Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Hashr : 23
هُوَ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ١ؕ سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
هُوَ اللّٰهُ
: وہ اللہ
الَّذِيْ
: وہ جس
لَآ اِلٰهَ
: نہیں کوئی معبود
اِلَّا هُوَ ۚ
: اس کے سوا
اَلْمَلِكُ
: بادشاہ
الْقُدُّوْسُ
: نہایت پاک
السَّلٰمُ
: سلامتی
الْمُؤْمِنُ
: امن دینے والا
الْمُهَيْمِنُ
: نگہبان
الْعَزِيْزُ
: غالب
الْجَبَّارُ
: زبردست
الْمُتَكَبِّرُ ۭ
: بڑائی والا
سُبْحٰنَ
: پاک
اللّٰهِ
: اللہ
عَمَّا
: اس سے جو
يُشْرِكُوْنَ
: وہ شریک کرتے ہیں
وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، بادشاہ نہایت مقدس، سراسر سلامتی، امن دینے والا، معتمد، سب پر غالب، زورآور، بڑا ہی ہو رہنے والا، اللہ پاک ہے ان چیزوں سے جن کو لوگ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں
ھُوَاللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰـہَ اِلاَّ ھُوَ ج اَلْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُھَیْمِنُ الْعَزِیْزُالْجَبَّارُالْمُتَـکَبِّرُ ط سُبْحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ۔ (الحشر : 23) (وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، بادشاہ نہایت مقدس، سراسر سلامتی، امن دینے والا، معتمد، سب پر غالب، زورآور، بڑا ہی ہو رہنے والا، اللہ پاک ہے ان چیزوں سے جن کو لوگ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ ) اس آیت میں پہلے تو اسی ٹکڑے کا اعادہ ہے جو اوپر والی آیت میں گزرا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک کی نفی اور توحید کا اثبات سب سے زیادہ اہمیت کی حامل حقیقتیں ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے آٹھ اسماء مسلسل ذکر فرمائے گئے ہیں۔ اب ہم اسی ترتیب سے ان اسماء کی وضاحت کرتے ہیں۔ اَلْمَلِـکُ پروردگارِ عالم کے پیارے اور مبارک ناموں میں سے ایک نام ” الملک “ بھی ہے۔ جس کا معنی ہے ” بادشاہ “۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ” ملک “ کا استعمال انسانوں کے لیے بھی ہوتا ہے۔ خود قرآن کریم نے ” ملک “ کا لفظ استعمال کیا اور ملوک کا بھی، لیکن اگر اس کے بین السطور میں غور کیا جائے تو تین باتیں صاف معلوم ہوتی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ دنیا کے ملوک یعنی انسانی بادشاہ ان کی فرمانروائی اور حکمرانی کے اسلوب پر غور کیا جائے تو ان کی صحیح تصویر وہ ہے جو قرآن کریم نے کھینچی ہے۔ اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْھَا وَجَعَلُوْٓا اَعِزَّۃَ اَھْلِھَـآ اَذِلَّـۃً ج وَکَذٰلِکَ یَفْعَلُوْنَ ۔ (النمل : 34) (بادشاہوں کا یہ حال ہے کہ جب کسی نئی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے بگاڑ دیتے ہیں وہاں کے عزت والے باشندوں کو ذلیل کرتے ہیں اور وہ ایسا ہی کیا کرتے ہیں ) ۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے بادشاہوں کا طریق حکومت کیا ہوتا ہے اور انسانوں کے حصہ میں ان کی طرف سے کیا چیز آتی ہے۔ البتہ ! یہ ضرور ہے کہ دنیا میں الملک العادل کا وجود بھی رہا ہے۔ لیکن حقیقت میں ان کی اصل حیثیت الملک نہیں بلکہ عادل کی ہے۔ وہ اپنے عادل ہونے کی وجہ سے قابل تعریف سمجھے گئے ہیں ملک ہونے کی وجہ سے نہیں۔ 2۔ قرآن کریم میں جہاں کہیں کسی انسان کے لیے الملک کا استعمال ہوا ہے جیسے سورة یوسف میں۔ تو مراد اس سے صرف باشادہ نہیں بلکہ اس علاقے کا بادشاہ مراد ہے تو اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بات مخصوص علاقے کے بادشاہ کی ہورہی ہے الملک کی نہیں۔ پروردگار کا نام اصل میں الملک ہے۔ جس کا مطلب ہے ” اصل اور حقیقی بادشاہ “ اور ایسا بادشاہ جس کی بادشاہت انسانوں کے گروہ تک محدود نہیں بلکہ وہ ملک الناس ہے۔ جس طرح سورة الناس میں اسے استعمال کیا گیا ہے۔ اسی طرح اس کی بادشاہت کسی خاص علاقے تک محدود نہیں بلکہ وہ سارے جہان کا بادشاہ ہے پوری کائنات پر اس کی سلطانی و فرمانروائی محیط ہے اور کائنات میں وہ ہر چیز کا مالک ہے اور ہر چیز اس کے تصرف اقتدار اور حکومت کی تابع ہے۔ اس کی وضاحت قرآن کریم نے جابجا کی ہے۔ ایک جگہ فرمایا : وَتَبٰـرَکَ الَّذِیْ لَـہٗ مُلْـکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَھُمَا۔ (الزخرف : 85) (بڑی برکتوں کا دینے والا وہ ہے کہ سارے آسمان اور تمام دنیا اور ان دونوں کے درمیان جو کچھ ہے سب کچھ اس کی سلطنت میں شامل ہے) پروردگار کی حاکمیت صرف تکوینی نہیں، تشریعی بھی ہے اور پھر اس کی حاکمیت صرف تکوینی حد تک نہیں ہے بلکہ وہ تشریعی طور پر بھی الملک ہے کیونکہ وہ الملک ہونے کے ساتھ ساتھ خالق بھی ہے اور قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ جو خالق ہوتا ہے وہ حکمران بھی ہوتا ہے کیونکہ یہ بات خلاف عقل ہے کہ خلق کوئی کرے اور امر کوئی دے۔ اس لیے اس نے جب اس زمین پر انسان کو بھیجا تو اس کے ساتھ ساتھ اس کو احکام بھی دئیے اور زندگی گزارنے کے طریقے بھی سکھائے اور پھر اس طریقے کا اسے پابند ٹھہرا کر جزا اور سزا کا مکلف بھی بنایا اور پھر وہ ایسا بادشاہ ہے کہ جس کی سلطنت کسی کی عطاکردہ نہیں، نہ اس کی سلطنت کو زوال ہے، نہ اس کی سلطنت میں کوئی شریک ہے، نہ اس کے اختیارات میں کسی کو دم مارنے کی مجال ہے۔ وہ تنہا فیصلے کرتا ہے اور کوئی اس کے فیصلے میں دخل اندازی نہیں کرسکتا۔ وہ ایسا بادشاہ ہے جو ہر ایک سے پوچھنے کا حق رکھتا ہے اور کسی کو اس سے پوچھنے کا کوئی حق نہیں۔ بادشاہوں سے رعایا مطالبہ کرنے کا حق رکھتی ہے لیکن اس کی رعایا اس سے دعا کرسکتی ہے مطالبہ نہیں کرسکتی۔ قرآن کریم میں ان تصورات کو جابجا نمایاں کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوا : وَلَـہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط کُلٌّ لَّـہٗ قٰنِتُوْنَ ۔ (الروم : 26) (زمین اور آسمان میں جو بھی ہے اس کا مملوک ہے، سب اسی کے تابع فرمان ہیں) یُدَبِّرُالْاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ ۔ (السجدہ : 5) (آسمان اور زمین تک وہ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے) لَـہٗ مُلْـکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ ۔ (الحدید : 5) (زمین اور آسمانوں کی بادشاہت اسی کی ہے اور اللہ کی طرف سارے معاملات رجوع کیے جاتے ہیں ) وَلَمْ یَـکُنْ لَّـہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ ۔ (الفرقان : 2) (بادشاہی میں کوئی اس کا شریک نہیں ) بِیَدِہٖ مَلَـکُوْتُ کُلِّ شَیْئٍ ۔ (یٰسین : 83) (ہرچیز کی سلطانی و فرمانروائی اسی کے ہاتھ میں ہے ) فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْد۔ (البروج : 16) (جس چیز کا ارادہ کرے اسے کر گزرنے والا ہے) لَایُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْئَلُوْنَ ۔ (الانبیاء : 23) (جو کچھ وہ کرے اس پر وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے اور سب جوابدہ ہیں) وَاللّٰہُ یَحْکُمُ لاَ مُعَقِّبَ لِحُکْمِہٖ ۔ (الرعد : 41) (اور اللہ فیصلہ کرتا ہے کوئی اس کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے والا نہیں ہے ) وَھُوَ یُجِیْرُوَلاَ یُجَارُ عَلَیْہِ ۔ (المومنون : 88) (اور وہ پناہ دیتا ہے کوئی اس کے مقابلے میں پناہ نہیں دے سکتا) قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الْمُلْـکِ تُؤْتِی الْمُلْـکَ مَنْ تَشَآئُ وَتُنْزِعُ الْمُلْـکَ مِمَّنْ تَشَآئُ ز وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ ط بِیَدِکَ الْخَیْرُ ط اِنَّـکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرُ ۔ (آلِ عمران : 26) (کہو ! اللہ ملک کا مالک تو جس کو چاہتا ہے ملک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ملک چھین لیتا ہے جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کردیتا ہے۔ بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے یقینا تو ہر ایک پر قدرت رکھتا ہے ) مندرجہ بالا آیات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت میں کہیں اگر بادشاہت یا حکومت پائی جاتی ہے تو صرف وہی ہے جس کا تاجدار پروردگار حقیقی ہے۔ اس لیے اس نے قرآن پاک میں اپنے آپ کو الملک الحق فرمایا کہ حقیقی بادشاہ وہی ہے باقی تو سب نام کے بادشاہ ہیں جن کی بادشاہت دوسروں کے سہارے قائم ہے اور کوئی خبر نہیں کب بغاوت ہوجائے یا خود بادشاہ سلامت چل بسیں۔ اس لیے اقبال نے ٹھیک کہا : سروری زیبا فقط اس ذات بےہمتا کو ہے حکمراں ہے اک وہی باقی بتان آذری پھر سورة الحشر کی آیت میں الملک کے بعد اس کی صفات بھی ذکر فرمائی گئی ہیں کہ دنیا میں لوگ صرف بادشاہ ہوتے ہیں اس لیے بادشاہتوں کے نتیجے میں انسانوں کے حصے میں صرف ظلم آتا ہے لیکن وہ پروردگارِ عالم صرف بادشاہ نہیں بلکہ القدوس بھی ہے جس سے ظلم کا صدور ممکن ہی نہیں اور پھر وہ السلام بھی ہے اس کی فرمانروائی میں سلامتی کے سوا اور کچھ نہیں۔ ہم اگر اس الملک القدوس سے کوئی تعلق پیدا کرنا چاہتے ہیں تو جہاں اس کے ساتھ محبت ضروری ہے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے احکام کی اطاعت کریں اور اس کی حکمرانی اور آئینِ ربانی کے وفادار رہیں۔ اَلْقُدُّوْسُ ” القدوس “ پروردگارِ عالم کے پیارے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ القدوس اسم مبالغہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا تنزیہی نام ہے۔ اس کا فعل باب نصرینصر سے آتا ہے۔ اس کا مادہ ” قدس “ ہے۔ قدس کے معنی ہیں ” تمام بشری صفات سے، نقائص وعیوب سے پاکیزہ اور منزہ ہونا “ اور القدوس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس سے بدرجہا بلندو برتر ہے کہ اس کی ذات میں کوئی عیب یا نقص یا کوئی قبیح صفت پائی جائے بلکہ وہ ایک پاکیزہ ترین ہستی ہے۔ جس کے بارے میں کسی نقص، کمزوری یا برائی کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ وتر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد سبحان الملک القدوس، سبحان الملک القدوس، سبحان الملک القدوس اور رب الملئکۃ والروح پڑھا کرتے تھے۔ تیسری دفعہ کے قدوس میں آواز زیادہ بلند اور طویل فرمایا کرتے تھے۔ اس حدیث سے دو باتوں کی طرف راہنمائی ہوتی ہے۔ ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ صرف قدوس ہی نہیں بلکہ رب الملئکۃ والروح بھی ہے۔ یعنی اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ ملائکہ اور روح کو بھی قدوسی مخلوق کہا جاتا ہے۔ حضرت جبرئیل امین کو قرآن کریم میں ” روح القدوس “ کہا گیا ہے۔ لہٰذا ایک عام نگاہ میں یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ جیسی قدوسیت اور پاکیزگی فرشتوں اور جبریل امین میں ہے ویسی ہی شائد پروردگار میں بھی ہے۔ لہٰذا یہاں اس خیال کا ازالہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان کی قدوسیت اور ان کی پاکیزگی، مخلوق ہونے کی حیثیت میں ہے اور ان کی اپنی شان کے مطابق ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی قدوسیت کے معنی یہ ہیں کہ وہ ان عوارض اور ان کمزوریوں سے بھی پاک ہے جو بشریت اور ملکیت کے لوازم میں سے ہیں یعنی جس طرح ملائکہ اور حضرت جبریلِ امین مخلوق ہونے کے لحاظ سے اپنا ایک آغاز اور اپنی ایک انتہا رکھتے ہیں اور جس طرح زبان ومکان کے محتاج ہیں اور جس طرح اپنے اعمال کے لیے جوابدہی کے پابند ہیں اور جس طرح وہ اپنے کچھ فرائض رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں سے پاک اور منزہ ہے اور وہ لوازم حدوث اور نقصانِ امکان سے بھی ارفع واعلیٰ ہے اور جس کی دریافت، تصورِ خیال اور احاطہ عقل سے بھی بلندو برتر ہے۔ دوسری بات جس کی طرف مندرجہ بالاحدیث اشارہ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی سورة حشر اور آنحضرت ﷺ کی دعائوں میں قدوس کا لفظ الملک کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ جس میں بتانا یہ مقصود ہے کہ قدوسیت درحقیقت حاکمیت کے اولین لوازم میں سے ہے۔ انسان کی عقل اور فطرت یہ ماننے سے انکار کرتی ہے کہ حاکمیت کی اہل کوئی ایسی ہستی ہوسکتی ہے جو شریر بدخلق اور بدنیت ہو۔ جس میں قبیح صفات پائی جاتی ہوں۔ جس کے اقتدار سے اس کے محکوموں کو بھلائی نصیب ہونے کی بجائے برائی کا خطرہ لاحق ہو۔ اس بارے میں انسان جہاں بھی حاکمیت کو مرکوز قرار دیتا ہے وہاں قدوسیت کے بغیر اقتدارِ مطلق ناقابلِ تصور ہے۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا درحقیقت کوئی مقتدرِ اعلیٰ بھی قدوس نہیں ہے اور نہیں ہوسکتا۔ وہ چونکہ قدوس ہے اور اپنی صفات کا عکس بندوں میں دیکھنا چاہتا ہے اس لیے اس نے اپنے بندوں کو پاکیزہ بنانے کے لیے کتاب اتاری اور رسول بھیجے تاکہ بندے پاکیزہ بن کر اس کا قرب حاصل کرنے کے اہل ہوسکیں۔ اس لیے سورة جمعہ میں اس نے ملک اور قدوس دونوں اسماء کا ذکر فرمانے کے بعد خاتم الرسل ﷺ کی بعثت کا ذکر فرمایا۔ غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول اور کتاب اس نے اس لیے بھیجی کہ وہ بادشاہ ہے۔ اس کے بادشاہ ہونے کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی رعایا کے پاس اپنے سفیر اور اپنے احکام بھیجے اور اپنے بندوں کا تزکیہ اس لیے اس نے چاہا کہ وہ قدوس اور پاک ہے۔ وہ یہ پسند نہیں کرسکتا کہ اس کے بندے گناہوں میں آلودہ رہیں اسی لیے بزرگانِ دین نے لکھا کہ جو لوگ اسم پاک سے تعلق پیدا کرنا چاہیں ضروری ہے کہ ہمیشہ باوضو رہیں اور قابل نفرت عیوب اور نقائص سے خود کو دور رکھیں اور اپنے اندروہ افعال اور اعمال پیدا کرنے کی کوشش کریں جن سے ان میں آنحضرت ﷺ کی نسبت اور پروردگارِ عالم جو القدوس ہے اس کی صفات کا پرتو پیداہو۔ آخر میں خدائے رحیم وکریم سے دعا ہے کہ وہ اپنے اس پاک نام کی برکت سے ہمارے اعتقاد عمل میں طہارت و پاکیزگی پیدا فرمائے۔ آمین اَلسَّلاَ مُ ہر مذہب میں عقیدہ توحید بنیادی حیثیت رکھتا ہے مگر اسلام کے سوا کوئی مذہب عقیدہ توحید کو خالص نہیں رکھ سکا۔ کہیں اللہ کی ذات میں کسی کو شریک ٹھہرایا گیا، کہیں اللہ کی صفات میں اور کہیں اللہ کے افعال میں۔ جہاں تک صفات میں شرک کا تعلق ہے اس کی دو بنیادی وجہ ہیں ایک وجہ یہ ہے کہ قدیم مذاہب میں صفاتِ الہٰی کو ذات الہٰی سے الگ مستقل وجود کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ چناچہ ہندوئوں کے عام مذاہب میں جو خدائوں کا لاتعداد لشکر نظر آتا ہے۔ وہ سب اسی غلطی کا نتیجہ ہے کہ ہر ایک صفت کو انھوں نے ایک علیحدہ مستقل وجود مان لیا ہے۔ اور اسی طرح ایک خدا کے تینتیس خدا بن گئے۔ اسی طرح عیسائیوں نے بھی خدا کی تین بڑی صفتوں یعنی حیات، علم اور ارادہ کو تین مستقل شخصیتیں تسلیم کرلیا ہے۔ یعنی حیات باپ ہے، علم روح القدس ہے اور ارادہ بیٹا ہے۔ اسی قسم کی چیزیں رومی، یونانی اور مصری تخیل میں بھی ملتی ہیں۔ لیکن اسلام نے اس غلطی کو ختم کیا اور بتایا کہ صفات کی نیرنگی سے دھوکا کھا کر ایک کو چند سمجھنا انسان کی جہالت اور نادانی ہے۔ وہ پروردگار ایک ہے اور ساری خوبیاں اور صفتیں اسی ایک پروردگار کی ہیں جس کا ذاتی نام ش ہے۔ ارشاد فرمایا : قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِادْعُوا الرَّحْمٰنَ ط اَیًّامَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسٓمَآئُ الْحُسْنٰی۔ (بنی اسرائیل : 110) (کہہ دیجیے اس کو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر جو کچھ کہہ کر پکارو سب اچھے نام یا اچھی صفتیں اسی کی ہیں) ۔ یعنی صفات کے تعدد اور اختلاف سے موصوف میں تعدد اور اختلاف نہیں ہوتا۔ پروردگارِعالم کے ان صفاتی پیارے ناموں میں سے ایک نام ” السلام “ بھی ہے۔ قرآن کریم میں یہ بطوراسم صرف اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی ہیں ” سالم “۔ یعنی وہ جو سلامتی میں کامل ہے اور جس کی سلامتی ہر طرح کے زوال اور ہر طرح کے خطرہ سے پاک ہے بلکہ وہ سلامتی کا منبع ہے جو دوسروں کو سلامتی بخشتا ہے۔ نبی کریم ﷺ اسی لیے نماز کے بعد یہ پڑھا کرتے تھے۔ اَللَّھُمَّ اَنْتَ السَّلاَمُ وَمِنْکَ السَّلَامُ تَبَارَکْتَ یَاذَاالْجَلاَلِ وَاِلْاَکِرَامِ (اے اللہ ! تو سلامتی ہے اور تجھ سے سلامتی پہنچتی ہے، اے جلال اور عزت والے تو بابرکت ہے) ۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ جبریل (علیہ السلام) تشریف لائے تو انھوں نے حضور کے واسطے سے حضرت خدیجہ ( رض) کو اللہ تعالیٰ کا سلام پہنچایا۔ تو حضرت خدیجہ ( رض) نے جواب میں کہا : ( اِنَّ اللّٰہَ ھُوَا لسَّلاَمُ وَمِنْہُ السَّلاَمُ ) (اللہ تعالیٰ تو خود سلامتی کا مالک ہے اور اسی سے سلامتی پہنچتی ہے ) ۔ گویا دنیا میں جہاں کہیں خیریت، عافیت، سلامتی کا دور دورہ نظرآتا ہے۔ وہ سب ذات باری تعالیٰ کی اس صفت کا پرتو ہے۔ قرآن کریم اور احادیث میں سلام مصدر کے طور پر بھی استعمال ہوا ہے۔ یعنی اس سلامتی سے مراد وہ سلامتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے مومن بندوں کو پہنچتی ہے اور اس سے مراد اہل ایمان کے لیے دنیوی، اخروی، فلاح ہے جس میں کسی کافر کا کوئی حصہ نہیں۔ اس لیے قرآن کریم میں کہا گیا۔ سَلَامٌ قف قَوْلاً مِّنْ رَّبِّ رَّحِیْمٍ ۔ (یٰسین : 58) (یہ سلام قول ہے رب رحیم کا) ۔ یعنی اہل جنت کو پروردگار کی جانب سے اسی سلامتی کا مژدہ سنایاجائے گا اور کفار سے کہا جائے گا۔ وَامْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّھَا الْمُجْرِمُوْنَ ۔ (یٰسین : 59) (اے مجرمو ! الگ ہو کر کھڑے ہوجاؤ ) تم نے دنیا میں سلامتی کے اس پیغام کی قدر نہیں کی تھی اس لیے آج آخرت میں تمہارے لیے سلامتی میں کوئی حصہ نہیں اور اسی سلامتی کو مسلمانوں کا شعار بنایا اور حکم دیا کہ تم آپس میں ملو تو ایک دوسرے پر السلام علیکم کہہ کر اسی سلامتی کا اظہار کرو اور اپنے مومن بھائیوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے اسی سلامتی کی دعامانگو۔ چناچہ حضور ﷺ نے حکم دیا کہ آپس میں سلام کو عام کرو۔ گھر میں داخل ہو تو سلام کرو، کسی مجلس میں جاؤ تو سلام کرو، کسی راستے پر گزرو تو ہر آنے جانے والے کو سلام کرو۔ گویا سلام تمہارا شعار بن جانا چاہیے اور یہ دعا تمہارا مقدر بن جانی چاہیے اور پھر مسلمانوں کو جو دین دیا گیا وہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ اور برگزیدہ دین ہے۔ اس کا بھی قریبی تعلق سلام سے ہے۔ یعنی وہ اس لفظ سے مشتق اور اس کی معنویت اسی سے ماخوذ اور اس کے نتائج وثمرات اسی سے مستنیر ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی ایک مشہور دعا ہے جسے حضور ﷺ نے ہر شب بستر پر لیٹ کر پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ اس کا پہلا جملہ یہ ہے (اَللَّھُمَّ اَسْلَمْتُ نَفْسِیْ اِلَیْکَ ) مختصر یہ کہ پروردگارِ عالم نے نام کے اعتبار سے بھی اور پھر اسی سلام کو عام کرنے کے لیے بھی اسے مسلمانوں کا شعار بنایا اور دعا قرار دیا اور آپس میں اسے زیادہ سے زیادہ عام کرنے کا حکم دیا اور پھر دنیوی، اخروی، نعمتوں کا جامع قرار دے کر اہل ایمان کی خصوصیت بنادیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس سلامتی سے حصہ وافر عطا فرمائے۔ ہمارے معاشرے پر اس صفت کو سایہ افگن فرمائے اور ہمارے سیرت و کردار کو اس کا عکس بنادے۔ آمین اَلْمُؤْمِنُ اللہ کے پیارے ناموں میں سے ایک ” المؤمن “ بھی ہے۔ اس لفظ کے معنی میں بڑی وسعت ہے۔ مومن کا لفظ ایمان سے بنا ہے۔ یعنی اس کا مادہ امن ہے۔ اس لحاظ سے اس کا معنی ہوگا اللہ تعالیٰ ایمان والا ہے یعنی وہ اپنی ذات اپنے رسولوں کی رسالت اور آخرت کے واقع ہونے اور اپنے دین کے سچا ہونے پر ایمان رکھتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ ان تمام صداقتوں کی شہادت دیتا ہے۔ انہی معنوں میں ہر بندہ مومن بھی مومن کہلاتا ہے۔ البتہ ! ایک آدمی کے مومن ہونے اور پروردگار کے مومن ہونے میں فرق یہ ہے کہ انسان ان تمام صداقتوں کی تصدیق اللہ اور اس کے رسولوں کی تصدیق پر کرتا ہے۔ بلاواسطہ اس کے یہاں تصدیق کی کوئی صورت نہیں مگر پروردگارِعالم کی ذات کی تمام صداقتوں پر تصدیق ایمان کی سب سے بڑی سند ہے۔ وہی یہ کہتا ہے کہ اللہ ہے اور اس کا دین سچا ہے اس کی سب سے بڑی دلیل کیا ہے ؟ وہ خود اللہ تعالیٰ کی شہادت ہے اور اسکی شہادت سے بڑھ کر اور کس کی شہادت ہوگی۔ ارشادِ خداوندی ہے : شَہِدَاللّٰہُ اَنَّـہٗ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ھُوَ ۔ لا (آلِ عمران : 18) (اللہ تعالیٰ نے شہادت دی کہ کوئی معبود نہیں مگر وہی ) یعنی اس کے معبود ہونے کی سب سے بڑی شہادت خود اس کی اپنی ذات ہے اور اس شہادت کو سمجھنے کے لیے چشم بینا درکار ہے۔ جو آدمی کھلی آنکھوں سے کائنات اور آثار کائنات کا مطالعہ کرے گا اور دلائلِ انفس اور آفاق میں غور کرے گا اس کے لیے اس شہادت کو سمجھنا مشکل نہیں۔ اسے یقین ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ ہی حقیقی مومن ہے۔ مومن کے دوسرے معنی ہیں ” ایمان دینے والا، ایمان عطا کرنے والا “ یعنی اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جو انسانوں کو ایمان عطا فرماتی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے : وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ ۔ ( الحجرات : 7) (اللہ ہے جس نے ایمان کو تمہارا محبوب بنادیا) دوسری جگہ ارشاد ہے : اُولٰٓئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْاِیْمَانَ ۔ (المجادلۃ : 22) (یہ وہ لوگ ہیں جن کے دل میں اللہ تعالیٰ نے ایمان رکھ دیا ) اس معنی پر اگر غور کیا جائے تو اس کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہونی چاہیے کہ ایمان اللہ کی سب سے بڑی نعمت اور سب سے بڑی دولت ہے جبکہ اس سے چھوٹی سی چھوٹی نعمت بھی اسکے سوا کوئی عطانھیں کرسکتا توظاہر ہے کہ ایمان جیسی نعمت اللہ کے سوا اور کون عطا کرسکتا ہے۔ یہ اسی کی دین ہے اور اسی کی عطا ہے۔ المؤمنکے تیسرے معنی امن دینے والا ہے یعنی مومن وہ جو امن بخشتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اس معنی میں مومن کہا گیا کہ وہ اپنی مخلوق کو امن دینے والا ہے۔ اس کی مخلوق اس خوف سے بالکل محفوظ ہے کہ وہ کبھی اس پر ظلم کرے گا یا اس کا حق مارے گا یا اس کا اجر ضائع کرے گا یا اس کے خلاف کیے ہوئے وعدے کی خلاف ورزی کرے گا اور پھر اس فاعل کا کوئی مفعول بیان نہیں کیا گیا کہ وہ کس کو امن دینے والا ہے بلکہ المومن کہا گیا اس لیے اس سے یہ مفہوم آپ سے آپ نکلتا ہے اور پھر یہ امن دلوں کو عطا ہوتا ہے یعنی دل اس کے نام سے سکون پکڑتے ہیں۔ اس پر توکل سے دلوں میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ اس کی چاہت سے دنیا کا بحران سرد ہوتا ہے اور اس کی آتش محبت سے آرزوئوں کی آگ ٹھنڈی ہوتی ہے۔ اس لیے فرمایا : وَقَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّ م بِالْاِیْمَانِ (النحل : 106) یہاں اسی ایمان سے امن کی طرف اشارہ ہے اور کبھی یہ امن اس کے پیغام کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کرنے کے نتیجے میں عطا ہوتا ہے۔ جس کی عملی صورت خلافتِ راشدہ کا قیام ہے۔ ارشاد ہوتا ہے : وَلَـیُبَدِّ لَـنَّھُمْ مِّنْم بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا۔ (النور : 55) (اگر وہ یہ نظام اپنے اوپر نافذ کرلیں گے تو اللہ ان کے خوف کو امن سے بدل دیں گے) ۔ یہی وہ امن ہے جس کا ذکر صحیح بخاری میں حضرت عدی بن حاتم طائی کی روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عدی بن حاتم طائی سے تین باتیں بیان فرمائیں اور ان میں سے ایک یہ تھی کہ عدی شائد تم کو اسلام میں داخل ہونے سے یہ امر مانع ہے کہ ملک میں امن نہیں۔ تم عنقریب دیکھو گے کہ ایک بڑھیا اکیلی قادسیہ سے حج کے لیے چلے گی اور اسے اللہ کے سوا راستے میں کسی کا خوف نہیں ہوگا۔ حضرت عدی بن حاتم طائی کہتے ہیں کہ میں نے عہد فاروقی میں اپنی آنکھوں سے ایسا ہی دیکھا۔ مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ کا اسم پاک مومن ہے۔ یعنی صداقتوں کے لیے وہ سب سے بڑی سند ہے۔ سب سے بڑی شہادت ہے اور وہ بندوں کو امن عطا فرماتا ہے، وہ ایمان عطا کرتا ہے۔ اس کا دیا ہوانظام دنیا میں امن کی ضمانت ہے۔ اس کا نام دل کو آرام اور روح کو اطمینان دیتا ہے۔ آئیے ! ہم اسی نام سے اپنے لیے امن اور سکون کی دعامانگیں۔ اَلْمُھَیْمِنُ اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام المہیمن ہے۔ اس کو ” م “ کے کسرہ اور فتح دونوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ یعنی مہیمنبھی اور مہیمنبھی۔ صاحب قاموس کا خیال ہے کہ یہ اصل میں مائمن ہے۔ دوسرے ہمزہ کو یا سے اور پہلے ہمزہ کو حرف ہا سے بدل دیا گیا ہے۔ اسی طرح مہیمنہوگیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ اس کا مادہ ہیمن یہیمن ہے۔ یہ تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ پہلا معنی ہے نگہبانی اور حفاظت کرنے والا۔ اسی سے عربی میں یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے۔ ھیمن الطائر علی فراخہ جس کا معنی ہے کہ ” پرندہ اپنے بچوں پر پر پھیلائے اڑ رہا ہے یا اپنے پروں میں انھیں سمیٹ کر حفاظت کر رہا ہے۔ انہی معنوں میں قرآن کریم کے لیے قرآن کریم میں یہ الفاظ استعمال ہوئے۔ وَاَنْزَلْـنَـآ اِلَیْـکَ الْـکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَابَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْـکِتٰبِ وَمُھَیْمِنًا عَلَیْہِ ۔ (المائدۃ : 48) (اور ہم نے آپ کی طرف ایک کتاب اتاری ہے حق کے ساتھ جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنیوالی ہے اور اس پر نگران ونگہبان ہے) یہاں قرآن مجید کے لیے یہ جو کہا گیا ہے کہ وہ اپنے سے پہلی کتابوں کی نگہبان ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک تمام آسمانی کتابوں اور صحائف میں جتنی صداقتیں اور حقیقتیں بیان کی گئی ہیں۔ قرآن ان تمام کی جامع کتاب ہے اور وہ انھیں اپنے اوراقِ علم وفضل میں حفاظت سے لیے بیٹھی ہے اور اب قیامت تک ان میں تحریف و ترمیم کی گنجائش نہیں اور پھر ان کتابوں میں جتنے احکامِ شریعت بیان ہوئے تھے اور جتنی عرفان بخش دعائوں کا ذکر تھا اور جیسا کچھ اس میں علم و فضل کا اظہار کیا گیا تھا اور جتنی غیب کی خبریں ان میں بیان کی گئیں قرآن کریم ان تمام کی جامع کتاب ہے۔ اس لحاظ سے یہ کتاب پہلی کتابوں کے لیے مہیمن ہے۔ انھیں معنوں میں اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں المہیمن کا استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی وہ ایسا نگہبان ہے جو اپنی مخلوقات میں سے ہر ایک کی نگہبانی کرتا ہے جو ہر کمزورکو طاقتور کے خوف سے مامون رکھتا ہے۔ وہ ایسا امین ہے جو کسی کا حق ضائع نہیں ہونے دیتا اور پھر چونکہ یہاں کسی مفعول کا ذکر نہیں کیا گیا اس لحاظ سے یہ حفاظت عام ہے جس میں کائنات کی تمام مخلوقات شامل ہیں اور کوئی مخلوق چاہے چھوٹی ہو یا بڑی قدرت کی نگاہ ہر ایک کی خبرگیری کرتی ہے اور اس کی پرورش کا سروسامان کرتی اور اس کی ضروریات کی فراہمی اس نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ المہیمنکا دوسرا معنی ” شاہد “ ہے۔ یعنی وہ دیکھ رہا ہے کہ کون کیا کرتا ہے۔ قرآن کریم میں دوسرے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی اس صفت کو جابجا بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً : اِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط وَاللّٰہُ بَصِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوٌنَ ۔ (جو کچھ تم کررہے ہو یا قیامت تک کروگے، برابر اللہ دیکھ رہا ہے۔ تمہارا کوئی عمل اس کی نگاہوں سے مخفی نہیں رہ سکتا) یہی وجہ ہے کہ اسلامی نقطہ نگاہ سے قوموں کے عروج وزوال میں کوئی نتیجہ یا حادثہ اتفاقی نہیں ہوتاکیون کہ ایک دیکھنے والا انفرادی اور اجتماعی اعمال کو برابر دیکھ رہا ہے۔ انہی کے مطابق پھر قسمتوں کے فیصلے کرتا ہے۔ اس لیے یہاں اتفاقات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اتفاقات تو وہاں ہوتے ہیں جہاں علت ومعلول میں کہیں جھول ہو یا اسباب وعلل کا قانون نافذ کرنے والا نتیجہ خیزی کے اس عمل سے غافل ہوجائے۔ اکبر مرحوم نے اپنے انداز میں کہا تھا کہ : جب میں کہتا ہوں کہ یا اللہ میرا حافل دیکھ حکم ہوتا ہے کہ اپنا نامہ اعمال دیکھ المہیمنکا تیسرا معنی قائم بامور الخلق ہے یعنی جس نے لوگوں کی ضروریات اور حاجات پوری کرنے کا ذمہ اٹھا رکھا ہو۔ ظاہر ہے کہ کون ذات ہے جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ انسانوں کی ضروریات کی کفیل ہے اور وہ مانگے اور بن مانگے سب کو عطاکررہی ہے اور وہ اس بات کی بھی پرواہ نہیں کرتی کہ جس کو عطا کیا جارہا ہے وہ اس کا ماننے والا ہے یا انکار کرنے والا ہے بلکہ ایک چشمہ فیضان ہے جہاں سے ہر ضرورت مند کو اس کی ضرورت کے مطابق عطا ہورہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی حفاظت ونگہبانی میں رکھے اور امت مسلمہ سے عفو و درگزر فرماکر اپنی خصوصی نگہبانی سے نوازے۔ آمین اَلْعَزِیْزُ پروردگارِ عالم کے صفاتی ناموں میں ایک نام ” العزیز “ بھی ہے۔ یہ اسم ’ عزت ‘ سے بنا ہے۔ عزت کے معنی ہیں ” ارجمندی، قوت و شوکت، اور غلبہ “ اور عزیزہ وہ ہے جس میں یہ صفات بدرجہ اتم پاتی جائیں۔ کفار نے اسی لیے ایک دیوی کا نام جس کو وہ عزت کی علامت سمجھتے تھے ” عزیٰ “ رکھ چھوڑا تھا۔ یہ نام بھی عزیز یا اعز کا مؤنث ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس نام سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ عزت، قوت و شوکت اور غلبہ اسی کے گھر کی لونڈی ہے۔ یہ حقیقت میں مکمل طور پر اسی کا حصہ ہے۔ جہاں جہاں قوت و شوکت اور غلبہ دکھائی دیتا ہے وہ عارضی اور فانی ہے اور یہ اسی کے غلبہ کا پرتو ہے اور یا پھر قوت و شوکت اور عزت اس کا مقدر ہے جس کا پروردگار سے قریبی تعلق ہے اور اللہ سے سب سے زیادہ قریبی تعلق اس کے انبیاء کا ہے۔ اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ مقرب ہیں اور یا پھر مومنین صالحین کو ہے۔ جو اپنے ایمان، عمل صالح اور بندگیِ کامل کے ذریعے اللہ کا تقرب حاصل کرلیتے ہیں۔ اس لیے قرآن کریم میں ارشاد ہے۔ وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ ۔ ( المنافقون : 8) اور حقیقی عزت اللہ تعالیٰ کے لیے ہے کیونکہ وہ تمام عزتوں کا مالک ہے یا پھر اس کے رسول ﷺ کے لیے ہے کیونکہ وہ اس دنیا میں اس کا نمائندہ ہے اور یا پھر مومنین کے لیے ہے کہ وہ اس کی قوت و شوکت اور غلبہ وسربلندی کے اس دنیا میں گواہ ہیں۔ اس کے علاوہ اگر کوئی آدمی یا گروہ کہیں سے عزت، قوت و شوکت اور غلبہ تلاش کرتا ہے چاہے وہ دنیا کا مال و دولت ہو یا افرادی قوت یا غلبہ واقتدار قرآن کریم اسے فریبِ نفس سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ اس لیے ارشاد فرمایا : اَیَبْتَغُوْنَ عِنْدَہُمُ الْعِزَّۃَ فَاِنَّ الْعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا۔ (النساء : 139) (کیا اہل دنیا لوگوں کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ عزت اور اس کی تمام اقسام اللہ ہی کے قبضے میں ہیں) سورة منافقون میں عبداللہ بن ابی کا مشہور واقعہ ذکر ہوا ہے جس میں اس نے اپنے آپ کو عزت والا اور رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کی طرف نعوذ باللہ ذلت کا انتساب کیا تھا تو آسمان سے اس کی تردید نازل ہوئی اور خود مسلمانوں میں یہ ردعمل ہوا کہ عبداللہ بن ابی کے بیٹے نے جو ایک مخلص مومن تھے اور اپنے باپ کے فرمانبردار بھی تھے انھوں نے مدینہ سے باہر اپنی تمام تر فرمانبرداری کے باوجود باپ کا راستہ روک کر یہ کہا کہ جب تک تم رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو عزت والا اور اپنے آپ کو ذلیل نہیں کہو گے اس وقت تک میں تمہیں مدینہ میں داخل نہیں ہونے دوں گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں عزت کی ایک ہی ضمانت اور ایک ہی پہچان ہے، وہ یہ کہ جتنا کوئی اس العزیز سے قریب ہوگا اتنا ہی وہ معزز ہوگا چاہے اس کے گھر میں چولہا نہ جلتا ہو اور چاہے دنیا میں کوئی اسے پوچھنے والا نہ ہو جتنا کوئی اس العزیز سے دور ہوگا وہ اتناہی ذلیل ہوگا۔ چاہے وہ دنیوی عزت ووجاہت کا کتنا ہی سروسامان کیوں نہ رکھتاہو۔ قرآن کریم میں غو ر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسم العزیز کو بعض دوسرے اسماء کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے۔ مثلاً چوبیس مقامات پر عزیز حکیم فرمایا ہے اور پانچ مقامات پر عزیز الرحیم اور دو مقامات پر عزیز الغفور اور تین مقامات پر عزیز الغفار اور ایک جگہ پر عزیز المقتدر اور دو مقامات پر قوی عزیز کہا گیا ہے اور چار دفعہ عزیز الحلیم اور دو دفعہ عزیز الحمید فرمایا۔ ان تمام آیات میں غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ اس نے اپنے اسم مبارک کا استعمال حکمت، رحم غفران، علم، حمد، حلم کے ساتھ فرمایا ہے۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو اپنی مخلوق پر غلبہ تام اور قتدار کامل رکھتا ہے اور جو بےپناہ قوت اور جبروت کا مالک ہے وہ اس کا استعمال جب کبھی کرتا ہے تو کبھی حکمت کے ساتھ کرتا ہے اور کبھی رحم کے ساتھ کرتا ہے۔ کبھی غفران یعنی عفو و درگزر کے ساتھ کرتا ہے اور کبھی علم کے ساتھ کرتا ہے اور کبھی حمد کے ساتھ کرتا ہے اور کبھی حلم اور بردباری سے کرتا ہے جس سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ اے دنیا والو ! جب کبھی تمہیں یہ فانی اقتدار ملے تو دیکھنا اس کا چلن حکمت سے ہونا چاہیے اور لوگوں کے ساتھ تمہارا طرز عمل رحمت اور عفو و درگزر کا ہونا چاہیے اور تمہیں ہمیشہ اپنے اقتدار کی حدود اور اپنے ماتحتوں کے احساسات کا علم رہنا چاہیے اور اپنے ان اختیارات پر اترانے کی بجائے تمہاری زبانوں پر اللہ کی حمد کا ترانہ ہونا چاہیے اور لوگوں کے ساتھ تمہارا سلوک حلم اور بردباری کا ہونا چاہیے کیونکہ یہ وہ صفتیں ہیں جو تمہیں اقتدار کے نشے میں مبتلا ہونے سے روکیں گی اور اور تمہیں ہمیشہ یہ بات بتاتی رہیں گی کہ حقیتی اقتدار تو اس ات بابرکات کو حاصل ہے جو العزیز ہے اس لیے تمہیں اقتدار کا وہم نہیں ہونا چاہیے۔ اے صاحب نظراں نشہ قوت ہے خطرناک آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنی عزت اور قوت و شوکت کے صدقے مسلمانوں کو حقیقی قوت و شوکت عطا فرمائے۔ اَلْجَبَّارُ پروردگارِ عالم کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام الجبار بھی ہے۔ اس کا مادہ ’ جبر ‘ ہے۔ جبر مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کا ایک معنی ہے کسی چیز کو طاقت سے درست کرنا، کسی چیز کی بزور اصلاح کرنا تو اللہ تعالیٰ کو جبار اس معنی میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنی کائنات کا نظام بزور درست رکھنے والا اور اپنے ارادے کو جو سراسر حکمت پر مبنی ہوتا ہے جبراً نافذ کرنے والا ہے۔ کائنات کے نظام میں کوئی ہزار کوشش کرے کوئی جھول پیدا نہیں کرسکتا۔ سورج چاند کی رفتار میں ستاروں اور سیاروں کی گردش میں موسموں کے تغیر ات میں، اشیاء کے مؤثرات میں، چیزوں کے خواص میں، کس کی مجال ہے کہ وہ تبدیلی پیدا کرسکے۔ پروردگار عالم نے اپنے پر حکمت ارادے سے جو نظم و ترتیب قائم کردی ہے اور جو فعلی اور انفعالی خواص مقرر کردیئے ہیں۔ کائنات کا ہر ذرہ اسے ادا کرنے کا پابند ہے۔ جبر کا دوسرا معنی صرف اصلاح کرنا ہے۔ چناچہ پروردگارِ عالم مکلف مخلوق کی معنوی اور ملی زندگی میں اپنے احکام اور تعلیمات سے اصلاح فرماتا ہے لیکن طاقت اور جبر کے ساتھ نہیں بلکہ تفہیم و تلقین کے ذریعے اور اختیار کی آزادی کے ساتھ اور اسی اختیار کی وجہ سے کل کو جزا اور سزا دے گا۔ البتہ ! جب کوئی انسان یا انسانوں کا گروہ فساد فی الارض کا ارتکاب کرکے نظم ِکائنات کو درہم برہم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر وہ قوت سے بھی اصلاح فرماتا ہے۔ لیکن عام زندگی میں وہ اپنا زور اور قوت استعمال نہیں فرماتا۔ جبر کا تیسرا معنی ہے ٹوٹی ہوئی ہڈی جوڑنا۔ اس لیے جبیرۃ اس پٹی کو کہا جاتا ہے جو ٹوٹی ہوئی ہڈی جوڑنے کے بعد اس پر باندھی جاتی ہے۔ تو اس لحاظ سے اس لفظ کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ ہر ٹوٹی ہوئی شکستہ اور ناکارہ چیز کی اصلاح کرکے درست کردینے والا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو دنیا میں کون ساشکستہ دل ہے جسے اللہ کے سوا اور کوئی جوڑ سکتا ہے۔ وہ کون سا ٹوٹا ہوا رشتہ ہے جو اللہ کے نام کے بغیر جڑسکتا ہے۔ افراد ہوں یا قومیں اسی کے نام سے اسی کے احکام پر عمل کرکے تالیفِ قلوب کے لیے وہ سامان فراہم کرسکتی ہیں جن سے اجڑا ہوا انسانی معاشرہ پھر سے سنور سکتا ہے۔ جبار کا چوتھا معنی یہ ہے کہ جبار کھجور کے اس درخت کو کہتے ہیں جو اتنا بلند وبالا ہو کہ اس کا پھل توڑنا کسی کے لیے آسان نہ ہو۔ اسی طرح کوئی کام جو بڑا عظیم الشان ہو عمل جبار کہلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے جبارہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ صاحب جبروت و عظمت ہے۔ اس کے سامنے کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں۔ وہ اپنی مخلوقات سے رحمت کا سلوک فرماتا ہے۔ اگر وہ جبروت کا سلوک فرماتا تو کوئی مخلوق زندہ نہ رہ سکتی۔ چناچہ نبی کریم ﷺ یہ دعا پڑھا کرتے تھے : سبحان ذی الملک والملکوت والجبروت والکبریاء والعظمۃ ان تمام معنی پر غور کرنے سے ایک طرف پروردگارِ عالم کی جبروت و عظمت کا احساس ہوتا ہے تو دل خوف سے کانپنے لگتا ہے اور دوسری طرف جب اس کی تعلیمات کے پردے میں اس کی عطا و بخشش کی رحمت جھلکتی دکھائی دیتی ہے تو دل امید سے بھرجاتا ہے۔ یہی امید اور خوف ایمان کے دو پر ہیں جس سے ایمان پرواز کرتا ہے اور ہلِ ایمان ہمیشہ اسی قوت سے روحانی مدارج طے کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی عظمت وجبروت کی پناہ میں رکھے اور مسلمانوں کے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑدے۔ آمین اَلْمُتَـکَبِّرُ کبر سے بنا ہے۔ کبر کے معنی ہیں رفعت، شان، بزرگی۔ یہ ان الفاظ میں سے ہے جو اپنی اضافت کے اعتبار سے متضاد معنی رکھتے ہیں یعنی اگر اس لفظ کی نسبت انسانوں کی طرف ہے تو اس کے معنی میں ایک برائی ہے اور اگر اس کی نسبت پروردگارِ عالم کی طرف کی جائے تو اس کے معنی میں ایک خوبی اور اچھائی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس وجہ سے جب اس لفظ کی نسبت بندوں کی طرف ہوتی ہے تو اس لفظ کا معنی غرورتصور کیا جاتا ہے۔ جو ظاہر ہے کہ ایک برائی کی طرف مشیر ہے اور اس برائی کے حوالے سے قرآن کریم نے باربار اس برائی کا ارتکاب کرنے والے کی مذمت کی اور آنحضرت ﷺ نے تویہاں تک فرمایا کہ جس آدمی کے دل میں رائی برابر بھی غرور وتکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ انسانوں میں کبر بہت ساری برائیوں کا سبب بن جاتا ہے۔ یعنی یہ صرف اخلاقی مرض ہی نہیں بلکہ ام الامراض ہے۔ جس کے نتیجے میں آدمی سچائی اور حق کی ہر بات قبول کرنے سے عموماً محروم ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف بندوں کی تحقیر اس کا ایک معمول بن جاتا ہے۔ نتیجۃً ایسا شخص شرفِ انسانیت کے لیے مضر ثابت ہوتا ہے۔ مزید یہ بات بھی ہے کہ یہ سراسر ایک جھوٹا ادعا ہے جو انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے کیونکہ انسان اپنی خلقت، اپنی جسمانی کمزوریوں اور فکری کوتاہیوں کے اعتبار سے عجز اور کمزوری کا پیکر ہے۔ اس لیے جب وہ کبر کا دعویدار بن کر متکبر ہوجاتا ہے تو گویا وہ ایک جھوٹا ادعا کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جس کردار میں جھوٹ شامل ہوجائے گا اس کی قباحت میں کسی کو کلام نہیں ہوسکتا۔ لیکن دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ جب اس لفظ کا انتساب پروردگار کی طرف ہوتا ہے تو پھر یہی لفظ جو انسان کے لیے باعث عا رہے پروردگار کے لیے باعث جلالت وشرف بن جاتا ہے کیونکہ اس کی طرف اس لفظ کا انتساب ایک حقیقت ہے۔ کبر اپنے سارے اچھے مفاہیم میں اللہ کو ہی زیب دیتا ہے۔ ہر بڑائی اس کی طرف منسوب ہو کر حقیقت میں بڑائی بنتی ہے اور اگر کہیں بڑائی کا فی الواقع انطباق ہوسکتا ہے تو وہ صرف اللہ کریم کی ذات ہے جسے تمام مخلوقات پر حکمرانی اور برتری حاصل ہے۔ وہ تمام کمزوریوں سے پاک ہے۔ ہر طرح کی احتیاج سے مبریٰ ہے اس لیے اس نے اپنے لیے المتکبر کا لفظ استعمال کیا۔ تو اس لحاظ سے المتکبر کا معنی یہ ہوگا کہ وہ ذات جو حقیقت میں بڑی ہے اور بڑی ہو کر رہنا چاہتی ہے کیونکہ اس کا بڑا ہونا اور بڑاہی ہو کر رہنا کوئی ادعا یاتصنع نہیں بلکہ ایک امر واقعی ہے کیونکہ اس کی بڑائی میں تو مشرکین کو بھی کبھی شبہ نہیں ہوا۔ اب ظاہر ہے کہ جوصاحبِ کبریاء ہے اور صاحب عظمت و جلال ہے اس کو یہ بات ہر درجہ میں زیب دیتی ہے کہ وہ بڑا ہوکر رہے اور اگر وہ بڑا ہو کر نہیں رہتا تو یہ تو ایک نقص ہے اور پروردگار کی ذات ہر نقص سے پاک ہے اور دوسری تعبیر اس کی یہ بھی ہوسکتی ہے کہ متکبر وہ ذات ہے جو عظیم ہے، برتر ہے اور اسے اپنی برتری کا احساس بھی ہے اور کی بڑائی اور احساس ہی کا یہ اثر ہے کہ وہ اپنی خدائی اور بادشاہی میں کسی کی شرکت گوارا نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ کے اس شعور کی تعبیر دوسرے آسمانی صحیفوں میں یوں کی گئی ہے کہ : ” تمہارا خداوند خدا غیور ہے جس طرح تم یہ گوارا نہیں کرتے کہ تمہاری بیوی کسی غیر کی بغل میں سوئے اسی طرح وہ بھی گوارا نہیں کرتا کہ اس کا بندہ کسی غیر کی بندگی کرے۔ “ قرآن نے جو مضمون لفظ ” متکبر “ سے ادا کیا ہے دوسرے آسمانی صحیفوں میں وہی مضمون غیور سے ادا کیا گیا ہے۔ یہ بات کہ وہ بڑا ہو کر رہنا چاہتا ہے اور اسے اپنی بڑائی کا احساس ہے یہی فی الحقیقت المتکبر کا مفہوم ہے۔ اس کی تائید قرآن کریم کی مختلف آیات سے بھی ہوتی ہے۔ مثلاً آنحضرت ﷺ پر سب سے پہلی جو ایک تفصیلی وحی نازل ہوئی وہ سورة المدثر کی پہلی آیات یا پوری سورة ہے۔ اس میں آنحضرت ﷺ کو حکم دیا گیا ہے (وربک فکبر) کہ جس ذات کے تم نمائندے ہو وہ ذات متکبر ہے اس لیے تمہارا کام یہ ہے کہ تم اسی کی بڑائی اور عظمت بیان کرو۔ اس کی کبریائی کے گن گائو اور لوگوں کے سامنے اسے بڑا ثابت کروکیون کہ لوگوں کی بڑائیوں کا اصل سبب یہ ہے کہ اللہ کی عظمت، اس کے سامنے جوابدہی کا تصور، اس کی حکمرانی کا احساس اور اس کا خوف اور خشیت، ان کی زندگی سے خارج ہوگئے ہیں اس وجہ سے انسان اپنی خواہشات کا اسیر ہوکررہ گیا ہے۔ اسی طرح سورة بنی اسرائیل کے آخر میں فرمایا : وَکَبِّرْہُ تَکْبِیْرًا (اس کی خوب بڑائی بیان کرو) مزید برآں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پروردگار نے اپنے بندوں پر جتنی عبادات فرض فرمائیں ان تمام کا مقصد بھی یہ متعین فرمایا۔ مثلاً نماز فرض فرمائی تو فرمایا کہ نماز قائم کرو۔ نماز تمہیں ہر طرح کی بےحیائی اور برائیوں سے روکے گی۔ یہ اس لیے کہ نماز اصل میں اللہ کی یاددہانی ہے۔ وَلَذِکْرُاللّٰہِ اَکْبَر (اور اللہ کی یاد سب سے بڑی بات ہے) گویا نماز اللہ کی یاد کے لیے پڑھو تم جب پانچ وقت طلوع فجر سے لے کر ڈھلتی رات تک برابر اس کو یاد کروگے اور اس کی عظمت کے گیت گائو گے تو آخر اس کی عظمت تمہارے قلب وضمیر کا ایک حصہ بن جائے گی۔ پھر تم معصیت نہیں کرسکو گے یعنی نماز کا مقصد بھی اللہ کی بڑائی ہی کو بیان کرنا ہے۔ اسی طرح فرضیت ِ صوم کی مختلف حکمتیں بیان فرمائی گئیں۔ ان حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بیان ہوئی۔ لِتُـکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدَاکُمْ ۔ ( البقرۃ : 185) (تاکہ تم اس کی ہدایت کے مطابق اس کی بڑائی بیان کرو) ۔ یعنی روزہ بھی اس لیے فرض ہوا ہے کہ اس کے ذریعے اللہ کی کبریائی اور عظمت کا اعلان کرنا ہے۔ اپنے اوپر اور تمام انسانوں پر اس کی کبریائی کا سکہ جمانا ہے پھر روزوں کے بعد جب عید پڑھنے کے لیے نکلتے ہیں توعید میں ہمیں باربار تکبیر پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے اور تکبیر کیا ہے ؟ اللہ کی کبریائی کا اعلان کہ مسلمان گھر سے نکلیں تو ایک راستے سے تکبیر پڑھتے ہوئے گزریں۔ واپس لوٹیں تو دوسرے راستوں سے تکبیر پڑھتے ہوئے آئیں تاکہ کوئی گلی کوچہ اللہ کی بڑائی کے اعلان سے خالی نہ رہ جائے۔ اسی طرح حج میں جب مسلمان قربانی کرتے ہیں تو وہاں بھی فرمایا گیا کہ ان قربانیوں کا گوشت اور خون اللہ کو نہیں پہنچتا بلکہ تمہارا تقویٰ ہے جو اللہ تک پہنچتا ہے اور یہ ہم نے تمہیں اس کا حکم اس لیے دیا ہے کہ لِتُـکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَاھَدَاکُمْ ۔ ( البقرۃ : 185) تاکہ تم اب تک مسلسل مناسکِ حج کی ادائیگی اور تلبیہ کی زمزمہ سنجی سے اس کی بڑائی کا جو اعلان کرتے رہے ہو اب جانوروں کے گلے پر چھری چلا کر اس کی بڑائی اور عظمت کو اپنے عمل سے ثابت کرو۔ مختصر یہ کہ وہی ذات ہے جو درحقیقت المتکبر ہے کیونکہ اسی کو ہر طرح کی بڑائی زیب دیتی ہے بلکہ وہی عظمتوں کا مخزن اور سرچشمہ ہے اور ہر عظمت اسی کی طرف منسوب ہو کر عظمت بنتی ہے۔ اب اگر وہ اپنے بڑا ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا تو یقینا عظمتوں کا سفر ناتمام رہتا ہے۔
Top