ پھر ان میں باہمی انس اور محبت کا کوئی جذبہ نہ ہوتا، ایثار و خیرخواہی سے انسان ناواقف ہوتا۔ حقوق و فرائض سے بیخبر ، باہمی نظم و تربیت سے عاری، حکومت اور ریاست کے تصور سے نابلد، معاشرت کے اصولوں سے تہی دامن، مکارمِ اخلاق سے ناآشنا تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ان ساری نعمتوں کی موجودگی کے باوجود انسانی زندگی کس قدر ہولناک ہوتی۔ اس لیے وہ ذات بابرکت جو صرف خالق ومالک ہی نہیں رحمن ورحیم بھی ہے اس کی صفت رحمت کا یہ تقاضا ہوا کہ جہاں انسانوں کو ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازا گیا ہے وہاں اس کے استعمال اور اس کی حدود کا علم بھی دینا چاہیے ورنہ یہ اس صفت رحمت کی ناتمامی ہوگی۔ چناچہ اس نے انسان کو علم سے بہرہ ور کرنے کے لیے کتابیں اتاریں اور راہنمائی کے لیے رسول بھیجے اور اس راہنمائی کو اور کتابوں کے نزول کو اس نے ہدایت و رحمت سے تعبیر کیا۔ فرمایا : وَاِنَّہٗ لَھُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ۔ ( النمل : 77 ) (یہ قرآن ہدایت اور رحمت ہے مومنوں کے لیے) اور پھر اس کی تعلیم کو دنیا بھر کے خزانوں سے بہتر و برتر فرمایا، ارشاد ہوا۔ وَرَحْمَتُ رَبِّـکَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ ۔ ( الزخرف : 32 ) (تیرے رب کی رحمت یعنی (قرآن) بہتر ہے ان تمام خزانوں سے جن کو یہ لوگ جمع کرتے ہیں) ۔ اور پھر قیامت تک جو ذات مکمل راہنما آئیڈیل اور منارہ نور بن کر آئی ہے اس کے بارے میں فرمایا : وَمَـآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّـلْعٰـلَمِیْنَ ۔ (الانبیاء : 107) مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء مبارکہ میں یہ دونوں نام خاص حیثیت کے حامل ہیں، چناچہ یہ بات اتفاقی نہیں بہت پر معنی ہے کہ قرآن مجید میں تسمیہ میں اسم ذات کے بعد اور فاتحہ میں صفت ربوبیت کے بعد ان دونوں ناموں کا ذکر کرنا اسی کا مظہر ہے۔ پروردگار سے عاجزانہ دعا ہے کہ وہ اپنے گنہگار بندوں پر اپنی رحمت کا گھنا سایہ ڈالے کیونکہ خود اس کا ارشاد ہے : وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ ط
Top