Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 134
اِنَّ مَا تُوْعَدُوْنَ لَاٰتٍ١ۙ وَّ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ
اِنَّ : بیشک مَا : جس تُوْعَدُوْنَ : تم سے وعدہ کیا جاتا ہے لَاٰتٍ : ضرور آنیوالی ہے وَّمَآ : اور نہیں اَنْتُمْ : تم بِمُعْجِزِيْنَ : عاجز کرنیوالے
اور جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے ‘ وہ آکے رہے گی اور تم ہمارے قابو سے باہر نہیں جاسکتے
اِنَّ مَا تُوْعَدُوْنَ لَاٰتِ لا وَّ مَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ ۔ (الانعام : 134) (اور جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے ‘ وہ آکے رہے گی اور تم ہمارے قابو سے باہر نہیں جاسکتے ) اللہ نے جس کا وعدہ کیا ہے وہ آ کر رہے گی اور کوئی اللہ کے قابو سے باہر نہیں ہوگا رسول اللہ ﷺ اہل مکہ کے سامنے اپنی دعوت پیش کرتے ہوئے جہاں دعوت کی افادیت ‘ اہمیت اور اس کی ضرورت پر گفتگو فرماتے وہاں دو باتوں کا تذکرہ بھی ہوتا۔ ایک تو یہ بات کہ تمہارے گردوپیش میں ان قوموں کے کھنڈرات موجود ہیں اور تم اپنے تجارتی اسفار میں ان کھنڈرات سے گزرتے بھی ہو جنھوں نے اللہ کے رسولوں کی دعوت کو قبول نہ کیا اور بالآخر عذاب کا شکار ہوگئیں۔ تم نے بھی اگر آج اس دعوت کو قبول نہ کیا اور اپنے رویے کو نہ بدلا تو ایسا ہی عذاب تم پر بھی آسکتا ہے اور دوسری یہ بات کہ تمہیں یہاں ہمیشہ تو زندہ نہیں رہنا ہر مرنے والے کی طرح تمہیں بھی مرنا ہے اور تم یہ غلط سمجھتے ہو کہ موت کے ساتھ تم ہمیشہ کے لیے فنا ہوجاؤ گے تمہیں یقین رکھنا چاہیے کہ ایک دن جسے قیامت کہتے ہیں سب انسانوں کو زندہ کر کے اٹھایا جائے گا باقی انسانوں کے ساتھ تم بھی محشر میں جمع کیے جاؤ گے۔ اللہ کے سامنے حاضری ہوگی وہاں تمہیں اس بات کا جواب دینا پڑے گا کہ تم نے اسلام کو قبول کرنے سے کیوں انکار کیا ؟ کہا یہ دونوں باتیں ہو کے رہیں گی۔ اگر تم نے اپنا رویہ نہ بدلاتو اللہ کا عذاب بھی آسکتا ہے اور قیامت تو بہرصورت اپنے وقت پر آئے گی اور ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی یاد رکھو کہ اگر اس کا عذاب آگیا تو تمہیں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ تم اس عذاب کی گرفت سے بچ نکلو گے یا قیامت کے دن تمہارے شریک تمہیں اللہ کے عذاب سے بچا لیں گے۔ اس کی پکڑ سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ معجزین کا ایک معنی تو یہ ہے کہ تم اس کو پکڑنے سے اور عذاب دینے سے عاجز کرنے والے نہیں ہو اور دوسرا معنی اس کا یہ ہوتا ہے کہ تم ایسے نہیں ہو کہ اللہ تمہیں پکڑے اور تم اس کے قبضے سے نکل جاؤ اور وہ تم پر قابو نہ پا سکے۔ تم جو اب تک اس کی گرفت سے بچے ہوئے ہو تو یہ محض اس کی رحمت کا ظہور ہے کہ اس نے تمہیں ڈھیل دے رکھی ہے لیکن جب وہ گرفت کرنا چاہے گا تو پھر اس کی گرفت سے تم نہیں بچ سکتے۔ مصر کے فراعنہ ‘ عراق کے نماردہ اور اسی طرح اور بڑے بڑے طاقت و جمروت کے پیکروں کی تاریخ تمہارے سامنے ہے وہ جب اللہ کی گرفت میں آئے تو پھر ان کی طاقت و حشمت انھیں نہ بچا سکی وہ تاریخ میں آج عبرت کے طور پر یاد کیے جا رہے ہیں۔ تم ان کے مقابلے میں کسی بھی حیثیت کے مالک نہیں ہو اس لیے جب پروردگار تمہیں پکڑنا چاہے گا تو تم اس کی پکڑ سے کس طرح بچ سکو گے۔ ان آیات پر غور کیجئے تبلیغ و دعوت کے حوالے سے اور افہام و تفہیم کی رو سے کوئی پہلو ایسا باقی نہیں رہ گیا جس کے حوالے سے مشرکینِ مکہ کو سمجھانے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ ترغیب اور ترہیب کا کوئی گوشہ ایسا باقی نہیں رہ گیا جسے چھیڑا نہ گیا ہو استدلال کا کوئی پہلو ایسا نہیں بچا جس سے دماغوں کو ہموار کرنے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ اب اس کے بعد ایک ہی بات باقی رہی جاتی ہے جس کا ذکر اگلی آیت کریمہ میں فرمایا جا رہا ہے۔
Top