Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 19
قُلْ اَیُّ شَیْءٍ اَكْبَرُ شَهَادَةً١ؕ قُلِ اللّٰهُ١ۙ۫ شَهِیْدٌۢ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْ١۫ وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَ مَنْۢ بَلَغَ١ؕ اَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُوْنَ اَنَّ مَعَ اللّٰهِ اٰلِهَةً اُخْرٰى١ؕ قُلْ لَّاۤ اَشْهَدُ١ۚ قُلْ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَّ اِنَّنِیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَۘ
قُلْ : آپ کہ دیں اَيُّ : کونسی شَيْءٍ : چیز اَكْبَرُ : سب سے بڑی شَهَادَةً : گواہی قُلِ : آپ کہ دیں اللّٰهُ : اللہ شَهِيْدٌ : گواہ بَيْنِيْ : میرے درمیان وَبَيْنَكُمْ : اور تمہارے درمیان وَاُوْحِيَ : وحی کیا گیا اِلَيَّ : مجھ پر هٰذَا : یہ الْقُرْاٰنُ : قرآن لِاُنْذِرَكُمْ : تاکہ میں تمہیں ڈراؤں بِهٖ : اس سے وَمَنْ : اور جس بَلَغَ : وہ پہنچے اَئِنَّكُمْ : کیا تم بیشک لَتَشْهَدُوْنَ : تم گواہی دیتے ہو اَنَّ : کہ مَعَ : ساتھ اللّٰهِ : اللہ اٰلِهَةً : کوئی معبود اُخْرٰي : دوسرا قُلْ : آپ کہ دیں لَّآ اَشْهَدُ : میں گواہی نہیں دیتا قُلْ : آپ کہ دیں اِنَّمَا : صرف هُوَ : وہ اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : یکتا وَّاِنَّنِيْ : اور بیشک میں بَرِيْٓءٌ : بیزار مِّمَّا : اس سے جو تُشْرِكُوْنَ : تم شرک کرتے ہو
پوچھو ! شہادت کیلئے سب سے بڑا کون ہے ؟ کہو اللہ ! وہ میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے کہ میں بھی اس کے ذریعہ سے تم کو ڈرائوں اور وہ بھی جن کو یہ پہنچے۔ کیا تم اس بات کے گواہ بنتے ہو کہ اللہ کے ساتھ کچھ اور معبود بھی ہیں ؟ کہہ دو ! میں اس کی گواہی نہیں دیتا۔ کہہ دو ! وہ تو بس ایک ہی معبود ہے اور میں ان سے بری ہوں ‘ جن کو تم شریک ٹھہراتے ہو
تمہید گزشتہ آیات میں جو سلسلہ مضامین چل رہا ہے ‘ اس میں توحید پر زور دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی صفات بیان ہو رہی ہیں۔ بالخصوص جن صفات کا تعلق انسانیت سے زیادہ گہرا ہے ‘ اس کو سوالات کی صورت دے کر دل و دماغ میں اتارنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ پوچھا جا رہا ہے کہ ذرا بتائو ‘ زمین و آسمان کس کے قبضے میں ہیں اور ان کا مالک اور حاکم حقیقی کون ہے ؟ بتائو اس زمین و آسمان کا پیدا کرنے والاکون ہے ؟ بتائو اس پوری کائنات کو رزق کون دے رہا ہے ؟ ذرا غور کرو ! اس پوری کائنات پر کس کا غلبہ اور کنٹرول ہے اور گہری نظر سے دیکھو کہ نفع و ضرر کا مالک کون ہے ؟ ان تمام باتوں کا جواب آخر اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ اللہ ہی ان صفات کا حامل ہے اور وہی اس لائق ہے کہ ہمارے سر ‘ اسی کے سامنے جھکیں اور ہماری زندگیاں ‘ اسی کے راستے پر نچھاور ہوں۔ عقیدہ توحید پر یہ موثر انداز بیان اور نہایت زور دار طریق استدلال مشرکینِ مکہ کو مبہوت کیے دے رہا تھا۔ ان کے بس میں یہ بات نہ تھی کہ وہ علمی یا عقلی انداز میں اس کا جواب دے سکتے۔ لیکن تعصب کے ہاتھوں وہ اس حد تک اندھے ہوچکے تھے کہ اس دعوت کو قبول کرنے کے لیے بھی تیار نہیں تھے اس کے لیے انھوں نے ایک راستہ نکالا اور آنحضرت ﷺ سے سوال کیا کہ آپ ہم سے جو کچھ کہہ رہے ہیں اور جس حیثیت سے کہہ رہے ہیں ‘ کیا اس کی گواہی دینے والا دنیا میں کوئی موجود ہے ؟ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ تم ہماری طرح ایک آدمی ہو ‘ ہماری طرح مکی زندگی کی فضائوں میں محصور ‘ علم سے کوسوں دور اور ہمارے اندر ہی تمام عمر گزار دینے والے۔ اس لیے ہم صرف تمہارے کہنے سے ایسی بڑی بڑی باتیں کیسے تسلیم کرلیں۔ ہمارے ہمسائے میں اہل کتاب رہتے ہیں ‘ جو اپنے پاس مذہب بھی رکھتے ہیں اور علم بھی۔ ہم نے ان سے بھی پوچھ لیا ‘ انھیں بھی انکار ہے کہ ان کی کتابوں میں نہ تمہاری رسالت کا کوئی تذکرہ ہے اور نہ ایسی باتوں کا ‘ جو تم ہم سے منوانے کی کوشش کر رہے ہو۔ اس لیے ہم تو اس وقت تک ماننے کو تیار نہیں ہیں ‘ جب تک تم ہمارے سامنے ان باتوں کا کوئی گواہ پیش نہ کرو۔ اس پر یہ ارشاد فرمایا گیا : قُلْ اَیُّ شَیْئٍ اَکْبَرُ شَھَادَۃً ط قُلِ اللہ ُ قفلا شَھِیْدُٗم بَیْنِیْ وَ بَیْنَکُمْ قف وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْم بَلَغَ ط اَئِنَّکُم لَتَشْھَدُوْنَ اَنَّ مَعَ اللہِ اٰلِھَۃً اُخْرٰی ط قُلْ لَّآ اَشْھَدُ ج قُلْ اِنَّمَا ھُوَ اِلٰہٌوَّاحِدٌوَّ اِنَّنِیْ بَرِیْٓئٌمِّمَّا تُشْرِکُوْنَ ۔ (الانعام : 19) (پوچھو ! شہادت کے لیے سب سے بڑا کون ہے ؟ کہو اللہ ! وہ میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے کہ میں بھی اس کے ذریعہ سے تم کو ڈرائوں اور وہ بھی جن کو یہ پہنچے۔ کیا تم اس بات کے گواہ بنتے ہو کہ خدا کے ساتھ کچھ اور معبود بھی ہیں ؟ کہہ دو ! میں اس کی گواہی نہیں دیتا۔ کہہ دو ! وہ تو بس ایک ہی معبود ہے اور میں ان سے بری ہوں ‘ جن کو تم شریک ٹھہراتے ہو) اللہ کے اختیارات اور اس کی صفات میں کوئی اور شریک نہیں مشرکینِ مکہ کے سوال کے جواب میں پروردگار ارشاد فرما رہے ہیں کہ اے پیغمبر ! ان سے پوچھو کہ یہ جس گواہی کے طلب گار ہیں ‘ ان کے نزدیک اس گواہی کا اہل کون ہے ؟ یعنی وہ کون ہے ‘ جس کی گواہی ان کے نزدیک قابل قبول ہوسکتی ہے ؟ کیونکہ جب ایک ایسے مخاطب سے واسطہ ہو ‘ جس کی ہٹ دھرمی کا بار بار تجربہ ہو رہا ہو ‘ وہ جب کسی گواہی کو طلب کرے تو عقل و دانش کا تقاضا یہ ہے کہ خود اسی سے پوچھ لیا جائے کہ تم بتائو ! تمہارے نزدیک کس گواہ کی گواہی قابل قبول ہے تاکہ بعد میں وہ ہٹ دھرمی کا ثبوت نہ دے سکے۔ چناچہ مشرکین سے ہی کہا جا رہا ہے کہ تم خود اس گواہ کو تجویز کرو تاکہ پھر تم انکار نہ کرسکو۔ ظاہر ہے مشرکینِ مکہ اس کا کیا جواب دے سکتے تھے۔ اس لیے پروردگار نے آنحضرت ﷺ سے فرمایا کہ تم ان سے کہو کہ بات اصل میں یہ ہے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان جو مسئلہ مختلف فیہ ہے ‘ وہ یہ ہے کہ اللہ وحدہ لا شریک ہے یا اس کے ساتھ اس کی ذات یا اس کی صفات میں کوئی اور شریک بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا جواب اللہ کے سوا کون دے سکتا ہے کیونکہ وہی یہ بات بتاسکتا ہے کہ اس نے اپنی صفات یا اپنے اختیارات میں کسی اور کو شریک کیا ہے یا نہیں۔ مخلوق میں اگر کوئی اس کا دعویٰ کرے تو وہ ایک بلا دلیل دعویٰ ہے کیونکہ کوئی مخلوق بھی خدائی معاملات کو جاننے کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ مشرکینِ مکہ اس بات کو تو تسلیم کرتے تھے کہ اللہ ہی اس کائنات کا خالق ہے ‘ وہی رزق دینے والا ہے ‘ وہی زندگی اور موت کا مالک ہے۔ لیکن ساتھ ہی ان کو یہ بھی خیال تھا کہ اتنی بڑی کائنات کا انتظام و انصرام ‘ تنہا اللہ کے لیے چلانا ممکن نہیں۔ یقینا اس نے کائنات کے نظام میں بہت سی قوتوں کو شریک کر رکھا ہے اور ان کی مد سے وہ زمین و آسمان کے نظام کو چلا رہا ہے۔ اب مسئلہ صرف یہ ہے کہ مشرکینِ مکہ نے یہ جو ایک بات فرض کرلی ہے ‘ آخر اس کی دلیل کیا ہے ؟ اب بجائے اس کے کہ اس بات کی وہ دلیل خود فراہم کریں ‘ الٹا وہ آنحضرت ﷺ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ آپ اللہ کے وحدہٗ لا شریک ہونے کی گواہی پیش کریں۔ اس لیے ان سے کہا جا رہا ہے کہ اس بات کی گواہی کہ وہ وحدہ لا شریک ہے یا اس کے ساتھ کوئی اور شریک بھی ہے ‘ ظاہر ہے اللہ کے سوا تو کوئی نہیں دے سکتا۔ یہ تو بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی ادارے کے بارے میں یہ کہا جائے کہ اتنے بڑے ادارے کے اختیارات کا مالک صرف اس کا سربراہ نہیں بلکہ کچھ اور لوگ بھی اس میں شریک ہیں۔ کچھ لوگ اس کا انکار کریں کہ اس کے اختیار میں کوئی شریک نہیں۔ اب اس کا فیصلہ اس کے سوا ممکن نہیں کہ خود سربراہ سے پوچھا جائے کہ کیا آپ نے اپنے اختیارات میں کسی اور کو شریک کر رکھا ہے ؟ یہاں بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ اے پیغمبر ! تم ان کو یہ بات کہو کہ تم جس گواہی کے طلب گار ہو ‘ وہ ظاہر ہے اللہ کے سوا کوئی اور نہیں دے سکتا۔ اس بات کو واضح کرنے کے بعد ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ اگر تمہیں یہ بات سمجھ میں آرہی ہے تو آئو پھر میں اللہ ہی کو اپنے اور تمہارے درمیان گواہ بناتا ہوں اور اسی سے ہم سب پوچھنے کی جسارت کرتے ہیں کہ وہ ہمیں یہ بتائے کہ اس کے اختیارات میں کوئی اور شریک ہے یا نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اللہ سے پوچھنے کا طریقہ کیا ہے ؟ اس لیے کہ کسی انسان کی یہ مجال تو نہیں کہ وہ براہ راست اللہ سے رابطہ قائم کرسکے یا وہ براہ راست اللہ سے کسی طرح کا استفادہ کرسکے۔ اس لیے کہ انسان کو اللہ نے علم کے دو ہی ذرائع بخشے ہیں ‘ ایک حواس اور دوسرا عقل اور ہر پڑھا لکھا آدمی جانتا ہے کہ حواس اور عقل ‘ دونوں کا دائرہ صرف عالم محسوسات تک ہے۔ اس کے ماورا جو کچھ ہے ‘ اس میں نہ حواس دخل دے سکتے ہیں اور نہ عقل۔ اس میں بیشمار مخلوقات بھی ہیں۔ اللہ کی ذات تو بہت عظیم ہے۔ انسانی حواس اور عقل کی رسائی تو ان مخلوقات تک بھی ممکن نہیں۔ مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ فرشتے اللہ کی مقدس مخلوق ہیں۔ لیکن اس کا علم ہمیں مذہب نے دیا ہے ‘ حواس اور عقل تو اس معاملے میں کچھ نہیں کرسکتے اور جہاں تک تعلق ہے پروردگار عالم کا ‘ وہ تو ایک لامحدود ذات ہے اور انسانی عقل کو چاہے کتنی بھی اہمیت دے دی جائے ‘ اس کی وسعتیں بہرحال محدود ہیں۔ وہ اللہ جیسی لا محدود ذات کے بارے میں یہ دعویٰ کبھی نہیں کرسکتی کہ وہ اس کی وسعتوں کو اپنے اندر سمیٹ سکتی ہے کیونکہ اگر ایسا ممکن ہو سکے تو پھر اللہ لا محدود نہیں رہے گا ‘ بلکہ محدود ہوجائے گا۔ اسی کی طرف اکبر نے اشارہ کرتے ہوئے کہا جو ذہن میں گھر گیا لا انتہا کیونکر ہوا جو سمجھ میں آگیا پھر وہ خدا کیونکر ہوا اسی لیے قرآن کریم نے ہمیں یہ بتایا کہ تم اللہ تعالیٰ سے براہ راست استفادہ نہیں کرسکتے۔ اس کے استفادہ کی تین ہی شکلیں ہیں ‘ جس کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا : وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللہ ُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَائِ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلاً (الشوریٰ : 51) (کسی بشر کی یہ مجال نہیں کہ وہ اللہ سے براہ راست بات کرسکے ‘ سوائے وحی کے یا حجاب کے پیچھے سے یا رسول (قاصد) کی معرفت ) یعنی یا تو اللہ سے رابطے کی شکل یہ ہے کہ اللہ کسی پر اپنی وحی اتارے یعنی اس کے دل پر اپنا کلام نازل کرے اور یا پردے کے پیچھے سے کلام فرمائے۔ درخت طور کے پردے کے پیچھے سے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام فرمایا اور یا وہ کسی رسول اور قاصد کو بھیجے ‘ جیسے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوتے رہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور بندوں کے درمیان اصل واسطہ وحی الٰہی ہے اور یہی وہ ذریعہ ہے ‘ جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ گواہی دیتے ہیں۔ اس لیے یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ دیکھو ! یہ قرآن میری طرف وحی کیا جا رہا ہے اور اسی کے ذریعہ سے اللہ یہ گواہی دے رہا ہے کہ اس کے ساتھ کوئی اور شریک نہیں۔ قرآن کریم میں صاف صاف اس نے فرمایا کہ لوگو ! تمہارا معبود صرف ایک اللہ ہے ‘ اس کے سوا کوئی اور معبود نہیں۔ مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ شریک کرنے والے کو کبھی نہیں بخشے گا۔ ہاں اور بڑے سے بڑا جرم کرنے والے کو ‘ وہ چاہے گا تو بخش دے گا۔ لیکن اس کے ساتھ شریک ٹھہرانے والے کو کبھی معافی نہیں ملے گی۔ یہ اللہ کی وہ گواہی ہے جو مشرکینِ مکہ کے جواب میں دی جا رہی ہے۔ قرآن کے وحی الٰہی ہونے کے دلائل کوئی شخص یہ سوال کرسکتا ہے کہ آپ نے مشرکینِ مکہ کے مقابلے میں قرآن کریم کے ذریعہ اللہ کی گواہی پیش کی حالانکہ مشرکینِ مکہ نہ رسول اللہ کو اللہ کا رسول مانتے تھے اور نہ قرآن کریم کو اللہ کی کتاب تسلیم کرتے تھے۔ جب انھیں یہ دونوں حیثیتیں تسلیم ہی نہیں تو اس شہادت اور گواہی کی قدروقیمت ان کی نگاہوں میں کیا ہوگی ؟ بات اصل میں یہ ہے کہ ایک بات اگر قابل تسلیم بلکہ واجب التسلیم ہو اور عقل و دانش اس کا انکار نہ کرسکتے ہوں تو محض کسی کے انکار کردینے یا نہ ماننے سے اس کی واقعی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ یہ صحیح ہے کہ مشرکینِ مکہ قرآن کریم کو وحی الٰہی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ان کا یہ رویہ عقل و دانش کے نزدیک قابل قبول تھا ؟ یا کسی بات کو قبول کرنے کے جتنے پیمانے بھی ہوسکتے ہوں ‘ کیا ان پیمانوں میں سے کسی کے بھی یہ مطابق تھا ؟ کیونکہ قرآن کریم کی جہاں تک صداقت ‘ حقانیت اور وحی الٰہی ہونے کا تعلق ہے ‘ اس پر اتنے مضبوط دلائل قائم ہیں کہ ایک عقل کا اندھا ہی اس سے انکار کرے تو کرے ‘ دوسرا کوئی آدمی اس سے انکار کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ ہم نہایت اختصار سے اس کے حوالے سے چند باتیں عرض کرتے ہیں ‘ جن سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ قرآن کریم کو وحی الٰہی کے طور پر قبول نہ کرنا کیا واقعی اس کا کوئی جواز ہے ؟ میں محض تفہیم کے لیے کہتا ہوں کہ قرآن کریم کے تین پہلو ہیں ‘ جو غور و فکر کے لیے ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ قرآن میں کوئی غیر فصیح لفظ استعمال نہیں ہوا 1 ” قرآن “ کلام لفظی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کو انہی حروف اور الفاظ میں پیش فرمایا ہے ‘ جس میں قریش گفتگو کرتے تھے اور جو زبان عرب میں عام بولی اور سمجھی جاتی تھی۔ اس دور کے بڑے بڑے شعراء اور علماء اسی میں شعر کہتے اور ادبی شہ پارے پیش کرتے تھے۔ اسی زبان میں قرآن پاک کو پیش کیا گیا ہے۔ ہر پڑھا لکھا آدمی جانتا ہے کہ دنیا کی کوئی زبان بھی چاہے وہ کتنی ترقی یافتہ ہو ‘ اس کے بارے میں یہ دعویٰ کرنا ممکن نہیں ہوتا کہ اس کا ایک ایک لفظ فصاحت و بلاغت کے معیار پر پورا اترتا ہے۔ خود ہر زبان کے اندر بعض ایسے الفاظ استعمال ہوتے رہتے ہیں ‘ جن کو خود اہل زبان فصیح تسلیم نہیں کرتے۔ جب بھی کوئی مصنف اپنی کتاب تصنیف کرتا ہے تو وہ اپنے وقت کی زبان ہی میں اسے لکھتا ہے اور جب کبھی اسے وہ بات لکھنے کی نوبت آتی ہے ‘ جس کے لیے زبان میں کوئی فصیح لفظ نہیں تو وہ مجبور ہے کہ زبان کے غیر فصیح لفظ سے کام چلائے۔ لیکن قرآن پاک کی حیرت انگیز خوبی یہ ہے ‘ جو اسے کلام اللہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ قرآن کریم میں باوجود اس کے کہ لاکھوں الفاظ استعمال ہوئے ہیں ‘ لیکن ایک لفظ بھی غیر فصیح نہیں۔ جب بھی کبھی ایسا موقع آیا کہ قرآن کریم کو وہ بات کہنا پڑی ‘ جس کے لیے عربی زبان میں کوئی فصیح لفظ موجود نہیں تھا تو حیران کن بات یہ ہے کہ قرآن کریم نے وہ بات کہی ‘ لیکن غیر فصیح لفظ کے استعمال کا عیب قرآن کریم میں پیدا نہیں ہونے دیا۔ بعض دفعہ تو ایسا ہوا کہ قرآن کریم نے عربی زبان کو ایک نیا خوبصورت اور فصیح لفظ عطا کیا اور بعض دفعہ لفظ کی بجائے ایسی فصیح عبارت آرائی سے کام لیا گیا کہ وجدان کو جھک کر اسے سجدہ کرنا پڑا۔ میں اس کی صرف دو مثالوں پر اکتفا کروں گا۔ قرآن کریم کو جب یہ ضرورت پیش آئی کہ موت کا وہ تصور پیش کرے جو اسلام نے پیش کیا ہے تو اس نے دیکھا کہ پوری عربی زبان میں باوجود اس کے کہ وہ دنیا کی سب زبانوں میں ذخیرہ الفاظ کے اعتبار سے سب سے مالدار زبان ہے۔ لیکن اس تصور کے لیے اس کے پہلو میں کوئی لفظ نہیں جو اسلام پیش کرنا چاہتا ہے۔ ویسے عربی زبان میں موت کے لیے پچیس الفاظ مستعمل ہیں ‘ لیکن ان تمام الفاظ میں یہ مفہوم پایا جاتا ہے کہ موت مکمل فنا ہوجانے کا نام ہے۔ لیکن اسلام نے جب یہ بتایا کہ موت مکمل فنا ہونے اور بالکل ختم ہوجانے کا نام نہیں ہے کہ جس میں دوسری زندگی کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہو ‘ بلکہ موت اس زندگی سے واپس بلانے کا نام ہے اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ جب مرنے والے کو اٹھا کر اللہ کی بارگاہ میں زندگی کا حساب دینے کے لیے کھڑا کیا جائے گا کیونکہ اسلام کی نگاہ میں موت بقول اقبال تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے ؎ موت تجدید مذاق زندگی کا نام ہے خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے بلکہ اسلام کی نگاہ میں مکمل فنا تو اللہ سے کٹ جانے کے مترادف ہے اور یہ بات عقل و دانش اور اسلامی مزاج کے سراسرخلاف ہے۔ اقبال نے اسی سلسلے میں کیسی خوبصورت بات کہی ہے ؎ یہ نقطہ میں نے سیکھا بو الحسن سے کہ جاں جاتی نہیں مرگ بدن سے چمک سورج میں کیا باقی رہے گی اگر بیزار ہو اپنی کرن سے چناچہ قرآن کریم نے جب موت کے بارے میں اپنا تصور پیش کیا تو اس کے لیے ایک نیا لفظ (تَوَفِّی) دیا اور اسی سے بننے والا لفظ (وفات) ہے ‘ جو اردو میں عام استعمال ہوتا ہے۔ یہ لفظ عربی زبان میں پہلے نہیں تھا۔ یہ قرآن کریم کا عطیہ ہے ‘ جو اس نے عربی زبان کو عطا کیا۔ اس لفظ نے موت کا ایک نیا تصور دیا۔ ایک دوسری مثال دیکھیے۔ ہم ارض و سما کا عام استعمال کرتے ہیں۔ یعنی زمین و آسمان۔ آپ کے لیے یہ بات حیران کن ہوگی کہ قرآن کریم نے ہمیں یہ بتایا کہ اللہ نے جس طرح سات آسمان بنائے ہیں ‘ اسی طرح سات زمینیں بھی بنائی ہیں۔ لیکن عجیب بات ہے کہ قرآن کریم جا بجا سمٰوٰت ” سما “ کی جمع کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ لیکن ارض کی جمع اس نے پورے قرآن کریم میں ایک دفعہ بھی استعمال نہیں کی حالانکہ عربی زبان میں ارض کی جمع اراضی مستعمل ہے۔ لیکن ساتھ ہی فصحائے عرب یہ بھی کہتے ہیں کہ اراضی غیر فصیح لفظ ہے حالانکہ عربی کی ساری کتابوں میں اسے استعمال کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم چونکہ ہر عیب سے پاک ہے ‘ اس لیے قرآن کریم نے اسے کہیں استعمال نہیں کیا اور جہاں ضرورت پڑی ‘ وہاں بھی اس لفظ کی جمع استعمال کرنے کی بجائے واحد ہی استعمال کیا گیا اور جمع کے معنی پیدا کرنے کے لیے خوبصورت عبارت آرائی سے کام لیا گیا۔ مثلاً قرآن کریم نے جب یہ بتانا چاہا کہ اللہ نے جس طرح سات آسمان پیدا فرمائے ہیں ‘ اسی طرح سات زمینیں بھی پیدا کی ہیں۔ اب ضرورت تھی کہ زمینوں کے لیے جمع کا لفظ لایا جاتا۔ لیکن دیکھیے قرآن کریم کیا کہتا ہے : اَﷲُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَھُنَّ اللہ وہ ہے ‘ جس نے پیدا کیے سات آسمان ‘ اب اس کے بعد ہونا چاہیے تھا خَلَقَ سَبْعَ اَرَضِیْ اور پیدا کیں سات زمینیں ‘ لیکن دیکھیے آیت کریمہ میں الارض کا واحد لفظ لایا گیا اور یہ فرمایا گیا کہ ” اللہ وہ ہے ‘ جس نے پیدا کیے سات آسمان اور زمینیں بھی اتنی “ (الطلاق : 12) یہاں اس نے الارض کو واحد استعمال کیا ‘ لیکن عبارت آرائی سے وہ مفہوم پیدا کردیا تاکہ قرآن کریم میں غیر فصیح لفظ کے استعمال کا الزام نہ آئے۔ اس سے آپ اندازہ فرما سکتے ہیں کہ کیا یہ شان کسی انسانی کلام کی ہوسکتی ہے ؟ قرآن میں انسانی اصلاح و فلاح کی تمام ہدایات موجود ہیں 2 قرآن کریم کا دوسرا پہلو انسانی اصلاح و فلاح کے لیے اس کا پیش کردہ نظام زندگی ہے ‘ جس میں آئین و قانون سے لے کر آداب زندگی تک سب کچھ شامل ہے۔ اس میں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس میں انفرادی اور اجتماعی زندگی سمیت زندگی کے ایک ایک شعبے کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ پھر تمام کی بہتری کے لیے احکام اور ہدایات دی گئی ہیں۔ قوموں کے عروج وزوال کے اصول وضع کیے گئے ہیں۔ قومی اور بین الاقوامی آداب تک کا ذکر کیا گیا ہے۔ انسانی نفسیات احساسات اور انفعالات تک کو زیر بحث لایا گیا ہے اور نہایت حکیمانہ ہدایات عطا فرمائی گئی ہیں غرضیکہ پوری زندگی کی راہنمائی کے لیے ایک اچھوتے انداز میں مکمل نظام زندگی عطا فرمایا گیا ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ زندگی کے اس پورے نظام میں کیا مجال ہے ‘ جو کہیں تضاد دکھائی دے ‘ کہیں ادھورے پن اور نا رسائی کا احساس ہو اور کہیں انسان کو ہدایات دیتے ہوئے طبقات کے احساسات کو درآنے کا موقع دیا گیا ہو۔ جب کہ ہم مختلف ممالک اور مختلف قوموں کی آئینی اور قانونی کاوشوں کو دیکھتے ہیں کہ آئے دن تغیر کا شکار ہوتی ہیں۔ ہمارے ملک میں 73 ء کا آئین بنا۔ آئین بنانے والے ابھی تھکاوٹ ہی اتار رہے تھے کہ اس میں ترامیم کا سلسلہ بھی چل نکلا اور آج تک یہ سلسلہ نہ صرف رکنے نہیں پایا بلکہ وقت کے ساتھ فزوں تر ہوتا جا رہا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ انسانی کاوشیں ‘ نا تمامی اور نا رسائی کا ہمیشہ شکار رہتی ہیں ‘ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا احساس ابھرتا ہے اور تغیر کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ لیکن قرآن کریم کیونکہ اللہ کی کتاب ہے ‘ اس کا ہر قانون قطعی ‘ اس کی ہر ہدایت مکمل اور اس کا ہر محاکمہ وقت کی آلودگی سے بےنیاز ہے۔ قرآن کے وحی الٰہی ہونے کا سب سے بڑا ثبوت اس کی پیشین گوئیاں ہیں 3 قرآن کریم کا تیسرا پہلو اس کی پیش کردہ پیش گوئیاں ہیں ‘ جن میں علمی بھی ہیں اور واقعاتی بھی۔ ہم علمی پیش گوئیوں کو ابھی زیربحث نہیں لاتے البتہ واقعاتی پیش گوئیوں کے حوالے سے ایک دو واقعے عرض کرتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کی بعثت مبارکہ کے بعد قیصر وکسریٰ یعنی سلطنتِ ایران اور سلطنت روما کے درمیان ہونے والی جنگ سے ہر پڑھا لکھا آدمی واقف ہے۔ اس جنگ نے چند سالوں میں پوری رومی سلطنت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ایرانی فوج ایک طرف تو عرب کے ہمسائے میں یعنی شرق اردن تک پہنچ گئی اور دوسری طرف قسطنطنیہ کے سامنے اس کی فوجوں نے پڑائو ڈال دیا۔ رومی سلطنت کے شہنشاہ ہرقل نے نہایت ذلیل شرائط پر صلح کرنے کی کوشش کی ‘ لیکن ایران کا بدمست حکمران اس پر بھی تیار نہ ہوا۔ حالات پر نظر رکھنے والے پیش گوئیاں کر رہے تھے کہ اب سلطنت روما کے دن گنے جا چکے ہیں۔ عین ان حالات میں سورة روم نازل ہوتی ہے اور اس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ رومی تمہاری قریبی سرزمین میں مغلوب ہوگئے ‘ لیکن چند ہی سالوں میں وہ اس مغلوبیت سے اٹھیں گے اور دوبارہ ایران پر غالب آجائیں گے۔ اس آیت کے نازل ہوجانے کے بعد مشرکینِ مکہ نے اس کا خوب مذاق اڑایا۔ لیکن چند ہی سالوں میں حالات کا رخ بدلا اور وہ رومی سلطنت ‘ جس کے مستقبل کے بارے میں مایوسی کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ اس کا حکمران ‘ ملک کے عقبی حصے سے فوجیں لے کر نکلا اور ایران کو فتح کرتا ہوا ‘ اس کے دارالخلافہ تک پہنچ گیا۔ حتیٰ کہ اس کو جلا کر خاکستر کر ڈالا۔ آج تک عیسائی مئورخین اس بات پر حیران ہیں کہ محمد ﷺ مکہ معظمہ میں تشریف فرما تھے ‘ جو دنیا کا ایک کونا ہے ‘ وہاں تک کوئی اطلاع پہنچتے پہنچتے مہینے لگ جاتے تھے۔ نجانے اس کے پاس اطلاعات کا کون سا ذریعہ تھا ‘ جس ذریعہ پر اعتماد کرتے ہوئے اس نے ایک حیرت انگیز پیش گوئی کی جس کو اس وقت کوئی عقل مند آدمی قبول کرنے کو تیار نہ تھا ‘ لیکن وہ حرف بحرف پوری ہوئی۔ اے کاش ! ان کو یہ خبر ہوتی کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس اطلاعات کا ذریعہ اللہ کی وحی تھی کیونکہ آپ اللہ کے رسول تھے۔ آپ اندازہ فرمایئے کہ اگر یہ کتاب اللہ کی طرف سے نازل کردہ نہ ہوتی تو اس میں ایسی محیر العقول پیش گوئی کس طرح ممکن تھی۔ دوسری مثال دیکھیے کہ قرآن کریم نے فرعون کے بارے میں یہ بتایا کہ اسے اس کی فوجوں سمیت بحر قلزم میں غرق کردیا گیا۔ لیکن اس کے جسم کو ہم نے نجات دے دی تاکہ وہ بعد کے لوگوں کے لیے عبرت کا سامان بنا رہے۔ اس طرح قرآن کریم نے اس کے جسم کے محفوظ ہونے کی خبر دی ‘ لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس کا جسم کہاں ہے۔ غیر مسلم مئورخین ہمیشہ اس کا مذاق اڑاتے رہے کہ قرآن کریم نے یہ غلط خبر دی ہے ورنہ کہیں تو اس کا جسم موجود ہوتا۔ لیکن تقریباً آج سے پونے دو سو سال پہلے جب اہرام مصر کی کھدائی ہوئی ‘ اس میں بعض دوسرے فراعنہ سمیت اس کی لاش بھی ملی اور ماہرین نے اس کی علامتوں سے واضح طور پر اندازہ کرلیا کہ یہ وہی فرعون ہے ‘ جو موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں بحر قلزم میں غرق ہو کر مرا تھا اور آج اس کی لاش قاہرہ کے عجائب گھر میں موجود ہے۔ اس سے آپ اندازہ فرمایئے کہ تقریباً ڈیڑھ ہزار سال پہلے ‘ جس بات کی خبر قرآن کریم نے دی تھی ‘ وہ کس طرح صحیح ثابت ہوئی۔ کیا کسی انسان کے بس میں یہ بات ہوسکتی ہے کہ وہ دو ہزار سال پہلے کا ایک واقعہ اس طرح حتمی انداز میں پیش کرے ‘ جب کہ پوری دنیائے انسانیت اس سے بالکل بیخبر ہو اور بالآخر ڈیڑھ ہزار سال کی تاریخ کا نشیب و فراز اس کو صحیح ماننے پر مجبور ہوجائے۔ یہ قرآن کریم کے کتاب اللہ ہونے کے وہ حتمی دلائل ہیں ‘ جس کا انکار کرنا کم از کم ایک صاحب عقل و دانش آدمی کے لیے ممکن نہیں۔ ذہنوں میں پھر اس بات کو تازہ کرلیجئے کہ مشرکینِ مکہ نے مطالبہ اس بات کا کیا تھا کہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں ‘ اس پر کسی کی گواہی لایئے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ معاملہ چونکہ صفاتِ خداوندی کا ہے ‘ اس لیے اس پر کسی کو گواہی دینے کا اگر حق ہے تو وہ خود پروردگار عالم ہے۔ اس کی گواہی ‘ صرف وحی الٰہی کی صورت میں ممکن ہے اور آج ہمارے سامنے وحی الٰہی کی حامل زندہ کتاب قرآن کریم کی شکل میں موجود ہے۔ رہی یہ بات کہ یہ کتاب واقعی وحی الٰہی کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے اور یہ واقعی کتاب اللہ ہے تو یہ اس کے یقینی دلائل میں سے چند دلائل ہیں ‘ جو آپ کے سامنے ذکر کیے گئے ہیں اور جس کا انکار کرنا کسی کو رباطن ہی کا کام ہوسکتا ہے۔ چناچہ دلائل کے ذکر کرنے کے بعد آنحضرت ﷺ سے کہا جا رہا ہے کہ مشرکینِ مکہ سے پوچھو کہ کیا تم اب بھی یہ گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی اور معبود بھی ہے اور اگر واقعی تم ایسی گواہی دیتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم ہٹ دھرمی اور کٹ حجتی میں وہاں تک پہنچ گئے ہو ‘ جہاں انسان انسان نہیں رہتا بلکہ دیوار بن جاتا ہے۔ اسے سمجھانا دیوار سے سر پٹخنے کے برابر ہوجاتا ہے۔ اس لیے میں تمہاری اس گواہی کی کوئی قدر و قیمت نہیں سمجھتا۔ تم اگر اس انتہائی خست تک پہنچ گئے ہو کہ اندھیرے اور اجالے میں فرق کرنے سے عاجز ہوگئے ہو تو پھر میں تمہارا ساتھ دینے سے تو رہا۔ میں تو وہ بات کہوں گا ‘ جس کا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کیونکہ میں نے دلائل سے ثابت کردیا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور رسول صرف وہ بات کہتا ہے ‘ جس کا حکم اس کا پروردگار دیتا ہے۔ میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اس کائنات کا ایک ہی معبود ‘ ایک ہی الٰہ اور ایک ہی حاکم حقیقی ہے اور تم نے جتنے شریک ٹھہرا رکھے ہیں ‘ چاہے وہ دیوتا ہوں ‘ ملائکہ ہوں ‘ گزری ہوئی برگزیدہ شخصیات ہوں یا تمہاری اٹھائی ہوئی قبریں ‘ میں ان تمام سے اپنی برأت اور بیزاری کا اعلان کرتا ہوں۔ اس طرح رسول اللہ ﷺ کی معرفت سے پروردگار نے مشرکینِ مکہ پر حجت تمام فرما دی۔ اب ان کے لیے اس بات کا کوئی موقع نہیں رہا کہ وہ قیامت کے دن یہ کہہ سکیں کہ ہمارے سامنے حق کے اظہار میں کوئی کمی رہ گئی تھی ‘ جس کی وجہ سے ہم حق کا راستہ اختیار نہ کرسکے۔ چناچہ پوری استدلالی قوت سے ان کے شکوک و شبہات کے کانٹے بھی نکال دیئے گئے اور انذار کے ذریعہ سے پوری طرح انھیں جھنجھوڑ بھی دیا گیا۔ قرآن کی دعوت پھیلانے کا ذمہ دار ہر مسلمان ہے اسی آیت کے ضمن میں ایک اور لفظ بھی ذکر فرمایا گیا ہے ‘ جس کا تعلق مشرکینِ مکہ سے نہیں بلکہ بعد میں آنے والی امت اسلامیہ سے ہے۔ وہ لفظ ہے ” وَمَنْم بَلَغَ “ یعنی اس دعوت کے مخاطب اور اس اتمام حجت کا ہدف صرف مشرکینِ مکہ نہیں بلکہ آنے والی نوع انسانی کے افراد اور بالخصوص امت اسلامیہ ہے۔ علماء نے اس کے دو مفہوم مراد لیے ہیں۔ ایک تو یہ کہ میں قرآن کریم کے ذریعے جو دعوت دے رہا ہوں ‘ وہ صرف مشرکینِ مکہ تک محدود نہیں بلکہ قیامت تک جس جس شخص تک یہ قرآن کریم اور اس کی دعوت پہنچے ‘ وہ بھی میرا مخاطب ہے۔ اس لیے سعید بن جبیر ( رح) نے فرمایا کہ جس آدمی تک قرآن پہنچ جائے ‘ اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھ لیا کیونکہ وہ براہ راست اس قرآن کریم کے واسطہ سے آنحضرت ﷺ کی دعوت کا مخاطب ہے۔ اس لیے امت اسلامیہ کے ایک ایک فرد کے یہ سوچنے کی بات ہے کہ میں اپنے گھر میں جو قرآن کریم کو ایک اونچے طاق پر سجا کر یہ سمجھ لیتا ہوں کہ میں نے قرآن پاک کا حق ادا کردیا ‘ اصلاً اس کے واسطے سے حضور ﷺ مجھ سے مخاطب ہیں اور وہ پوچھ رہے ہیں کہ میں نے اس قرآن کے واسطے سے جن جن باتوں کا تمہیں حکم دیا اور جن جن باتوں کی طرف توجہ دلائی تھی ‘ کیا تم نے ان تمام باتوں کو زندگی میں داخل کرلیا ہے اور کیا تمہاری زندگی واقعی اس کتاب خداوندی کی ہدایات کے مطابق گزر رہی ہے ؟ دوسرا اس کا مفہوم جو علماء نے سمجھا وہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ قرآن کریم کے واسطے سے یہ فرما رہے ہیں کہ میری طرف جو قرآن کریم وحی کیا گیا ‘ وہ اس لیے کیا گیا ہے تاکہ میں اس کے ذریعہ سے لوگوں کو خبردار کروں کہ دیکھنا اگر تم نے زندگیاں اس ہدایت خداوندی سے آزادہو کر گزاریں تو یہ زندگی بھی تباہ ہوجائے گی اور آخرت میں بھی برے انجام سے واسطہ پڑے گا۔ لیکن یہ ذمہ داری صرف میری نہیں ‘ بلکہ یہ ذمہ داری میں آگے منتقل کر رہا ہوں کہ آج یہ دعوت پیش کرنے کی ذمہ داری اور اللہ کے دین کے نفاذ کی ذمہ داری جو میں ادا کر رہا ہوں یہ ہر اس شخص کی ذمہ داری ہے ‘ جس تک یہ اللہ کی کتاب پہنچے۔ اس کا فرض ہے کہ وہ اس کتاب کو سمجھے ‘ سیکھے دوسروں تک پہنچائے ‘ اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرے ‘ اس کی تعلیمات کو حرز جان بنائے ‘ معاشرے میں اس کا چلن عام کرنے کے لیے اپنا رول ادا کرے ‘ اجتماعی زندگی میں اس کے نفاذ کا راستہ کھولنے کے لیے تمام امکانی مساعی کو بروئے کار لائے اور اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو یہ ذمہ داری سے پہلو تہی کرنے والی بات ہوگی ‘ جس کی کل کو جواب دہی کرنی پڑے گی۔ اس لحاظ سے قرآن کریم اور اس کی دعوت کا ایک ایک شخص کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ اس ذمہ داری کا ذکر قرآن کریم میں مختلف حوالوں سے اور بھی کئی جگہ کیا گیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے : فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَآئِفَۃٌلِیَتَفَقَّھُوْا فِیْ الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْآ اِلَیْھِمْ (ایسا کیوں نہ ہوا کہ ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلتی ‘ تاکہ وہ دین میں سمجھ پیدا کرے اور پھر وہ واپس اپنے گروہ کی طرف لوٹتی ‘ تاکہ وہ انھیں خبردار کرے) (التوبہ : 122) ” فرقہ “ کہتے ہیں بڑی جماعت اور بڑے گروہ کو اور ” طائفہ “ سے مراد ہے چھوٹی جماعت۔ کہنا یہ ہے کہ جہاں بھی مسلمانوں کا کوئی گروہ آباد ہے یا کوئی بستی قائم ہے ‘ اس گروہ اور اس بستی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے میں سے ایک اچھی خاصی تعداد کو دین میں تفقہ پیدا کرنے اور گہری سمجھ پیدا کرنے کے لیے ‘ اہل علم کے پاس بھیجے اور وہاں سے وہ اللہ کے دین کو سمجھ کر یعنی قرآن و سنت کو سیکھ کر واپس آئے اور وہ اس گروہ یا اس بستی کے رہنے والوں کو اللہ کے احکام سے باخبر کرے ‘ ان کے غلط کاموں پر انھیں ٹوکے ‘ صحیح باتوں کا حکم دے ‘ اس طرح ان کی زندگی میں اصلاح کے عمل کو رواج دے تاکہ ان کی دنیا بھی اچھی ہو اور آخرت بھی سرخرو ہو سکے۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ امت کے ایک ایک فرد ‘ ایک ایک بستی اور ایک ایک گروہ پر وہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے ‘ جس کی ادائیگی کے لیے اللہ کے نبی دنیا میں تشریف لاتے رہے اور آنحضرت ﷺ کے بعد چونکہ کسی پیغمبر کو آنا نہیں تھا ‘ اس لیے رسول اللہ ﷺ اس معاملے میں زیادہ فکر مند رہتے تھے اور آپ مختلف اوقات میں اپنی امت کو اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے تاکید فرماتے تھے۔ ایک موقع پر فرمایا کہ لوگو ! تم میں سے جو موجود ہے ‘ اسے میری یہ باتیں اور دین کے احکام ان لوگوں تک پہنچانے چاہئیں جو یہاں موجود نہیں اور ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ ممکن ہے کہ تم جن لوگوں تک میرے احکام پہنچائو ‘ وہ ان احکام کو سمجھنے اور اس کی ذمہ داری ادا کرنے میں تم سے زیادہ باصلاحیت ثابت ہوں۔ یہی بات پیش نظر آیت کریمہ میں بھی کہی گئی ہے کہ جن لوگوں تک بھی قرآن کریم کی دعوت پہنچے ان لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن کریم کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کے پیغام کو خود اختیار کریں اور اپنے گھروں میں اس کا چلن عام کردیں اور اس کو اپنے گھروں اور اپنے معاشرے میں یہ حیثیت دے دیں کہ جب بھی رہنمائی کا موقع ہو قرآن کریم مختلف زبانوں اور مختلف حوالوں سے بولتا ہوا سنائی دے۔ بڑے غلطی کریں تو چھوٹے اسی قرآن کریم کی مدد سے توجہ دلائیں اور چھوٹے اگر کو تاہیاں کریں تو بڑے اسی تعلیم کی روشنی میں ان کو راہ راست دکھائیں اور ضرورت پڑے تو ان کی سرزنش بھی کریں۔ قرآن کریم سے متعلق ہمارا طرز عمل کیا ہونا چاہیے ؟ قرآن کریم کے حوالے سے اگر امت کے ہر فرد کی واقعی یہی ذمہ داری ہے ‘ جیسا کہ ہم یہاں دیکھ رہے ہیں تو یہ ذمہ داری ظاہر ہے کہ نہ تو صرف قرآن کریم کی تلاوت سے پوری ہوسکتی ہے اور نہ صرف تراویح میں سن لینے سے اس کا حق ادا ہوسکتا ہے اور نہ کبھی کبھی مختلف مجالس میں کسی وعظ کے سن لینے سے یا مختلف مواقع پر چند آیات کا ایک مختصر سا کورس کرا دینے سے یہ ذمہ داری ادا ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے تو انتہائی ضروری ہے کہ پورے قرآن پاک کو اس طرح سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ بیشک اس کے عربی الفاظ پر گرفت نہ ہو سکے ‘ لیکن اس کا مفہوم ‘ اس کی مراد ‘ پوری طرح ذہن نشین ہوجائے۔ بالخصوص اس کے احکام کو اچھی طرح ازبر کرلیا جائے تاکہ زندگی میں اس کی خلاف ورزی کم از کم بیخبر ی کی وجہ سے تو نہ ہو سکے۔ یہ جو کچھ کہا جا رہا ہے حقیقت یہ ہے کہ اس میں سے کوئی بات بھی مشکل نہیں ‘ جسے ہم اختیار نہ کرسکتے ہوں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہمارے اندر وہ احساس پیدا ہوجائے ‘ جس کا کبھی علامہ اقبال نے سید سلیمان ندوی مرحوم کو اپنے بچپن کا واقعہ سناتے ہوئے ذکر کیا تھا۔ اقبال نے کہا کہ میں بچپن ہی سے قرآن پاک کو بہت شوق اور خوش الحانی کے ساتھ ہر صبح کو نماز کے بعد تلاوت کرنے کا عادی رہا ہوں۔ ایک روز اسی طرح میں قرآن پاک کی تلاوت کر رہا تھا کہ میرے والد میرے پاس سے گزرے اور کہنے لگے کہ بیٹے ‘ جب میں تمہیں قرآن پاک پڑھتا ہوا دیکھتا ہوں تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ تمہیں کسی دن ایک خاص بات بتائوں۔ میں نے کہا ضرور فرمایئے۔ چند دن گزر گئے تو میں نے ایک دن اصرار کر کے پوچھا کہ بابا آپ کہتے تھے کہ میں کسی دن ایک بات بتائوں گا تو آج بتایئے نا۔ کہنے لگے کہ بیٹے ایسی کوئی خاص بات نہیں صرف یہ کہنا تھا کہ جب بھی تم قران کریم پڑھو تو یہ سمجھ کر نہ پڑھنا کہ یہ کتاب چودہ سو سال پہلے نازل ہوئی تھی بلکہ یہ سمجھ کر پڑھنا کہ میں اس وقت جو کچھ پڑھ رہا ہوں ‘ وہ اس وقت مجھ پر نازل ہو رہا ہے اور میں خود اسکا مخاطب ہوں یعنی اسکا ایک ایک حکم میرے لیے ہے ‘ اس کی ایک ایک ہدایت مجھ سے مخاطب ہے ‘ اس کی ایک ایک نصیحت میری اصلاح کے لیے ہے۔ جب تم ایسا کرو گے تو تمہاری زندگی میں ایک تبدیلی آئے گی۔ شاید یہی وہ احساس ہے ‘ جس کے ذیر اثر اقبال نے یہ شعر کہا ؎ ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب گرہ کشا ہے رازی نہ صاحب کشاف (بال جبریل) قرآن کریم سے متعلق اپنی ذمہ داریاں کیسے ادا کی جاسکتی ہیں جب اس امت کا ایک ایک فرد قرآن کریم کو اس طرح پڑھے کہ وہ خود اس سے مخاطب ہے اور براہ راست اسے احکام دے رہا ہے تو اس سے وہ جو گہرا اثر قبول کرے گا ‘ وہ تو اپنی جگہ ‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے یہ شدید احساس بھی ہوگا کہ قرآن کریم کے حوالے سے جتنی بھی ذمہ داریاں ہوسکتی ہیں ‘ (اس کا ذکر پہلے ہو بھی چکا ہے) میں ان سب کا مخاطب ہوں۔ اس لیے یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں معاشرے میں جس حیثیت کا بھی مالک ہوں اور ماحول میں میرا جو مقام بھی ہے ‘ میں اس کے حوالے سے اپنا فرض انجام دینے کی کوشش کروں۔ امت میں ظاہر ہے کہ ہر سطح کے لوگ ہیں۔ غریب بھی ہیں ‘ امیر بھی۔ عالم بھی ہیں ‘ جاہل بھی ‘ محکوم بھی ہیں ‘ حاکم بھی۔ موثر بھی ہیں ‘ متأثر بھی۔ انفرادی زندگی گزارنے والے بھی ہیں ‘ اجتماعی اداروں کو چلانے والے بھی۔ حتیٰ کہ صاحبان اقتدار بھی۔ اگر ان میں سے ایک ایک فرد اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے تو پورے ملک اور پورے معاشرے میں نہ تو قرآن کریم کی بالا دستی میں کوئی رکاوٹ حائل ہوسکتی ہے اور نہ معاشرے کی اصلاح میں کوئی تاخیر ممکن ہے۔ اس لیے مَنْم بَلَغَ کہہ کر قرآن کریم نے ہماری اصلاح و کامرانی کی ایک ایسی ماسٹر کی (چابی) ہمارے حوالے کردی ہے ‘ جس سے ہم اپنے مسائل اور اپنی الجھنوں کا ایک ایک ایک تالہ کھول سکتے ہیں اور اپنی قسمت بنانے اور سنوارنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ گزشتہ آیت کی تفسیر میں ہم یہ عرض کرچکے ہیں کہ مشرکینِ مکہ کے کچھ لوگوں نے آنحضرت سے جب گواہی طلب کی تھی تو یہ بھی کہا تھا کہ ہم تو آپ اور آپ کے دین کے بارے میں اہل کتاب سے بھی پوچھ چکے ہیں ‘ انھیں صاف انکار ہے کہ ہم آپ کے بارے میں اپنی کتابوں میں کوئی چیز نہیں پاتے۔ چناچہ اسی حوالے سے اگلی آیت کریمہ میں اس کا جواب دیا گیا ہے۔
Top