Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Hashr : 24
هُوَ اللّٰهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى١ؕ یُسَبِّحُ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۠ ۧ
هُوَ اللّٰهُ
: وہ اللہ
الْخَالِقُ
: خالق
الْبَارِئُ
: ایجاد کرنیوالا
الْمُصَوِّرُ
: صورتیں بنانیوالا
لَهُ
: اس کے لئے
الْاَسْمَآءُ
: نام (جمع)
الْحُسْنٰى ۭ
: اچھے
يُسَبِّحُ
: پاکیزگی بیان کرتا ہے
لَهٗ
: اس کی
مَا
: جو
فِي السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں میں
وَالْاَرْضِ ۚ
: اور زمین
وَهُوَ
: اور وہ
الْعَزِيْزُ
: غالب
الْحَكِيْمُ
: حکمت والا
وہی اللہ ہے جو تخلیق کا منصوبہ بنانے والا، وجود میں لانے والا، صورت گری کرنے والا، اسی کے لیے ساری اچھی صفتیں ہیں، اس کی تسبیح کررہی ہیں جو چیزیں آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہ غالب اور حکیم ہے
ھُوَاللّٰہُ الْخَالِقُ الْبَارِیُٔ الْمُصَوِّرُ لَـہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی ط یُسَبِّحُ لَـہٗ مُا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج وَھُوَالْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ ۔ (الحشر : 24) (وہی اللہ ہے جو تخلیق کا منصوبہ بنانے والا، وجود میں لانے والا، صورت گری کرنے والا، اسی کے لیے ساری اچھی صفتیں ہیں، اس کی تسبیح کررہی ہیں جو چیزیں آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہ غالب اور حکیم ہے۔ ) اَلْخَالِقُ ، اَلْبَارِیُٔ ، اَلْمَصَوِّرُ کسی چیز کو وجود پذیر ہونے کے لیے تین مراحل درکار ہوتے ہیں۔ 1 اس کو وجود میں لانے کے لیے منصوبہ بندی اور اس کے مقصد وجود کا تعین اور اس کا ڈیزائن۔ 2 پھر اس کو جود میں لانے کا عمل۔ 3 اس عمل کی تکمیل اور نوک پلک کی تہذیب۔ پروردگار کے فعلِ تخلیق میں بھی تین مراحل ہیں اور مندرجہ بالا تین اسمائے مبارکہ میں انہی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ خالق ہے یعنی کسی چیز کو وجود میں لانے سے پہلے وہ اس کے لیے منصوبہ بندی کرتا ہے۔ اس کے مقصد کا تعین کرتا ہے۔ اس کا ڈیزائن تیار کرتا ہے۔ اس عمل کو عمل تخلیق کہتے ہیں کیونکہ خلق کا معنی ہے ” منصوبہ سازی کرنا، ڈیزائن بنانا اور مقصد وجود کا تعین کرنا “ اس کے بعد دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے، وہ ہے اس چیز کو منصوبہ سازی کے مطابق عمل میں لانا۔ اس کو برء کہتے ہیں اور اسی سے اسم فاعل الباری ہے۔ برء کا اصل معنی ہوتا ہے جدا کرنا، چاک کرنا، پھاڑ کر الگ کرنا۔ پروردگار خالق ہونے کے ساتھ باری بھی ہے اور وہ اپنے طے کردہ نقشے کے مطابق کتم عدم سے چیز کو وجود میں لاتا ہے۔ یعنی اپنے نقشے کو اپنی قدرت سے نافذ کرتا ہے۔ جس طرح ایک انجینئر اپنے نقشے کے مطابق بنیادیں کھدواتا ہے، دیواریں اٹھاتا ہے اور تعمیر کے سارے عملی مرحلے طے کرتا ہے۔ جب یہ عمارت بن کر تیار ہوجاتی ہے تو پھر تیسرا مرحلہ صورت کشی کا ہے۔ یعنی اس عمارت کی نوک پلک سنوارنا، اس کی زیبائش کرنا اور اس کو آخری مرحلے سے گزار کر مکمل کرنا، اس عمل کو تصویر کہتے ہیں۔ ان معنوں میں پروردگار المصور ہے۔ دنیا میں جو لوگ اس تخلیقی عمل کو مکمل کرتے ہیں وہ تنہا نہیں ہوتے بلکہ ان کے ساتھ معاونین کی ایک فوج ہوتی ہے۔ نقشے بنانے والے لوگ الگ ہوتے ہیں، اس کا مقصد متعین کرنے والے الگ، پھر نقشہ بن جانے کے بعد، منصوبہ مکمل ہوجانے کے بعد، جب عمارت بننے کا کام شروع ہوتا ہے تو اس میں کہیں معمار اپنا کام کرتے ہیں، مزدور اپنی محنت کرتے ہیں، پتھروں کو آئینہ کی شکل دینے کے لیے نہ جانے کتنے لوگ اپنا خون پسینہ ایک کرتے ہیں۔ لیکن پروردگار اپنے تخلیقی عمل میں ان تینوں مراحل میں کسی کا محتاج نہیں۔ ہر کام اس کی قدرت کاملہ سے ہوتا ہے اور پھر یہ کہ اس کے تخلیقی عمل سے انسان کے تخلیقی عمل کو کسی طرح بھی مشابہت نہیں۔ انسان جس خام مواد سے عمارت کھڑی کرتا ہے اس خام مواد کو وہ خود پیدا نہیں کرتا بلکہ پہلے سے موجود چیزوں کو جوڑ کر ایک نئی چیز بنا دیتا ہے۔ یعنی وہ مادے کا خالق نہیں لیکن اس کے برخلاف پروردگار اشیاء کو از خود عدم سے وجود میں لاتا ہے۔ مادے کا بھی وہی خالق ہے۔ اس طرح انسان جب اپنی عمارت کی صورت گری کرتا ہے تو وہ اس کا موجد نہیں ہوتا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورتوں کا نقال ہوتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اپنی ہر مخلوق کی صورت گری خود کرتا ہے۔ وہ خود اس کاموجد ہے۔ لیکن تخلیق کا لفظ چونکہ انسان کے لیے خود قرآن کریم نے بھی استعمال کیا ہے۔ جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قول کو قرآن کریم نے نقل کیا ہے۔ اَنِّیْٓ اَخْلُقُ لَـکُمْ مِّنَ الطِّیْنِ کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ ۔ (آلِ عمران : 49) (میں تمہارے لیے مٹی سے ایک پرندے کی مورت بناتا ہوں) تو یہاں پرندے کی مورت بنانے کے لیے خلق کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس لحاظ سے پروردگار صرف خالق ہی نہیں بلکہ وہ خلا ّق اور احسن الخالقین بھی ہے۔ یہاں ایک اور حقیقت کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ہماری مذکورہ تفصیل سے یہ وہم ہوسکتا ہے کہ جس طرح دنیا میں عمارتیں بنانے والے مرحلہ وار یہ تینوں کام کرتے ہیں۔ پروردگار کا یہ تخلیقی عمل بھی شاید ان تینوں مراحل کا پابند اور محتاج ہے۔ اس لیے یہاں یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیے کہ کسی بھی تخلیقی عمل میں ہمیں جو مراحل دکھائی دیتے ہیں مثلاً زمین یکلخت وجود میں نہیں آئی بلکہ موجودہ شکل میں اسے پہنچنے تک نہ جانے کتنے طویل پر اسس سے گزرنا پڑا ہے اور کن کن مراحل سے گزر کر اس کا سفر مکمل ہوا ہے۔ یہی حال باقی تمام کائنات کا ہے لیکن یہ تمام مراحل ہمارے لیے ہیں۔ جہاں تک پروردگار کے فعل تخلیق کا تعلق ہے اس میں تقدم وتاخر نہیں ہوتا ہر چیز کو وجود میں آنے کے لیے اس کا ایک حکم کافی ہے۔ البتہ ! اس کی حکمت کا تقاضا اگر یہ ہے کہ اس حکم کی تعمیل ان مراحل سے گزرے تو وہ مخلوق کی ایک حالت ہے۔ خالق اپنا حکم دینے اور اسے نافذ کرنے میں ان مراحل کا محتاج نہیں لیکن چونکہ ہماری نگاہوں میں یہ تینوں مراحل ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ اس لیے اس سے اشتباہ ہوسکتا ہے کہ پروردگار کا فعلِ تخلیق شاید منصوبہ بندی تک ہے۔ باقی مراحل کسی اور نے انجام دیئے ہیں یا ازخود عمل میں آئے ہیں (جس طرح بعض فلسفیوں کا خیال ہے) اس لیے پروردگار نے اپنے ان تین ناموں میں جس کا سورة الحشر میں مسلسل ذکر فرمایا گیا یہ واضح کیا ہے کہ جس طرح وہ پروردگار الخالق ہے یعنی منصوبہ ساز ہے اس طرح وہ الباری بھی ہے۔ یعنی کتم عدم سے وجود میں لانے والابھی وہی ہے اور پھر وہ المصور بھی ہے کہ ہر مخلوق کی نوک پلک کو وہی سنوارتا ہے۔ تکمیلی مراحل سے بھی وہی گزارتا ہے اور حسن اور خوبی بھی وہی عطا کرتا ہے۔ ہم غور وفکر کا قدم اگر اور آگے بڑھائیں تو یہ تینوں باتیں سمجھنا کوئی مشکل نہیں کیونکہ جہاں تک اس کی منصوبہ سازی اور پھر مقصد وجود کے تعین کا تعلق ہے تو اس نے خود مختلف جگہ اس کا ذکر فرمایا۔ مثلاً مخلوقات میں شاید سب سے اہم مخلوق زندگی اور موت ہے۔ اس کا ذکر فرماتے ہوئے فرمایا : اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّـکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۔ (الملک : 2) (پروردگار وہ ذات ہے جس نے زندگی اور موت کو پیدا فرمایا تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے حسن عمل کس کے پاس ہے) اس طرح وہ سورة الاعراف میں فرماتا ہے کہ : ” جو لوگ زمین و آسمان کے خلق میں غور وفکر کرتے ہیں وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے رب ! تو نے جو کچھ پیدا فرمایا، بےمقصد پیدا نہیں فرمایا “ تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پروردگار کے ہر تخلیقی عمل کے پیچھے ایک منصوبہ کام کررہا ہے۔ ایک حکمت کام کررہی ہے، ایک مقصد وجود کارفرما ہے۔ اہل ایمان تو اس پر یقین رکھتے ہی ہیں اور ان کا ایمان انھیں بہت کچھ دکھاتا بھی ہے۔ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ جو لوگ ایمان سے محروم ہیں لیکن کائنات کے نظم میں غور کرنے کا انھیں بھی موقع ملا ہے، وہ بھی اس حقیقت سے دور نہیں رہے۔ انگلستان کے ایک ماہرطبیعات جارج ارل ڈیوس کہتے ہیں کہ : ” میں مدت سے کائنات کے پیچیدہ نظام کا مطالعہ کررہا ہوں اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ایک ذرے سے لے آفتاب تک ہر جگہ ایک حیرت انگیز نظم ونسق پایا جاتا ہے۔ روشنی کی ہر شعاع، قطرہ شبنم کی ہر لرزش اور ہر فطری وکیمیائی تغیر پابندِآئین ہے۔ یہ عمل ناقابلِ تصور ہے کہ نظم وضبط کی یہ ترتیب کسی ناظم کے بغیر خود بخود وجود میں آگئی “۔ انگلستان کا ایک اور فاضل ڈاکٹر ایبر سولڈ کہتا ہے کہ : اس کائنات میں نظم وترتیب، حکمت وصناعی کے یہ حیرت انگیز مظاہر کسی حادثے یا اتفاق کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ ایک بےمثل خالق اور عظیم مدبر کی تخلیق ہے۔ جب میں نے سائنس کا مطالعہ شروع کیا تو آغاز میں خیال تھا کہ سائنس بہت جلد زندگی اور عقل و شعور کے سرچشموں کے متعلق مکمل علم حاصل کرلے گی۔ لیکن جوں جوں میرے علم میں اضافہ ہوتا گیا تو یہ حقیقت مجھ پر منکشف ہوتی گئی کہ انسان کا علم ان ماورائی حقائق کی ابجد سے بھی نا آشنا ہے۔ بائبل میں آج بھی یہ عبارت موجود ہے کہ : تو کہاں تھا جب میں نے زمین کی بنیاد ڈالی، کس نے اسے ناپا، کس نے سمندروں کے دروازے بند کیے اور کس نے فضا ئوں کو بادل اور آسمان کو رات کا لباس پہنایا، کس نے سمندر کی بپھری ہوئی لہروں کو خشکی پر یلغار کرنے سے روکا، بارش اور شبنم کا باپ کون ہے ؟ بجلیاں کس کے تصرف میں ہیں ؟ اور ستاروں کی رہبری کون کررہا ہے ؟ ان حوالوں سے صاف نظر آتا ہے کہ غور کرنے والی نگاہیں اس تخلیقی عمل کے پیچھے مخفی حکمتیں مقصد وجود اور منصوبہ سازی کو دیکھ سکتی ہیں۔ وہی ذات بابرکات الباری ہے کہ اپنے اس مقصد کے مطابق وہ خود ہی اپنی مخلوق کو عدم سے وجود میں لاتا ہے۔ وہ اگر مادی مخلوق ہے تو مادہ بھی وہ خود پیدا کرتا ہے اور اگر وہ غیر مادی ہے تو اس کے لیے وسائلِ وجود بھی خود فراہم کرتا ہے اور اس کو جاننے کے لیے کسی بڑی عقل کی ضرورت نہیں۔ انسان کا اپنا وجود اور اس کے گردوپیش پھیلی ہوئی پوری کائنات اس کی اسی ” صفت برء “ کا مظہر ہی تو ہے۔ زمین سے لے آسمان تک، گھاس کی پتی سے لے کر چنار کے درخت تک، ایک ذرے سے لے کر سربفلک پہاڑوں تک، کون ہے جو انھیں عدم سے وجود میں لایا اور پھر اس نے جس طرح اپنی مخلوق کو حسن و جمال سے نوازا ہے، اس کی تصویر کشی کی ہے، ان کے خواص مقرر کیے ہیں اور ان میں جنسی، نوعی، فردی اختلافات رکھے ہیں، اس کی تفصیلات میں جائیں تو وہ الگ ایک دنیا ہے کہ اس میں ہر قدم آدمی کو حیرانی کے سوا اور کچھ نہیں دیتا اور آدمی جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے اس مصور کے پیدا کردہ حسن و جمال کو دیکھ دیکھ کر حیرت میں ڈوبتا چلا جاتا ہے۔ انسان ہی کو دیکھ لیں کہ اس کی صورت بنانے والے نے کیسی کیسی صورتیں بنائیں، کھربوں انسان پیدا کیے لیکن کبھی ایک کی صورت دوسرے سے نہیں ملتی اور پھر یہ اختلافات صرف چہرے کے ناک نقشے میں نہیں بلکہ دل و دماغ کی خصوصیات میں، جسم کی طاقت اور توانائی میں، جنسی خصائص میں اور افراد کے اعمال میں ہر جگہ ظاہر و باہر ہیں۔ حیرت تو یہ ہے کہ یہ انگوٹھا جو ایک چھوٹی سی چیز ہے اس پر جو اس نے خط کھینچے کھربوں انسانوں کی تعداد کے باوجود کسی ایک انگوٹھے کے خطوط دوسرے سے نہیں ملتے۔ اسی طرح عالم جمادات کو دیکھ لیں کہ پتھر ایک جنس ہے لیکن اس ایک جنس میں ہزاروں اقسام ہیں، سینکڑوں رنگ ہیں اور پھر ان میں ہزاروں خواص ہیں۔ ایک خزف ریزے سے لے کر ہیرے تک اور پھر ہیروں کی نہ جانے کتنی اقسام ہیں اور پھر پتھروں میں سے نکلنے والی معدنیات اور ان کی انواع و اقسام، یعنی ایک طلسم ہوشربا ہے کہ جو ہوش اڑائے دے رہا ہے۔ عالم نباتات کو دیکھیں اس کا ایک ایک پودا، ایک ایک بیل، ایک ایک درخت ہزاروں اقسام رکھتا ہے اور جہاں تک ان کی تاثیرات کا تعلق ہے اور ان کے فوائد کا تو کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ کائنات کا حسن ہی شاید نباتات کی وجہ سے ہے اور ہماری حیات کا زیادہ تر دارومدار بھی شاید انہی پر ہے۔ مثلاً یہ غلہ اور پھل جو ہم کھاتے ہیں، یہ کپڑے جو ہم پہنتے ہیں، یہ چائے، کافی اور شربت جو ہم پیتے ہیں سب نباتات سے ہی تو حاصل ہوتے ہیں۔ یہ ربڑ، یہ کاغذ، یہ کوئلہ، یہ صابن، سب نباتات ہی کا کرشمہ ہے۔ ہماری یہ الماری میں سجی ہوئی کتابیں وہ جنگل ہیں جنھیں مزدور کاٹ کر کاغذ کے کارخانوں تک لے گئے تھے۔ پھولوں کے ایک ننھے سے پودے سے لے کر چنار کے ایک درخت تک آپ کو نباتات کی کروڑوں اقسام نظر آئیں گی۔ ان میں سے کچھ باغوں کی آرائش ہیں۔ کچھ ہماری غذا ہیں اور کچھ متاع حیات ہیں۔ یہ سب ایک ہی زمین سے اگتی اور ایک ہی پانی سے نشو و نما پاتی ہیں لیکن کمال تصویر دیکھئے کہ سب کی حیثیت، رنگ، قامت، تاثیر، بو اور ذائقہ الگ ہے۔ وَفِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّجَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَّغَیْرُ صِنْوَانٍ یُّسْقٰی بِمَآئٍ وَّاحِدٍقف وَنُفَضِّلُ بَعْضَھَا عَلٰی بَعْضٍ فِی الْاُکُلِ ط اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ۔ (الرعد : 4) (زمین میں پاس پاس بنے قطعات ہیں جن میں کہیں کھیتی، کہیں انگور، کہیں کھجور کے درخت ہیں ان میں سے کچھ ایک جڑ سے نکلتے ہیں کچھ الگ جڑوں سے۔ ان سب کی پرورش ایک ہی پانی سے ہوتی ہے لیکن ذائقے الگ الگ ہیں، ان باتوں میں اربابِ دانش کے لیے کتنے ہی اسباق و شواہد موجود ہیں ) یہی حال آپ عالم حیوانات میں پائیں گے اور اس سے بڑھ کر حیران کن اس کی تصویریں عالم افلاک میں دکھائی دیتی ہیں کہ ستاروں کی چھٹ کی ہوئی چاندنی میں آدمی اوپر نگاہ اٹھا کر دیکھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حسن کی بارش ہورہی ہے اور پھر یہ تو وہ کچھ ہے جسے ہم دیکھ رہے ہیں اور جوہ میں دکھائی نہیں دے رہا جو صرف اس بنانے والے کے علم میں ہے اور جہاں تک کسی سائنسدان کی نگاہ نہیں پہنچی اس میں اس خالق، باری اور مصور کے کمالات کیا ہوں گے ؟ یہ وہی جانتا ہے اور پھر اس کا ایک عالم روحانیت بھی ہے۔ وہ بجائے خود ایک جہان ہے جس کو بیان کرنے سے الفاظ بھی عاجز ہیں۔ مختصر یہ کہ وہ خالق اور باری اور مصور وہ ذات ہے جس سے ہمارے دلوں کو تسکین ملتی ہے۔ ہمارے ایمان کو روشنی اور ہمارے دماغوں کو جلا ملتی ہے۔ اگر اس کے ان پیارے ناموں پر غور کریں گے تو دل و دماغ کا یہ سکون اور ایمان کی یہ روشنی مزید بڑھتی جائے گی۔ اس آیت میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اسی کے لیے بہترین نام ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تو چند بنیادی صفات بیان کی گئی ہیں ورنہ جتنی بھی اچھی صفتوں کا تصور کیا جاسکتا ہے ان کی حقیقی موصوف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ یہاں اسماء صفات کے معنی میں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے جتنے بھی نام ہیں وہ سب اس کی کسی نہ کسی صفت ہی کو تعبیر کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ نے ان اسماء کو ذکر فرمایا ہے اور حدیث میں 99 نام گنائے گئے ہیں جنھیں ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ ( رض) کی روایت سے بالتفصیل نقل کیا ہے۔ لیکن ان سے بھی استقصاء مراد نہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بنیادی صفات ہیں۔ سابق آسمانی کتابوں میں اور بھی اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام ذکر کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد جو کچھ ارشاد فرمایا گیا ہے اس سورة کا آغاز بھی انھیں الفاظ سے ہوا ہے اور ہم وہاں اس کی تشریح کرچکے ہیں اس لیے اعادہ کی ضرورت نہیں۔
Top