Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 151
قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَیْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا١ۚ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ١ؕ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ اِیَّاهُمْ١ۚ وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ١ۚ وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ١ؕ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ
قُلْ : فرمادیں تَعَالَوْا : آؤ اَتْلُ : میں پڑھ کر سناؤں مَا حَرَّمَ : جو حرام کیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب عَلَيْكُمْ : تم پر اَلَّا تُشْرِكُوْا : کہ نہ شریک ٹھہراؤ بِهٖ : اس کے ساتھ شَيْئًا : کچھ۔ کوئی وَّبِالْوَالِدَيْنِ : اور والدین کے ساتھ اِحْسَانًا : نیک سلوک وَلَا تَقْتُلُوْٓا : اور نہ قتل کرو اَوْلَادَكُمْ : اپنی اولاد مِّنْ : سے اِمْلَاقٍ : مفلس نَحْنُ : ہم نَرْزُقُكُمْ : تمہیں رزق دیتے ہیں وَاِيَّاهُمْ : اور ان کو وَلَا تَقْرَبُوا : اور قریب نہ جاؤ تم الْفَوَاحِشَ : بےحیائی (جمع) مَا ظَهَرَ : جو ظاہر ہو مِنْهَا : اس سے (ان میں) وَمَا : اور جو بَطَنَ : چھپی ہو وَلَا تَقْتُلُوا : اور نہ قتل کرو النَّفْسَ : جان الَّتِيْ : جو۔ جس حَرَّمَ : حرمت دی اللّٰهُ : اللہ اِلَّا بالْحَقِّ : مگر حق پر ذٰلِكُمْ : یہ وَصّٰىكُمْ : تمہیں حکم دیا ہے بِهٖ : اس کا لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَعْقِلُوْنَ : عقل سے کام لو (سمجھو)
کہو ! آئو میں سنائوں ‘ جو چیزیں تم پر تمہارے رب نے حرام کی ہیں ‘ وہ یہ ہیں کہ تم کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہرائو اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو اور اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو ‘ ہم تم کو بھی روزی دیتے ہیں اور ان کو بھی اور بےحیائی کے کاموں کے پاس نہ پھٹکو ‘ خواہ ظاہر ہو یا پوشیدہ اور جس جان کو اللہ نے حرام ٹھہرایا ‘ اس کو قتل نہ کرو ‘ مگر حق پر۔ یہ باتیں ہیں جن کی خدا نے تمہیں ہدایت فرمائی ہے ‘ تاکہ تم سمجھو
ارشاد ہوتا ہے : قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ اَلَّا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ج وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ ط نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَ اِیَّاھُمْ ج وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ ج وَلَا تَقْتُلُوْا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللہ ُ اِلَّا بِالْحَقِّ ط ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ ۔ (الانعام : 151) (کہو ! آئو میں سنائوں ‘ جو چیزیں تم پر تمہارے رب نے حرام کی ہیں ‘ وہ یہ ہیں کہ تم کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہرائو اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو اور اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو ‘ ہم تم کو بھی روزی دیتے ہیں اور ان کو بھی اور بےحیائی کے کاموں کے پاس نہ پھٹکو ‘ خواہ ظاہر ہو یا پوشیدہ اور جس جان کو اللہ نے حرام ٹھہرایا ‘ اس کو قتل نہ کرو ‘ مگر حق پر۔ یہ باتیں ہیں جن کی خدا نے تمہیں ہدایت فرمائی ہے ‘ تاکہ تم سمجھو) غلط فہمی کی وضاحت میں اس سے پہلے یہ بات عرض کرچکا ہوں کہ قرآن پاک کا اسلوب یہ ہے کہ جس بات کو اہمیت کے ساتھ بیان کرنا مقصود ہوتا ہے اسے قُلْ کہہ کر آنحضرت ﷺ سے بیان کروایا جاتا ہے حالانکہ پورا قرآن کریم آنحضرت کی زبان ہی سے ادا ہوا ہے لیکن کسی خاص حکم کے لیے ” قُلْ “ کہنا یہ اس کو اہمیت دینے پر دلالت کرتا ہے۔ چناچہ یہاں بھی جن جن چیزوں کو بیان کرنا مقصود ہے اسے لفظ ” قُلْ “ سے شروع کیا جا رہا ہے۔ مزید اس میں اہمیت کی بات یہ ہے کہ قُلْ کے بعد تَعَالَوْا کا استعمال ہوا ہے تَعَالَوْا کا معنی ہے آئوحالان کہ جنھیں حضور یہ آیات پڑھ کے سنا رہے ہیں وہ آپ کے سامنے ہی تو ہیں انھیں کہنا کہ آئو میں تمہیں وہ چیزیں پڑھ کے سنائوں جنھیں اللہ نے حرام کیا ہے یہ عجیب سی بات لگتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف عربی زبان ہی میں نہیں بلکہ ہر زبان میں خطاب اور گفتگو کے جو طریقے مروج رہے ہیں ان میں یہ طریقہ بھی ہر زبان میں آج بھی رائج ہے کہ جب کسی مخاطب کو کسی بات کی طرف اہمیت دلانا مقصود ہوتا ہے اور یا متکلم یہ چاہتا ہے کہ میں اپنی بات کو مخاطب کے ذہن میں اتار دوں تو وہ اسے آئو کہہ کے مخاطب کرتا ہے۔ مقصود یہ ہوتا ہے کہ تم جس حقیقت کو نظر انداز کر رہے ہو یا جس حقیقت سے تم واقف نہیں ہو آئو میں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ حقیقت کیا ہے یا وہ حقیقت کتنی عظیم ہے یہاں بھی شاید یہی مقصود ہے۔ اس آیت کریمہ میں پانچ چیزوں کو بیان کیا گیا ہے جنھیں اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے۔ پیشتر اس کے کہ میں انھیں بیان کروں ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک بات عرض کر دوں جو اگر ذہن میں رہے تو ایک غلط فہمی سے بچا جاسکتا ہے۔ جو اس رکوع کے مطالعہ سے پیدا ہونے کا اندیشہ ہے وہ غلط فہمی یہ ہے کہ یہاں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ آئو میں تمہیں وہ چیزیں پڑھ کر سنائوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کی ہیں لیکن اس کے بعد پورے رکوع میں جن چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے ان سب کو حرف نہی کی بجائے یعنی منفی انداز میں بیان کرنے کی بجائے ان میں سے بعض کو مثبت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً شرک ‘ قتل اولاد ‘ فحشا ‘ قتل نفس اور اکل مال ِیتیم کا ذکر تو منفی پہلو سے ہے اور والدین کے ساتھ احسان ‘ ایفائے کیل و میزان ‘ قول و عمل میں اہتمام عدل اور ایفائے عہد الٰہی کا ذکر مثبت اسلوب سے ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نفی سے اثبات اور اثبات سے نفی کا استنباط ایک بدیہی چیز ہے۔ جب ایک شئے کا اثباتی انداز میں حکم ہے تو اس کے لازمی معنی یہ ہیں کہ جو چیز اس کی ضد ہے اس کی لازماً ممانعت ہے۔ اسی طرح ایک چیز کی ممانعت ہے تو اس سے یہ بات آپ سے آپ نکلتی ہے کہ اس کا مقابل پہلو مطلوب ہے یعنی اگر شرک کی نہی ہے تو توحید مطلوب ہے اسی طرح اگر والدین کے حقوق کی ادائیگی کا حکم ہے تو ان کے ساتھ بدسلوکی اور ان کی نافرمانی حرام ہے ‘ اس اسلوب کی روشنی میں وہ تمام باتیں جو بیان تو ہوئی ہیں اثبات کے الفاظ میں لیکن ہیں وہ ” حَرَّمَ “ ہی کے تحت اس مثبت اسلوب کو اختیار کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں ان باتوں کو بھی نمایاں کرنے کا موقع مل جاتا ہے جو محض نہی کے انداز میں حرام کرنے سے نمایاں نہ ہوتیں۔ مختصر یہ کہ اس طرح سے ان آیات میں دس چیزوں کا ذکر فرمایا گیا ہے جو حرام ٹھہرائی گئی ہیں ‘ وہ یہ ہیں۔ حرام کردہ چیزیں -1 اللہ تعالیٰ کے ساتھ عبادت و اطاعت میں کسی کو شریک ٹھہرانا۔ -2 والدین کے ساتھ اچھا برتائو نہ کرنا۔ -3 فقر و افلاس کے خوف سے اولاد کو قتل کردینا -4 بےحیائی کے کام کرنا۔ -5 کسی کو ناحق قتل کرنا۔ -6 یتیم کا مال ناجائز طور پر کھا جانا۔ -7 ناپ تول میں کمی کرنا۔ -8 شہادت یا فیصلہ میں بےانصافی کرنا۔ -9 اللہ تعالیٰ کے عہد کو پورا نہ کرنا۔ -10 اللہ تعالیٰ کے سیدھے راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے اختیار کرنا۔ اس سے پہلے کہ ہم ان میں سے ایک ایک کی وضاحت کریں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ احادیث میں یا صحابہ کرام سے ان آیات کے جو فضائل منقول ہیں ان میں سے چند ایک کا ذکر کردیں۔ حضرت کعب احبار ( رض) جو ایک یہودی عالم تھے اور حضرت عمر فاروق ( رض) کے زمانے میں مسلمان ہوئے وہ کہا کرتے تھے کہ قرآن مجید کے یہ احکام وہ ہیں جن سے تورات کا آغاز ہوتا ہے اور مزید یہ کہ یہی وہ دس احکام ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پتھر کی تختیوں پر لکھ کردیئے گئے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ( رض) فرمایا کرتے تھے کہ یہی وہ آیات محکمات ہیں جن کا ذکر سورة اٰل عمرآن میں آیا ہے اور جن پر آدم (علیہ السلام) سے لے کر خاتم النبین رسول اللہ ﷺ تک تمام انبیاء (علیہم السلام) کی شریعتیں متفق رہی ہیں ان میں سے کوئی چیز کسی مذہب و ملت اور کسی شریعت میں منسوخ نہیں ہوئی۔ تفسیر ابن کثیر میں حضرت عبد اللہ بن مسعود ( رض) سے نقل کیا گیا ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ جو شخص رسول اللہ ﷺ کا ایسا وصیت نامہ دیکھنا چاہے جس پر آپ کی مہر لگی ہوئی ہو تو وہ ان آیات کو پڑھ لے۔ ان میں وہ وصیت موجود ہے جو رسول اللہ ﷺ نے اللہ کے حکم سے اس امت کو کی۔ حاکم نے بروایت حضرت عبادہ بن صامت ( رض) نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو خطاب کر کے بتایا۔ کون ہے جو مجھ سے تین آیتوں پر بیعت کرے۔ پھر یہی تین آیتیں تلاوت فرما کر ارشاد فرمایا کہ جو شخص اس بیعت کو پورا کرے گا اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہوگیا۔ ان محرمات و ممنوعات کی فہرست میں سب سے پہلی چیز جس کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ شرک کی ممانعت ہے۔ یعنی نہ خدا کی ذات میں کسی کو اس کا شریک ٹھہرائو ‘ نہ اس کی صفات میں ‘ نہ اس کے اختیارات میں اور نہ اس کے حقوق میں۔ شرک کی ممانعت ذات میں شرک یہ ہے کہ جو ہر الوہیت میں کسی کو حصہ دار قرار دیا جائے۔ مثلاً نصارٰی کا عقیدہ تثلیث ‘ مشرکین عرب کا فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دینا اور دوسرے مشرکین کا اپنے دیوتائوں اور دیویوں کو اور اپنے شاہی خاندانوں کو جنس آلہہ کے افراد قرار دینا۔ یہ سب شرک فی الذات ہیں۔ صفات میں شرک یہ ہے کہ خدائی صفات جیسی کہ وہ خدا کے لیے ہیں ‘ ویساہی ان سب کو یا ان میں سے کسی صفت کو کسی دوسرے کے لیے قرار دینا۔ مثلاً کسی کے متعلق یہ سمجھنا کہ اس پر غیب کی ساری حقیقتیں روشن ہیں یا وہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے یا وہ تمام نقائص اور تمام کمزوریوں سے منزہ اور بالکل بےخطا ہے۔ اختیارات میں شرک یہ ہے کہ خدا ہونے کی حیثیت سے جو اختیارات صرف اللہ کے لیے خاص ہیں ان کو یا ان میں سے کسی کو اللہ کے سوا کسی اور کے لیے تسلیم کیا جائے۔ مثلاً فوق الفطری طریقے سے نفع و ضرر پہنچانا ‘ حاجت روائی و دستگیری کرنا ‘ محافظت و نگہبانی کرنا ‘ دعائیں سننا اور قسمتوں کو بنانا اور بگاڑنا۔ نیز حرام و حلال اور جائز و ناجائز کی حدود مقرر کرنا اور انسانی زندگی کے لیے قانون و شرع تجویز کرنا۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے مخصوص اختیارات ہیں جن میں سے کسی کو غیر اللہ کے لیے تسلیم کرنا شرک ہے۔ حقوق میں شرک یہ ہے کہ خدا ہونے کی حیثیت سے بندوں پر خدا کے جو مخصوص حقوق ہیں۔ ان میں سے کوئی حق خدا کے سوا کسی اور کے لیے مانا جائے۔ مثلاً رکوع و سجود ‘ دست بستہ قیام ‘ سلامی و آستانہ بوسی ‘ شکر نعمت یا اعتراف برتری کے لیے نذر و نیاز اور قربانی ‘ قضائے حاجات اور رفع مشکلات کے لیے منت ‘ مصائب و مشکلات میں مدد کے لیے پکارا جانا اور ایسی ہی پرستش و تعظیم و تمجید کی دوسری تمام صورتیں اللہ کے مخصوص حقوق میں سے ہیں۔ اسی طرح کسی کا ایسا محبوب ہونا کہ اس کی محبت پر دوسری سب محبتیں قربان کی جائیں اور ایسا مستحق تقویٰ و خشت ہونا کہ غیب و شہادت میں اس کی ناراضی اور اس کے حکم کی خلاف ورزی سے ڈرا جائے ‘ یہ بھی صرف اللہ کا حق ہے اور یہ بھی اللہ ہی کا حق ہے کہ اس کی غیر مشروط اطاعت کی جائے اور اس کی ہدایت کو صحیح و غلط کا معیار مانا جائے اور کسی ایسی اطاعت کا حلقہ اپنی گردن میں نہ ڈالا جائے جو اللہ کی اطاعت سے آزاد ایک مستقل اطاعت ہو اور جس کے حکم کے لیے اللہ کے حکم کی سند نہ ہو۔ ان حقوق میں سے جو حق بھی دوسرے کو دیا جائے گا وہ اللہ کا شریک ٹھہرے گا خواہ اس کو خدائی ناموں سے کوئی نام دیا جائے یا نہ دیا جائے۔ توحید چونکہ پورے دین کی بنیاد اور تمام احکام کی اساس ہے اس لیے یہاں سب سے پہلے شرک جو توحید کی ضد ہے اس کی ممانعت اور حرمت کو بیان فرمایا گیا ہے اور اس بارے میں قرآن کریم کے احکام اس قدر سخت اور واضح ہیں کہ صاف صاف فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ اگر چاہے گا تو کسی بھی گناہ اور معصیت اور برائی کو بخش دے گا لیکن وہ شرک کو کبھی نہیں بخشے گا۔ اس لیے حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو ساجھی قرار نہ دینا اگرچہ تمہارے ٹکڑے کردیئے جائیں یا تمہیں سولی پر چڑھا دیا جائے یا تمہیں زندہ جلا دیا جائے۔ جو اکابر اولیاء اس امت کے لیے مرجعِ خلائق کی حیثیت رکھتے ہیں ان میں ایک بڑا مشہور نام حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ( رح) کا ہے۔ لوگوں نے اپنی جہالت سے ان کی طرف عجیب و غریب باتوں کا انتساب کر رکھا ہے۔ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ انھوں نے توحید کے اثبات اور شرک کی مذمت میں جتنا کام کیا ہے کم ہی لوگوں نے اتنا کام کیا ہوگا۔ آپ اس بارے میں اس قدر سخت اور محتاط واقع ہوئے تھے کہ وہ باتیں جن پر عمل کرنا نہ ہمارے لیے ممکن ہے اور نہ ضروری ہے آپ ان پر بھی عامل تھے اور اپنے بچوں کو بھی اس کی وصیت فرماتے تھے۔ اپنے بڑے صاحبزادے کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ ” بیٹے اگر تمہیں بکری کی مینگنی کی بھی ضرورت پڑے تو وہ بھی اللہ کے سوا کسی اور سے نہ مانگنا “ حالانکہ اسباب کی دنیا میں ایک دوسرے سے مدد مانگنا اور ایک دوسرے کی مدد کرنا ہمارا روز کا معمول ہے اور اس میں شرعی طور پر کوئی قباحت بھی نہیں لیکن حضرت شیخ جیلانی چونکہ لوگوں کے لیے رہنما اور نمونہ تھے اس لیے آپ کی زندگی عزیمت کی زندگی تھی اور آپ ان باتوں سے بھی بچتے تھے جن باتوں سے بچنا ہمارے لیے ضروری نہیں۔ لیکن ان کی اس بات سے یہ ضرور اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان کے نزدیک جس معمولی بات سے بھی اللہ کے ساتھ شرک کا شبہ بھی ہوسکتا ہو وہ اس سے بھی بچتے اور پرہیز کرتے تھے۔ والدین کی نافرمانی منع ہے دوسری بات جس کو ممنوع قرار دیا گیا ہے وہ ماں باپ کی نافرمانی ہے۔ لیکن یہاں اس کو منفی اسلوب سے بیان نہیں کیا گیا بلکہ مثبت اسلوب اختیار کرتے ہوئے فرمایا : والدین کیساتھ حسن سلوک کرو اور یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ جب والدین کیساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے تو انکے ساتھ بدسلوکی اور نافرمانی خود بخود حرام ہوجائے گی۔ لیکن منفی اسلوب کی بجائے یہ مثبت اسلوب اس لیے اختیار کیا گیا کہ منفی اسلوب میں وہ بات پیدا نہیں ہوسکتی تھی جو مثبت اسلوب سے کہنا مقصود ہے۔ اگر صرف یہ فرمایا جاتا کہ ماں باپ کی نافرمانی نہ کرو تو کوئی شخص یہ کہہ سکتا تھا کہ میں ماں باپ کی نافرمانی تو نہیں کرتا لیکن اسکا یہ مطلب تو نہیں کہ میں ان کے ساتھ حسن سلوک بھی کروں۔ کیونکہ حسن سلوک احکام کی نافرمانی سے بچنے سے ایک زائد تر چیز ہے۔ ایک آدمی اپنے ماں باپ کی لازمی ضرورتیں ماں باپ کے کہنے پر پوری کردیتا ہے۔ لیکن نہ انکے پاس بیٹھتا ہے ‘ نہ ان کے پائوں دباتا ہے ‘ بیمار ہوجاتے ہیں تو تیمار داری نہیں کرتا ‘ اپنے دل میں ان کے لیے کوئی محبت نہیں رکھتا ‘ اپنے بچوں پر انھیں ترجیح نہیں دیتا اور اپنے لیے انھیں عقیدت و محبت کا مرکز نہیں سمجھتاتو وہ یقینا اللہ کے یہاں ماخوذ ہوگا کیونکہ جہاں اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کی نافرمانی کو حرام قرار دیا ہے وہیں انھیں متذکرہ بالا چیزوں کا بھی حکم دیا ہے اور ان کے مقام و مرتبہ کا لحاظ رکھنے کی بھی تاکید کی گئی ہے۔ باپ کی رضامندی کو اللہ کی رضامندی اور باپ کی ناراضگی کو اللہ کی ناراضگی ٹھہرایا گیا ہے اور ماں کے قدموں کے نیچے جنت بتائی گئی ہے اور قرآن کریم میں بالعموم جہاں بھی اپنی عبادت کا حکم دیا گیا وہاں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا بھی حکم دیا اور جہاں یہ بات فرمائی گئی کہ میں نے چونکہ تمہیں پیدا کیا ہے اور تمہاری زندگی کی ساری ضرورتیں پوری کی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ تم میرا شکر ادا کرو ‘ وہیں والدین کا شکر ادا کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے بلکہ سورة بنی اسرائیل میں اس بات کو کھول کر بیان فرما دیا گیا ہے اور اس میں صرف والدین کی نافرمانی ہی کو حرام نہیں قرار دیا گیا بلکہ حسن سلوک کے ان تمام گوشوں کو بےنقاب کردیا گیا ہے جن کا لحاظ رکھنا اولاد کے لیے ضروری ہے۔ اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر یہاں صرف نافرمانی کی ممانعت کی جاتی اور حسن سلوک کا حکم نہ دیا جاتا تو یہ پوری تفصیل کسی طرح سے ہمیں معلوم نہ ہوسکتی تھی چناچہ اللہ تعالیٰ نے سورة بنی اسرائیل میں حسن سلوک کا حکم دینے کے بعد خود اس کی وضاحت بھی فرمائی۔ ارشاد فرمایا : وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْ ٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاط اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُھُمَآ اَوْ کِلَاھُمَا فَلَا تَقُلْ لَّھُمَا اُفٍّ وَّلَا تَنْھَرْ ھُمَا وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا۔ وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحُ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا۔ (اور تیرے رب کا فیصلہ یہ ہے کہ تم نہ عبادت کرو مگر اسی کی اور والدین کے ساتھ احسان کرو ‘ جیسا کہ اس کا حق ہے۔ اگر تمہارے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو نہ ان سے اظہار بیزاری ہو ‘ نہ ان کو جھڑکنا۔ ان سے سعادت مندانہ بات کرنا اور ان کے لیے مہر و وفا کے بازو جھکائے رکھنا اور دعا کرنا کہ اے ہمارے رب ! تو ان پر رحم فرما ‘ جس طرح انھوں نے مجھے بچپن میں مہر کے ساتھ پالا) (بنی اسرائیل : 23-24) یوں تو والدین اولاد کے بالغ ہوجانے کے بعد اولاد کے لیے محبت و احترام اور حسن سلوک کے مستحق ہیں لیکن جب خاص طور پر ان پر بڑھاپا آتا ہے تو اب وہ اپنی کمزوری کے باعث اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے اہل نہیں رہتے۔ اب ضرورت ہوتی ہے کہ اولاد ان کی ضرورتوں کا بوجھ اٹھائے اور مزید یہ بات کہ جیسے جیسے والدین بڑھاپے کے اثرات کا شکار ہوتے جاتے ہیں ویسے ویسے ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں بھی متاثر ہونے لگتی ہیں اب بعض دفعہ وہ ایسی باتیں بھی کہیں گے جو عقل و خرد سے ہٹی ہوئی ہوں گی اور بعض دفعہ اپنی کمزوری کے باعث انھیں وقت بےوقت غصہ بھی آئے گا اور وہ چڑچڑے پن کا اظہار بھی کریں گے اور ایسا بھی ممکن ہے کہ وہ ایک ہی بات کو بار بار دھرائیں جس سے سننے والے کو بعض دفعہ غصہ بھی آنے لگتا ہے۔ اس لیے اس آیت کریمہ میں ان کے بڑھاپے کا ذکر فرمانے کے بعد خاص طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ دیکھنا انھیں اف نہ کہنا۔ یعنی ان کی کسی بات پر بیزاری کا اظہار نہ کرنا اور اگر کوئی بات ان کی ناگوار بھی معلوم ہو تو کبھی ان کو جھڑکنے کی کوشش نہ کرنا بلکہ ان کی سخت سے سخت بات پر بھی نہایت نرم لہجے کے ساتھ سعادت مندی سے ان سے بات کرنا اور مہر و وفا کے بازو ان کے سامنے جھکائے رکھنا۔ ان میں سے ایک ایک بات غور کرنے اور پلے باندھنے کے لائق ہے۔ عام اولاد بالعموم تعلیم یافتہ نوجوان بالخصوص ان پڑھ اور بوڑھے ماں باپ کے پاس بیٹھنے اور انھیں وقت دینے سے احتراز کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کے کھانے پینے کی ضرورتیں پوری کردینے کے بعد وہ شاید اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہوگئے ہیں حالانکہ بڑھاپے میں کھانے پینے کی ضرورت تو کم ہوجاتی ہے البتہ جس چیز کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی ان کی دلجوئی کرنے والا ہو ‘ کوئی پاس بیٹھ کر ان سے باتیں کرے ‘ چونکہ وہ کہیں آجا نہیں سکتے اس لیے گھر ہی میں سمٹ رہنے کی وجہ سے وہ اپنی اولاد سے زیادہ سے زیادہ وقت دینے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اسی لیے شاید رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ جو آدمی محبت سے اپنی والدین کے پاس بیٹھے اور محبت سے ان کے چہرے کو دیکھے تو اللہ تعالیٰ اسے عمرہ کرنے سے بڑھ کر اجر وثواب عطا فرمائیں گے۔ کیونکہ جیسا کہ عرض کیا گیا ہے یہی والدین کی اس وقت سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے کہ ہماری اولاد ہمیں وقت دے اور ہمارے پاس بیٹھے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اولاد کا والدین کے پاس بیٹھنا مشکل بھی ہوتا ہے اور بعض دفعہ ناگوار بھی لیکن اجر وثواب تو انہی ناگواریوں کی برداشت پر ہی ملتا ہے۔ والدین بعض دفعہ بچوں کی طرح ایک ہی بات کو بار بار پوچھتے ہیں اور بچے چڑنے لگتے ہیں لیکن وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جب وہ بچے تھے تو ان کے ماں باپ یہ سب کچھ نہایت محبت سے نہ صرف برداشت کرتے تھے بلکہ اس پر خوش بھی ہوتے تھے۔ ایک صاحب بوڑھے ہوگئے اور ان کا بیٹا پڑھ لکھ کر جوان ہوا اور ایک بڑے منصب پر فائز ہوگیا ایک روز کوٹھی کے لان میں اپنے والد کے پاس بیٹھا تھا کہ سامنے دیوار پر کوا آ کر بیٹھ گیا والد نے پوچھا بیٹے یہ کیا ہے ؟ بیٹے نے کہا ابا جان یہ کوا ہے۔ والد نے پھر پوچھا بیٹے نے پھر وہی جواب دیا۔ جب والد نے بار بار اپنے سوال کا تکرار کیا تو بیٹا تنگ آ کر برہمی کا اظہار کرنے لگا۔ اس پر اس کے والد اٹھے اور اپنے کمرے سے پرانی ڈائری نکال کر لائے اس کا ایک صفحہ نکال کر اپنے بیٹے کو پڑھنے کے لیے دیا اس میں لکھا تھا کہ آج میرا بیٹا ماشاء اللہ اڑھائی سال کا ہوگیا ہے اب وہ توتلی زبان میں باتیں کرتا ہے آج دیوار پر ایک کوا آکر بیٹھا تو اس نے مجھ سے پوچھا کہ ابا جان یہ کیا ہے میں نے بتایا کہ بیٹے یہ کوا ہے۔ بیٹے نے یہی سوال تقریباً ستر دفعہ کیا اور میں ہر دفعہ اس کو جواب دیتا رہا اور ہر جواب پر میری خوشی میں اضافہ ہوتا رہا۔ یہ صفحہ جب بیٹا پڑھ چکا تو باپ نے کہا کہ بیٹے میں تو تیرے ستر دفعہ سوال کرنے پر بھی برہم نہ ہوا اور تم میرے سات دفعہ سوال کرنے پر برہم ہوگئے۔ اس لیے اس آیت کے آخر میں والدین کی تربیت کا حوالہ دیا گیا ہے کہ تم بھی اپنے والدین کیساتھ اسی طرح محبت سے پیش آئو جیسا تمہارے والدین نے محبت سے تمہیں پالا تھا۔ اولاد اور والدین کا یہ رشتہ چونکہ گھر اور خاندان کی بنیاد ہے اور اسلام میں چونکہ خاندان سیاسی نظام کی بنیاد ہے اس لیے اس تعلق پر اور اس کی استواری پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے اور اس حوالے سے لاپرواہی اور بےنیازی اختیار کرنے پر سخت وعید فرمائی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ( رض) سے روایت ہے کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رَغِمَ اَنْفُہٗ رَغِمَ اَنْفُہٗ رَغِمَ اَنْفُہٗ ” ذلیل ہوگیا ‘ ذلیل ہوگیا ‘ ذلیل ہوگیا “ صحابہ کرام ( رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کون ذلیل ہوگیا ؟ فرمایا وہ شخص جس نے اپنے ماں باپ کو یا ان میں سے ایک کو بڑھاپے کے زمانے میں پایا اور پھر وہ جنت میں داخل نہ ہوا۔ مطلب یہ ہے کہ بڑھاپے کے زمانہ میں والدین کی خدمت سے جنت کا ملنا یقینی ہے اور بڑا محروم اور ذلیل ہے وہ شخص جس نے اتنی سستی جنت کو ہاتھ سے کھو دیا۔ سستی اس لیے کہ والدین جو اولاد پر طبعی طور سے خود ہی مہربان ہوتے ہیں وہ ذرا سی خدمت سے بہت خوش ہوجاتے ہیں اور انکا خوش رکھنا کسی بڑی محنت کا طالب نہیں ہوتا تو جب ایک معمولی عمل سے جنت مل سکتی ہے تو خود ہی اندازہ فرمایئے کہ یہ جنت کسقدر سستی ہوئی اور اسکا حاصل نہ کرنا کس قدر محرومی کی بات ہے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک آدمی اپنی بدنصیبی یا لاپرواہی کے باعث والدین کی خدمت سے محروم رہتا ہے۔ اللہ کا بےحد کرم ہے کہ اللہ نے ہمیں اس کی تلافی کا بھی موقع دیا۔ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو آدمی اپنے والدین کا نافرمان رہا لیکن ان کی وفات کے بعد اگر وہ مسلسل اپنے والدین کے لیے مغفرت و درجات کی بلندی کے لیے دعا کرتا رہے اور اپنی محرومی کی معافی بھی مانگتا رہے تو ایک نہ ایک دن اللہ تعالیٰ اسے فرمانبرداروں میں شامل فرما دے گا۔ مفلسی کے خوف سے اولاد کو قتل نہ کرو تیسری چیز جس کو اللہ نے اس آیت میں حرام ٹھہرایا ہے وہ ہے تنگ دستی کے خوف سے اولاد کو قتل کردینا یعنی اس اندیشہ سے اولاد کو قتل کردینا کہ اولاد کیا کھائے گی ‘ کہاں سے اس کی پرورش ہوگی ‘ اہل عرب میں قتل اولاد کی ایک قسم تو وہ تھی جس کا تعلق مشرکانہ توہمات سے تھا ‘ جس کا ذکر اسی سورة میں پیچھے گزرا ہے۔ دوسری صورت بعض قبائل میں لڑکیوں و زندہ درگور کردینے کی تھی جس کا سبب غیرت کا ظالمانہ حد تک غلو تھا۔ تیسری یہ فقر و فاقے کے اندیشے کی صورت تھی۔ بعض غریب لوگ تنگ دستی سے گھبرا کر یہ سنگ دلانہ حرکت کر بیٹھتے۔ اس قسم کی لرزہ خیز خبریں اب بھی کبھی کبھی ان ملکوں سے آجاتی ہیں جن میں غربت زیادہ ہے یا جہاں کسی ناگہانی آفت سے لوگ مصائب میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ اس ظلم کا اصل باعث انسان کی یہ جہالت ہے کہ وہ اپنے آپ کو اپنا اور اپنی اولاد اور متعلقین کا روزی رساں سمجھ بیٹھتا ہے۔ حالانکہ ہر شخص کو وجود اور رزق خدا کی طرف سے ملتا ہے۔ انسان ان چیزوں میں واسطہ اور ذریعہ ہونے سے زیادہ دخل نہیں رکھتا۔ اگر کسی کو خدا نے اولاد بخشی ہے تو اصلاً وہ اس کی تحویل میں خدا کی امانت ہے۔ اس کا فرض یہ ہے کہ عقل و فطرت اور شریعت کی رو سے اس امانت سے متعلق اس پر جو ذمہ داریاں اور جو فرائض عائد ہوتے ہیں وہ اپنے امکان کی حد تک ادا کرے لیکن ایک لمحہ کے لیے بھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو کہ خدا نے اس کو ان کا رزاق بنایا ہے اور جس رزق سے وہ پلتے ہیں وہ یہ ان کو فراہم کرتا ہے۔ ان کا رزق تو درکنار آدمی اپنا رزق بھی خدا ہی سے پاتا ہے۔ بچہ ماں کی چھاتی سے جو دودھ پیتا ہے یہ بھی ماں کا دیاہو انھیں بلکہ اپنے رب کا دیا ہوا پیتا ہے۔ تو جب بچہ اپنے رب کا دیا ہوا دودھ پیتا ہے تو کسی دوسرے کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اس کو اس اندیشہ سے قتل کرے کہ میں اس کی پرورش کہاں سے کروں گا ؟ قرآن نے اسی حقیقت کو یوں سمجھایا ہے کہ نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَ اِیَّاھُمْ ” ہم ہی تم کو بھی روزی دیتے ہیں اور ان کو بھی روزی دیتے ہیں “۔ افراد کی طرح بعض اوقات حکومتیں بھی اپنے دائرہ اختیار اور اپنے فطری و شرعی حدود کار سے متجاوز ہو کر ان حدود میں مداخلت کرنے لگتی ہیں جو قدرت کے حدود ہیں۔ اس تعدی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خلق کے لیے کوئی مفید کام کرنے کی جگہ وہ اپنی صلاحیتیں نظام قدرت سے زور آزمائی میں صرف کرنا شروع کردیتی ہیں۔ ایک فرض شناس حکومت کے لیے یہ بات تو معقول ہے کہ وہ اپنے ملک کے وسائل معاش کو ترقی دینے کے لیے بر و سجر کے ایک ایک چپہ اور ایک ایک گوشے کو چھان ڈالے اور اس راہ کے کسی پتھر کو بھی الٹے بغیر نہ چھوڑے۔ یہ بات بھی اس کے فطری بلکہ شرعی فرائض میں سے ہے کہ وہ ملک کے عوام کو زندگی کے ہر شعبہ میں ‘ خواہ وہ پبلک ہو یا پرائیویٹ ‘ اجتماعی ہو یا خاندانی احتیاط اعتدال کفایت شعاری صحت صفائی اور محنت کی تربیت دے۔ لیکن یہ امر بالکل اس کے دائرہ اختیار اور حدود کار سے باہر ہے کہ وہ یہ منصوبہ بندی کرے کہ اتنی مدت میں ہم اتنا غلہ پیدا کریں گے اور اسی حساب سے اتنے بچوں کو پیدا ہونے دیں گے اور اگر کسی ناخواندہ مہمان نے ہماری نپی روٹی اور گنی بوٹی میں حصہ دار بننے کی کوشش کی تو ہم اپنی سائنسی تدبیروں سے کام لے کر اس کا گلا گھونٹ دیں گے۔ غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ اس معاملے میں جو غلط فہمی عرب جاہلیت کے سنگدلوں کو لاحق ہوئی تھی اسی غلط فہمی کا شکار اس زمانے کی متمدن حکومتیں ہو رہی ہیں۔ انھیں بھی خدا پر غصہ تھا کہ جب وہ بھرپور روٹی نہیں دے رہا ہے تو دمبدم اولاد میں کیوں اضافہ کیے جا رہا ہے ؟ یہ غصہ وہ اولاد کو قتل کر کے نکالتے تھے۔ اس زمانے کے متمدن انسان کو بھی یہ برہمی ہے کہ ابھی جب اپنے ہی معیار زندگی کو ہم اپنے مطلوبہ معیار پر نہ پہنچا سکے تو دوسروں کی ذمہ داری کا بوجھ اپنے کندھوں پر کس طرح اٹھا لیں ؟ اس برہمی یا گھبراہٹ میں انھوں نے خاندانی منصوبہ بندی کی اس کیم بنا ڈالی۔ شکلیں ذرا بدلی ہوئی ہیں ‘ عرب اجڈ اور گنوار تھے اس وجہ سے انھوں نے ایک ناتراشیدہ اور بھونڈی سی شکل اختیار کی ‘ موجودہ زمانے کا انسان مہذب اور تعلیم یافتہ ہے اس لیے اس نے ایک خوبصورت سی شکل اختیار کی ہے اور نام بھی اس کا اس نے پیارا سا ڈھونڈ نکالا ہے لیکن فلسفہ دونوں جگہ ایک ہی ہے۔ انھوں نے بھی رزاق اپنے کو سمجھا اور یہ بھی رزاق اپنے کو سمجھے بیٹھے ہیں۔ حالانکہ رزاق اللہ تعالیٰ ہے۔ قرآن نے عربوں پر تو ان کی غلطی واضح کردی اور وہ یہ بات سمجھ بھی گئے ‘ مان بھی گئے ‘ لیکن اس زمانے کے پڑھے لکھے جنوں کو کون سمجھائے اور کون قائل کرے ! یہاں تک جو کچھ بیان ہوا وہ اولاد کے ظاہری اور جسمانی قتل کے بارے میں ہے لیکن اولاد کا ایک قتل معنوی اور روحانی بھی ہے وہ یہ کہ ماں باپ اولاد کو تربیت نہ دینے یا غلط تربیت کے نتیجے میں ایسی زندگی کا خوگر کردیں جس میں اللہ ‘ رسالت اور آخرت پر ایمان ‘ اسلامی اخلاق اور اسلامی آداب کا دور دور تک پتہ نہ ہو وہ بے خدا تہذیب کا پرستار ‘ بے خدا تمدن کے تحت زندگی گزارنے والا ‘ نفسانی شہوات کا خوگر اور محض معدے کی ضروریات کی بجاآوری کے لیے پوری زندگی کے سرمائے کو جھونک دینے والا بن جائے تو یہ اس کی اخلاقی ‘ روحانی اور معنوی موت ہے جو جسمانی موت سے بھی ابتر ہے۔ قرآن کریم نے ایسے لوگوں کے لیے مردہ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جسمانی موت تو ایک آنی وفانی تکلیف ہے جو آئی اور گزر گئی اور پسماندگان کو ایک صدمہ دے گئی جو وقت کے ساتھ ساتھ بھول جائے گا۔ لیکن ایسا بظاہر زندہ شخص جو حقیقت میں مردہ ہے اور جس میں معنوی ‘ اخلاقی اور روحانی زندگی بالکل نہیں وہ تو اپنے معاشرے کے لیے ایک ناسور بن جاتا ہے۔ اگر معاشرہ صالح ہو تو وہ اس سے جان چھڑانے یا اس کی موت کی آرزو کرتا ہے۔ اس لیے جو لوگ اپنی اولاد کی تربیت اسلامی اصولوں کے مطابق اور اسلامی مقاصد کے تحت نہیں کرتے وہ درحقیقت اپنی اولاد کو قتل کرتے ہیں۔ جس طرح ظاہری طور پر اولاد کو قتل کرنا جرم ہے اور کل کو اللہ کے یہاں اس کی بازپرس ہوگی اسی طرح معنوی اور اخلاقی طور پر بھی اولاد کو قتل کرنا یہ بھی ویسا ہی جرم ہے یقینا اس کے بارے میں بھی اللہ کے یہاں پوچھا جائے گا اور جس شخص نے بھی جان بوجھ کر اپنی اولاد کو بگاڑا ہوگا وہ یقینا بدترین سزا کا مستحق ہوگا اور جس نے محض غفلت کی وجہ سے اولاد کے بگاڑ کی فکر نہ کی ہوگی وہ بھی سزا سے بچ نہیں سکے گا۔ اس لیے ایک مسلمان معاشرے کو اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ اگر مسلمان امت کو باقی رکھنا ہے تو اس میں قتل اولاد کا جرم نہ ہونے پائے اور اگر امت مسلمہ کی اسلامی زندگی کو باقی رکھنا ہے تو اس میں اسلامی تربیت کا ایسا انتظام ہونا چاہیے جس کے نتیجے میں ایک صالح نسل تیار ہو۔ فواحش کے قریب مت جاؤ اس آیت کریمہ میں چوتھی چیز جسے حرام کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ فواحش کے قریب مت جاؤ خواہ وہ اعلانیہ ہوں یا پوشیدہ۔ فواحش فاحشہ کی جمع ہے اور فحش، فحشا اور فاحشہ سب مصدر ہیں۔ اس کا اطلاق عام طور پر ایسے افعال پر ہوتا ہے جن کی برائی بالکل واضح ہو۔ قرآن میں زنا ‘ عمل قوم لوط ‘ برہنگی ‘ جھوٹی تہمت اور باپ کی منکوحہ سے نکاح کرنے کو فحش افعال میں شمار کیا گیا ہے۔ حدیث میں چوری اور شراب نوشی اور بھیک مانگنے کو من جملہ فواحش کہا گیا ہے۔ اسی طرح دوسرے تمام شرمناک افعال بھی فواحش میں داخل ہیں۔ لیکن یہاں کھلی بےحیائی کے معنی میں استعمال ہوا ہے دلیل اس کی یہ ہے کہ یہ تمام احکام سورة بنی اسرائیل میں بھی بیان ہوئے ہیں اور وہاں اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے جو الفاظ استعمال فرمائے ہیں وہ یہ ہیں : وَلَا تَقْرَبُوْا الزِّنَآء اِنَّہُ کَانَ فَاحِشَۃً ط وَسَآئَ سَبِیْلاً (بنی اسرائیل : 32) (اور زنا کے پاس بھی نہ پھٹکو یہ کھلی ہوئی بےحیائی اور نہایت ہی بری راہ ہے ) یہاں زنا کو فاحشہ فرمایا گیا ہے اور زیر بحث آیت میں اسی فاحشہ کی جمع فواحش استعمال ہوئی ہے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں اس سے مراد وہ کھلی ہوئی بےحیائیاں ہیں جن کا رشتہ زنا سے ملتا ہے۔ لیکن اس بےحیائی سے روکتے ہوئے یہ نہیں فرمایا کہ اس کا ارتکاب نہ کرنا بلکہ یہ فرمایا کہ اس کے پاس بھی نہ پھٹکنا اور اس کے قریب نہ جانا یعنی مطلب اس کا یہ ہے کہ یہ برائی اس قدر خطرناک ہے کہ اس کے دواعی اور محرکات بھی نہایت مہلک ہیں جو بہت دور سے انسانوں پر اپنی کمند پھینکتے ہیں اور پھر اس طرح اس کو گرفتار کرلیتے ہیں کہ ان سے چھوٹنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ ایسی برائیوں سے اپنے آپ کو بچائے رکھنے میں آدمی کو کامیابی صرف اسی صورت میں حاصل ہوتی ہے جب وہ اپنی نگاہ ‘ اپنی زبان اور اپنے دل کی پوری حفاظت کرے۔ اسی لیے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ آنکھ بھی زنا کرتی ہے ‘ ہاتھ بھی زنا کرتا ہے ‘ قدم بھی زنا کرتے ہیں پھر آخری عمل اس کی تائید یا تکذیب کردیتا ہے یعنی زنا کے جو شروعات ہیں جب تک ان سے نہ بچا جائے اس وقت تک زنا سے بچنا ممکن نہیں اور جو آدمی زنا سے بچنا چاہتا ہے اس کے لیے یہ بات ممکن نہیں کہ وہ اس کی شروعات کا ارتکاب کرے کیونکہ اگر وہ اس کی شروعات میں مبتلا ہوجائے گا تو پھر اس کی انتہاء سے ادھر کبھی نہیں رک سکے گا جب دل میں گندے خیالات آئیں اور دل اس میں لذت لینے لگے ‘ نظر اپنی پاکیزگی کھو بیٹھے اور قدم مشکوک جگہوں پر چل کر جانے لگیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ بےحیائی کا سفر نہ صرف کہ شروع ہوگیا ہے بلکہ رفتہ رفتہ اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ اعلانیہ اور پوشیدہ دونوں طرح سے بےحیائیوں سے بچو۔ اعلانیہ برائی تو اس وقت ہوتی ہے جب برائی کا سفر مکمل ہوجاتا ہے اور برائی کرنے والا اس حد تک آگے بڑھ جاتا ہے کہ اس سے شرم و حیا اٹھا لی جاتی ہے۔ لیکن جہاں تک پوشیدہ برائی کا تعلق ہے اس کا ارتکاب ہمیشہ شروعات کی صورت میں ہوتا ہے لیکن اگر اس سے احتیاط نہ برتی جائے تو پھر آدمی اعلانیہ برائی تک پہنچ کے رہتا ہے کیونکہ برائی ہو یا نیکی ان دونوں کا اصل منبع انسان کا دل ہے۔ کوئی نیکی اس وقت تک فروغ نہیں پاتی جب تک کہ دل کے اندر اس کی جڑ مضبوط نہ ہو اسی طرح کوئی برائی بھی اس وقت تک اعلانیہ صورت اختیار نہیں کرتی جب تک دل میں پوری طرح پیوست نہ ہوجائے کیونکہ کوئی برائی بھی جب تک دل کے اندر موجود رہتی ہے وہ کان ‘ آنکھ ‘ زبان ‘ فکر اور خیال کی راہ سے برابر غذا حاصل کر کر کے توانا ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ وہ روحانی سرطان کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اسی لیے اسلام نے اس تمام جگہوں پر پہرہ بٹھایا ہے جہاں جہاں سے اس برائی کو غذا مل سکتی ہے۔ مرد و زن کے آزانہ اختلاط کو اسی لیے حرام کیا گیا ہے۔ ایک مرد اور عورت کو تنہا بیٹھنے اور باتیں کرنے سے روک دیا گیا ہے اور صاف طور پر فرمایا گیا ہے کہ جب مرد اور عورت تنہا ہوتے ہیں تو تیسرا ان میں شیطان ہوتا ہے۔ اس لیے اہل دین کا یہ کہنا یقینا صحیح ہے کہ مخلوط طرز تعلیم کا اسلام میں کوئی تصور نہیں۔ ایسے ادارے مسلمانوں میں اپنا جواز نہیں رکھتے جن میں مرد اور عورت کو اکٹھے کام کرنے کی مجبوری ہو عورتوں اور مردوں کے پارک الگ ہونے چاہیں ہو سکے تو ان کی ضروریات کے حصول کے تمام مقامات الگ الگ ہوں تاکہ اس فتنہ کو کھل کھیلنے کا موقع نہ ملے۔ اسلام نے حیا کو نصف ایمان قرار دیا ہے اور امت مسلمہ کی حقیقی نمود و پرداخت حیا کے سائے ہی میں ہوتی ہے۔ اس لیے اگر امت مسلمہ کے سوچنے سمجھنے والے لوگ اس امت کو حقیقی توانائیوں سے محروم نہیں کرنا چاہتے تو پھر انھیں ایسے تمام دروازے بند کردینے چاہئیں جس سے بےحیائی کے فروغ میں مدد ملتی ہو۔ اور اس برائی کو قوت حاصل ہوتی ہو کیونکہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے : من حام حول حمی اوشک ان یقع فیہ (جو شخص کسی ممنوع جگہ کے گرد گھومتا ہے تو کچھ بعید نہیں کہ وہ اس میں داخل بھی ہوجائے) قتل ناحق سے منع کیا گیا ہے اس آیت کریمہ میں محرمات میں سے پانچویں چیز قتل ناحق ہے۔ اسلام نے انسانی جان کی حرمت کو بےحد اہمیت دی ہے آنحضرت ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں صاف صاف فرمایا کہ مسلمانو ! تم پر کسی انسان کی جان اس کی آبرو اور اس کا مال اسی طرح محترم ہے جس طرح آج کا دن اور حرم محترم ہے اور قرآن کریم نے تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جو آدمی کسی مومن کو جان بوجھ کے قتل کرے گا وہ بدلے میں ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ اللہ کا غضب اس پر ٹوٹے گا اور اللہ کی اس پر لعنت ہوگی اور قیامت کے دن اللہ نے اس کے لیے عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے۔ کسی کی جان لینا تو دور کی بات ہے جان لینے کے ارادے سے کسی پر ہتھیار اٹھانے کی بھی ممانعت ہے۔ آنحضرت نے اس کے بارے میں فرمایا : مَنْ حَمَلَ عَلَیْنَا اَلِّسلَاحَ فَلَیِسَ مِنَّا (جو آدمی ہم پر ہتھیار اٹھاتا ہے ‘ وہ ہم میں سے نہیں) حضرت خالد بن ولید ( رض) کے ہاتھوں ایک شخص اس شبہ میں مارا گیا کہ وہ محض جان بچانے کے لیے اسلام قبول کر رہا تھا تو آپ نے حضرت خالد سے نہایت برہمی کے انداز میں فرمایا کہ خالد جب وہ قیامت کے دن اپنا کلمہ لے کر آئے گا تو تم اللہ کے سامنے اس کلمے کے ساتھ کیا کرو گے ؟ قرآن و سنت کی تعلیمات میں سب سے زیادہ جس چیز کی تاکید ملتی ہے وہ انسانی جان کی حرمت ہے جس کی حفاظت کی حضور نے سب سے زیادہ تاکید فرمائی اور صرف یہی نہیں کہ مسلمان کی جان کی حفاظت کی تاکید فرمائی بلکہ وہ غیر مسلم جو مسلمانوں کی حکومت میں قانون کا پابند شہری بن کر رہ رہا ہو اس کے بارے میں فرمایا کہ ” جو کسی ذمی غیر مسلم کو قتل کر دے اس نے اللہ تعالیٰ کے عہد کو توڑ دیا اور جو شخص اللہ کے عہد کو توڑ دے وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھ سکے گا حالانکہ جنت کی خوشبو ستر سال کی مسافت تک پہنچتی ہوگی “ البتہ ! اس قتل نفس میں بالحق کے ساتھ استثنا کیا گیا ہے کہ صرف اس شخص کا قتل کرنا اور اس کی جان لینا جائز ہے جو کسی حق شرعی یا بالفاظ دیگر قانون کے تحت مباح الدم قرار پائے یعنی اسلامی قانون اس کے خون کو مباح قرار دے دے اور اسلامی حکومت کو اجازت دے دے کہ وہ اس کی جان لے سکتی ہے۔ اس کو یہاں بالحق کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کی تین صورتیں قرآن میں بیان کی گئی ہیں اور دو صورتیں اس پر زائد نبی اکرم ﷺ نے بیان فرمائی ہیں۔ قرآن کی بیان کردہ صورتیں یہ ہیں۔ -1 انسان کسی دوسرے انسان کے قتل عمد کا مجرم ہو اور اس پر قصاص کا حق قائم ہوگیا ہو۔ -2 دین حق کے قیام کی راہ میں مزاحم ہو اور اس سے جنگ کیے بغیر چارہ نہ رہا ہو۔ -3 دارالاسلام کی حدود میں بدامنی پھیلائے یا اسلامی نظام حکومت کو الٹنے کی سعی کرے۔ باقی دو صورتیں جو حدیث میں ارشاد ہوئی ہیں یہ ہیں۔ -4 شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کرے۔ -5 ارتداد اور خروج از جماعت کا مرتکب ہو۔ ان پانچ صورتوں کے سوا کسی صورت میں انسان کا قتل انسان کے لیے حلال نہیں ہے خواہ وہ مومن ہو یا ذمی یا عام کافر۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عثمان غنی ( رض) جس وقت باغیوں کے نرغے میں محصور تھے اور یہ لوگ ان کو قتل کرنا چاہتے تھے تو اس وقت حضرت عثمان ( رض) نے ان بلوائیوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میں نے زمانہ اسلام میں تو کیا زمانہ جاہلیت میں بھی کبھی بدکاری نہیں کی۔ نہ میں نے کسی کو قتل کیا ‘ نہ کبھی میرے دل میں یہ وسوسہ آیا کہ میں اپنے دین اسلام کو چھوڑ دوں تو پھر تم مجھے کس بنا پر قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہو۔ ان پانچ چیزوں کی حرمت کے بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ وہ باتیں ہیں جن کا اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے لیکن تم یہ باتیں تو چھوڑ چکے ہو البتہ ! اپنی طرف سے چند حلال جانوروں کو حرام کر کے اور بعض میں تخصیص پیدا کر کے ملت ابراہیمی کے دعوے دار بن کر اٹھ کھڑے ہوئے ہو۔ میں تمہیں اس لیے ملت ابراہیم کے یہ احکام سنا رہا ہوں تاکہ تم اس پر غور کرو اور سوچو کہ تم جو کچھ دعویٰ کر رہے ہو اس کا آخر ملت ابراہیم سے کیا رشتہ ہے ؟ اور دوسری وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ مشرکینِ مکہ کو ان کو غور و فکر کی دعوت دی جا رہی ہے کیونکہ وہ ان پانچوں باتوں میں سے کسی میں بھی کوئی قباحت محسوس نہ کرتے تھے۔ یہ ان کی زندگی میں پوری طرح رچ بس گئے تھے اور وہ اس طرح ان کے خوگر ہوگئے تھے کہ ان کی شناعت اور قباحت ان کے دل و دماغ سے نکل گئی تھی۔ اس لیے فرمایا جا رہا ہے کہ ہم نے یہ باتیں تو کھول کر بیان کردی ہیں تاکہ تم ان پر غور و فکر کرو اور تمہیں اندازہ ہو کہ تم نے اپنے آپ کو ان جرائم کا خوگر بنا کر اپنے معاشرے کو کس طرح جہنم بنا رکھا ہے لیکن اس کے باوجود تمہیں غور و فکر کی کبھی توفیق نہیں ہوتی۔
Top