Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 25
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُ اِلَیْكَ١ۚ وَ جَعَلْنَا عَلٰى قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ یَّفْقَهُوْهُ وَ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَقْرًا١ؕ وَ اِنْ یَّرَوْا كُلَّ اٰیَةٍ لَّا یُؤْمِنُوْا بِهَا١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْكَ یُجَادِلُوْنَكَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان سے مَّنْ : جو يَّسْتَمِعُ : کان لگاتا تھا اِلَيْكَ : آپ کی طرف وَجَعَلْنَا : اور ہم نے ڈالدیا عَلٰي : پر قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل اَكِنَّةً : پردے اَنْ : کہ يَّفْقَهُوْهُ : وہ (نہ) سمجھیں اسے وَ : اور فِيْٓ اٰذَانِهِمْ : ان کے کانوں میں وَقْرًا : بوجھ وَاِنْ : اور اگر يَّرَوْا : وہ دیکھیں كُلَّ : تمام اٰيَةٍ : نشانی لَّا يُؤْمِنُوْا : نہ ایمان لائیں گے بِهَا : اس پر حَتّٰٓي : یہانتک کہ اِذَا : جب جَآءُوْكَ : آپ کے پاس آتے ہیں يُجَادِلُوْنَكَ : آپ سے جھگرتے ہیں يَقُوْلُ : کہتے ہیں الَّذِيْنَ : جن لوگوں نے كَفَرُوْٓا : انہوں نے کفر کیا اِنْ : نہیں هٰذَآ : یہ اِلَّآ : مگر (صرف) اَسَاطِيْرُ : کہانیاں الْاَوَّلِيْنَ : پہلے لوگ (جمع)
اور ان میں ایسے بھی ہیں ‘ جو تمہاری بات پر کان لگاتے ہیں لیکن ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں کہ اس کو نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں بہرہ پن پیدا کردیا ہے کہ ( اسکو نہ سن سکیں) اور اگر وہ ہر قسم کی نشانیاں دیکھ لینگے تو بھی ان پر ایمان نہیں لائیں گے ‘ یہاں تک کہ جب یہ تمہارے پاس حجت کرتے آئیں گے تو یہ کافر کہیں گے کہ یہ تو اگلوں کا فسانہ ہے
گزشتہ آیات میں اسلام کے بنیادی عقائد بالخصوص توحید پر قرآن کریم نے جس طرح نہایت مثبت دلائل دیئے ہیں ‘ اس سے زچ ہو کر مشرکینِ مکہ نے آخر یہ کہا کہ تم جو کچھ ہم سے کہہ رہے ہو اور جس طرح نبوت کا دعویٰ کر رہے ہو ‘ کیا اس پر تمہارے پاس کوئی شہادت اور کوئی ایسی گواہی موجود ہے کہ جو ہمارے لیے بھی قابل قبول ہو اور ہم اس کے نتیجے میں اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہوجائیں ؟ چناچہ اس کے جواب میں پروردگار نے قرآن کریم کو بطور گواہی کے پیش کیا اور بتایا کہ اللہ کا کوئی شریک ہے یا نہیں ‘ اس کا اصل جواب یا اس کی اصل گواہی تو خود پروردگار کی ذات ہے کیونکہ وہی بتاسکتا ہے کہ اس نے کسی کو اپنے اختیارات میں شریک کیا ہے یا نہیں۔ لیکن اللہ کی گواہی دنیا میں چونکہ وحی الٰہی سے ممکن ہے اور آج اللہ کی وحی قرآن کریم کی صورت میں نازل ہو رہی ہے ‘ اس لیے قرآن کریم کی گواہی ہی اصل میں اللہ کی گواہی ہے۔ اتنی واضح ‘ حتمی اور قطعی شہادت کے بعد بھی ان لوگوں نے اپنا رویہ نہ بدلا تو قرآن کریم نے اس کو سب سے بڑا ظلم قرار دیا اور انھیں ان کے انجام سے ڈرایا۔ لیکن اس وقت پیش نظر آیت کریمہ میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ مشرکینِ مکہ کا مجموعی رویہ تو نہایت مایوس کن ہے، لیکن ان میں بظاہر کچھ لوگ آپ کے پاس قرآن کریم کی ہدایات کو سننے کے لیے بھی آتے ہیں۔ دیکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ یہ شاید ہدایت قبول کرنے کے لیے حاضر ہوئے ہیں ‘ لیکن حقیقت میں ان کا ارادہ کچھ اور ہوتا ہے۔ بظاہر وہ بہت قریب ہو کر سنتے ہیں ‘ لیکن ہدایت سے پھر بھی دور رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں ارشاد فرمایا جا رہا ہے : وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُ اِلَیْکَ ج وَجَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِھِمْ اَکِنَّۃً اَنْ یَّفْقَھُوْہُ وَ فِیْ اٰذَانِھِمْ وَقْرًا ط وَاِنْ یَّرَوْا کُلَّ اٰیَۃٍ لَّا یُؤْمِنُوْا بِھَاط حَتّٰٓی اِذَا جَآئُوْکَ یُجَادِلُوْنَکَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ ۔ (الانعام : 25) (اور ان میں ایسے بھی ہیں ‘ جو تمہاری بات پر کان لگاتے ہیں۔ لیکن ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں ‘ کہ اس کو نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں بہرہ پن پیدا کردیا ہے ‘ کہ اس کو نہ سن سکیں اور اگر وہ ہر قسم کی نشانیاں دیکھ لیں گے تو بھی ان پر ایمان نہیں لائیں گے ‘ یہاں تک کہ جب یہ تمہارے پاس حجت کرتے آئیں گے تو یہ کافر کہیں گے کہ یہ تو اگلوں کا فسانہ ہے) مشرکینِ مکہ کا مجموعی طرز عمل اور اس کے اسباب آیت کی وضاحت سے پہلے ہم اس کے چند الفاظ کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں ” اَکِنَّۃً “ کِن اور کنان کی جمع ہے۔ اس کے معنی پردہ اور ڈھکنے کے ہیں اور ” وَقْرًا “ بوجھ ‘ ثقل ‘ گرانی اور بہرہ پن کو کہتے ہیں۔ یہاں اس پردے اور گرانی سے معنوی اور روحانی پردہ اور گرانی مراد ہے ‘ جو دلوں اور کانوں کو سننے اور سمجھنے سے محروم کر دے۔ اس آیت کریمہ میں قلوب کی نسبت سے اَنْ یَّفْقَھُوْہُ کو ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی انکے دلوں پر پردہ ڈال دیا گیا ہے تاکہ وہ بات کو سمجھ نہ سکیں۔ لیکن ” آذان “ یعنی کانوں کی نسبت سے فعل ذکر نہیں کیا گیا۔ یہ قرآن کریم کا ایک خاص اسلوب ہے کہ جو فعل خود بخود سمجھ آرہا ہو ‘ اسے عام طور پر حذف کردیا جاتا ہے۔ چناچہ یہاں ” اَنْ یَّسْمَعُوْہُ “ محذوف ہے کہ انکے کانوں میں گرانی پیدا کردی گئی ہے ‘ تاکہ وہ سن نہ سکیں۔ اب اس آیت کی وضاحت ملاحظہ فرمایئے اس آیت کریمہ میں مختلف باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں جسے ہم ایک ترتیب سے ذکر کرتے ہیں۔ حق کو تسلیم نہ کرنے والوں کا رویہ 1 مشرکینِ مکہ میں سے بعض لوگ آپ کے پاس آتے ہیں تو نہایت کان لگا کر آپ کی بات سنتے ہیں کیونکہ سماع صرف سننے کو اور استماع بہت غور سے سننے کو کہتے ہیں۔ ان کا یہ کان لگا کر سننا بظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ سمجھنے اور قبول کرنے کے ارادے سے آئے ہیں۔ لیکن اس آیت کے آخری حصے میں اس بات کو کھول دیا گیا ہے کہ یہ لوگ آپ کے پاس بات سمجھنے اور قبول کرنے کے لیے نہیں آتے بلکہ صرف اس لیے آتے ہیں کہ بات کو الجھائیں اور آپ سے کسی نہ کسی بات میں جھگڑا پیدا کریں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بات کے سننے کے نتیجے میں دو رویے انسان میں پیدا ہوتے ہیں۔ اگر اس کے اندر خیر کا غلبہ غالب ہے تو وہ بات کو سن کر سمجھنے اور اس کے بعد قبول کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن جو آدمی خیر سے محروم ہوجاتا ہے ‘ وہ اس بات کا اظہار تو نہیں ہونے دیتا کہ میں بات کو سننا نہیں چاہتا ‘ بلکہ وہ اپنی بدنیتی کو چھپانے کے لیے کٹ حجتی اور فضول بحث سے کام لیتا ہے۔ سمجھانے والا یہ سمجھتا ہے کہ شاید اسے بات سمجھ نہیں آرہی ‘ اس لیے وہ اپنی پوری توانائی صرف کر ڈالتا ہے۔ لیکن اس کی نیت میں چونکہ فتورہوتا ہے ‘ اس لیے وہ بجائے سمجھنے کے نئی نئی باتیں نکالتا اور بالآخر ایک ہنگامہ کھڑا کردیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی کبھی کوئی مخاطب یا سامع یہ رویہ اختیار کرے تو ایک مبلغ کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ شخص محض وقت ضائع کرنا چاہتا ہے یا دوسرے لوگوں کے لیے غلط فہمیاں پیدا کر کے انھیں حق سے دور رکھنا چاہتا ہے۔ یہ جو کچھ کہا گیا ہے ‘ یہ محض مفروضہ نہیں ‘ بلکہ جس آدمی کو بھی کبھی تبلیغ و دعوت کا مرحلہ پیش آیا ہے ‘ اسے ایسی صورت حال سے ضرور واسطہ پڑتا ہے۔ دھیان دینے سے اللہ کسی کی سمجھنے کی طاقت کو سلب نہیں کرتا 2 دوسری بات اس آیت کریمہ میں یہ فرمائی جا رہی ہے کہ یہ لوگ بظاہر جو آپ کی طرف کان لگا کر سن رہے ہیں ‘ ممکن ہے آپ کو یہ خیال ہو کہ یہ شاید آپ کی بات کو سمجھ کر قبول کرنا چاہتے ہیں۔ حقیقت میں ایسا نہیں۔ اس لیے کہ ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں اور ان کے کانوں میں بہرہ پن پیدا کردیا ہے ‘ جس کے نتیجے میں نہ یہ بات سن سکتے ہیں ‘ نہ سمجھ سکتے ‘ ہیں اس لیے قبول کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس میں ایک نہایت توجہ طلب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دلوں پر پردہ ڈالنے اور کانوں میں گرانی پیدا کرنے کی نسبت اپنی طرف فرمائی۔ اس سے خود بخود یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ان کو ان بنیادی صلاحیتوں سے محروم کر کے قبولیت حق کے قابل نہیں رہنے دیا تو پھر ان کا اس میں قصور کیا ہے ؟ آدمی جب تک کسی بات کو سنتا اور سمجھتا نہیں ‘ ظاہر ہے اسے قبول کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور یہ لوگ اگر اس سے محروم کردیئے گئے ہیں تو پھر ان کے ایمان نہ لانے اور ہدایت کو اختیار نہ کرنے پر انھیں مجرم کیوں ٹھہرایا جا رہا ہے ؟ اس لیے سب سے پہلے اس بات کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔ بات یہ ہے کہ اللہ کا ایک قانون ہے جسے قرآن کریم میں ایک سے زیادہ مرتبہ ذکر کیا گیا ہے اور آنحضرت ﷺ نے اپنی آسان تعبیرات کے ذریعے اسے مزید سمجھایا ہے۔ وہ قانون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو متعدد صلاحیتیں دے کر پیدا فرمایا اور انسان کو اس سے کام لینے کے لیے آزاد چھوڑ دیا ہے۔ چناچہ وہ قوتیں اور وہ صلاحیتیں اس وقت تک کام کرتی ہیں ‘ جب تک آدمی ان قوتوں سے کام لیتا ہے۔ لیکن اگر وہ ان سے کام لینا چھوڑ دے یا ان سے غلط کام لینا شروع کر دے تو وہ قوتیں مفلوج ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر آدمی کے بازو میں پکڑنے ‘ مارنے ‘ مدافعت کرنے اور بوجھ اٹھانے جیسی قوتیں پیدا کی ہیں۔ یہ جب تک اپنے ہاتھ کو ایسے ہی کسی کام کے لیے استعمال میں لاتا رہتا ہے تو نہ صرف یہ کہ یہ ہاتھ ٹھیک کام کرتا ہے بلکہ اس کی قوت میں روزبروز اضافہ ہوتا رہتا ہے ‘ لیکن اگر وہ اسے عضو معطل بنا دے ‘ یعنی اسے کسی طرح باندھ کے رکھ دے کہ وہ حرکت نہ کرسکے تو چند روز کے بعد آپ دیکھیں گے کہ وہ ہاتھ مفلوج ہوجائے گا۔ بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ نے دل کو حق کو سمجھنے اور کانوں کو ہدایت کی بات سننے کی صلاحیت سے بہرہ ور فرمایا ہے۔ جب تک آدمی ان دونوں قوتوں سے سننے اور سمجھنے کا کام لیتا ہے اور صحیح کام لیتا ہے تو یہ دونوں قوتیں اپنا کام کرتی رہتی ہیں ‘ لیکن جب ان دونوں سے اس کا اصل کام نہیں لیتا یا سرے سے کام ہی نہیں لیتا تو اللہ کا وہ فطری قانون حرکت میں آتا ہے ‘ وہ ان دونوں قوتوں کو مفلوج کردیتا ہے۔ اس کے بعد بظاہر آدمی سنتا ہے ‘ لیکن وہ حقیقت میں نہیں سنتا۔ بظاہر آدمی کا دل حرکت کرتا ہے ‘ لیکن حقیقت میں وہ سمجھنے اور سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں قرآن کریم نے متعدد جگہ ارشاد فرمایا کہ ان کے دل ہیں ‘ لیکن وہ سمجھتے نہیں ‘ ان کے کان ہیں ‘ لیکن وہ سنتے نہیں یہ لوگ ڈنگروں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سننے اور سمجھنے کی صلاحیت سے بالکل محروم ہوجاتے ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ جو باتیں اصل میں سمجھنے کی اور سننے کی ہیں یعنی جن باتوں کا تعلق اللہ کی ہدایت سے ہے یہ لوگ ان باتوں کو سننے اور سمجھنے سے محروم ہوجاتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے ‘ جسے قرآن کریم نے مہر لگانے سے تعبیر کیا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اسے آسان کر کے سمجھایا۔ ارشاد فرمایا : کہ انسان کا دل ایک آئینہ کی مانند ہے ‘ جس میں نور اور آب و تاب ہے اور یہی وہ آب و تاب ہے ‘ جس سے وہ اللہ کی ہدایت کو سنتا اور سمجھتا ہے اور اسی کو قبولیتِ حق کی استعداد کہتے ہیں۔ جب ایک آدمی گناہ کرتا ہے تو اس کے آئینہ دل پر ایک داغ پڑجاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کرلیتا ہے تو یہ داغ مٹ جاتا ہے اور اگر وہ مسلسل گناہ کرتا رہتا ہے تو مسلسل داغ پڑنے کے باعث ایک دن ایسا آتا ہے کہ یہ آئینہ قلب بالکل بےنور ہو کے رہ جاتا ہے۔ جس طرح آئینہ اگر اپنی آب و تاب کھو دے اور زنگ آلود ہوجائے تو اس میں شکل دیکھی نہیں جاسکتی ‘ اسی طرح یہ آئینہ قلب جب داغ دار ہو کر بےنور ہوجاتا ہے تو اب اس میں کوئی حق کی بات داخل نہیں ہوسکتی اور یہ تبدیلی چونکہ اللہ کے قانون کے مطابق آتی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ اسے اپنی طرف منسوب فرماتے ہیں۔ 3 تیسری بات اس آیت کریمہ میں یہ فرمائی جا رہی ہے کہ یہ لوگ بار بار آپ سے معجزات ‘ یعنی نشانیاں دکھانے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اس سے پہلے ہم اسی سورة میں ان مطالبات میں سے چند ایک کا تذکرہ پڑھ بھی چکے ہیں۔ مثلاً ان کے مطالبات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اللہ کی طرف سے قرآن کریم ایک مطبوع اور مجلد شکل میں نازل ہونا چاہیے ‘ جسے ہم اپنے ہاتھوں سے چھو سکیں اور اپنی آنکھوں سے پڑھ سکیں۔ بلکہ نام بنام ہمیں مخاطب کیا جانا چاہیے کہ اس قرآن کریم کو قبول کرو۔ اسی طرح یہ بھی کہا گیا کہ آپ پر ایک فرشتہ اترنا چاہیے ‘ جو آپ کی حفاظت کرے۔ جب آپ باہر نکلیں تو ہٹو بچو کہتا ہوا آپ کا راستہ صاف کرے۔ اپنی خاص شکل و صورت میں لوگوں کو بتائے کہ یہ اللہ کے نبی ہیں۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ اللہ کا نبی عام انسانوں میں سے اٹھا دیا جائے اور وہ اللہ کا نمائندہ ہونے کے باوجود لوگوں کی گالیاں سنتا پھرے اور ان کی اذیتیں برداشت کرے۔ اسی طرح کے ان کے مطالبات تھے ‘ جس کا وہ وقتاً فوقتاً اظہار کرتے رہتے تھے۔ آنحضرت ﷺ چونکہ ان کے ایمان کے شدید خواہش مند رہتے تھے ‘ اس لیے طبعی طور پر یہ خواہش پیدا ہوتی تھی کہ یہ نشانیاں اگر انھیں دکھا دی جائیں تو شاید یہ مسلمان ہوجائیں۔ اس لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اگر انھیں دنیا جہان کی نشانیاں بھی دکھا دی جائیں تو بھی یہ کبھی مسلمان نہیں ہوں گے۔ اس لیے کہ اگر ان کا ایمان نشانیوں سے معلق ہے تو اس کائنات میں نشانیوں کی کیا کمی ہے ؟ یہ سورج کا چمکنا ‘ چاند کا دمکنا ‘ ستاروں کا جھلملانا ‘ کلیوں کا چٹکنا ‘ پانی کا بہنا ‘ آبشاروں کا گرنا ‘ بادلوں کا گرجنا ‘ زمین کا قوت روئیدگی سے مالا مال ہونا اور زمین پر مخملی فرش کا بچھ جانا اور گندم کا نقرئی لباس پہننا اور ایک بیج کا بڑھتے بڑھتے قد آور درخت بن جانا اور پھل دار درختوں کا شہد سے بھرے ہوئے پھلوں سے لد جانا ‘ ان میں سے کون سی چیز ہے ‘ جو اللہ کی نشانی نہیں ؟ اگر آدمی نشانی ہی سے اللہ اور اس کی ہدایت تک پہنچنا چاہتا ہے تو ان میں سے ایک ایک نشانی اس کے لیے کافی ہے۔ جو آدمی ان نشانیوں میں سے کسی سے فائدہ نہیں اٹھاتا ‘ اسے دنیا بھر کی نشانیاں بھی دکھا دی جائیں تو وہ کبھی راہ راست پر نہیں آئے گا۔ ذات باری تعالیٰ کی پہچان کے لیے کسی معجزے کی ضرورت نہیں اس لیے اے پیغمبر ! آپ ان کے بارے میں پریشان نہ ہوں کہ یہ شاید اس لیے ہدایت پر نہیں آرہے کہ ان کی مطلوبہ نشانیاں ان کو نہیں دکھائی جا رہیں ‘ بلکہ ان کا ہدایت کی طرف نہ آنا ‘ اس کا سبب ان کا رویہ ہے ‘ جس کے سبب سے یہ قبولیت حق کی استعداد سے محروم ہوچکے ہیں۔ اگر یہ اپنا رویہ درست کرلیں اور اپنی آنکھوں پر سے تعصب کی پٹیاں اتار دیں اور دل و دماغ پر پڑے ہوئے پردے جھٹک دیں تو معمولی سے معمولی نشانی بھی ان کے لیے ہدایت کا سبب بن سکتی ہے۔ جیسے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت آپ نے اللہ کو کیسے پہچانا ؟ آپ نے فرمایا شہتوت کے پتے سے۔ سائل نے حیران ہو کر پوچھا وہ کیسے ؟ آپ نے کہاـ: میں نے دیکھا کہ بکری شہتوت کا پتہ کھاتی ہے تو مینگنیاں کرتی ہے۔ ریشم کا کیڑا شہتوت کھاتا ہے تو ریشم بنتا ہے اور ختن کا ہرن شہتوت سے غذا حاصل کرتا ہے تو اس کی ناف سے کستوری نکلتی ہے۔ اگر شہتوت کا پتہ موثر بالذات ہوتا تو ہر جگہ اسکا نتیجہ بھی ایک ہی ہوتا یا مینگنی بنتا یا ریشم یا کستوری۔ لیکن یہ جو ہم تین مختلف نتائج دیکھتے ہیں ‘ جبکہ تینوں کی غذا ایک ہے۔ اس سے مجھے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اصلاً یہ شہتوت کا کمال نہیں ‘ بلکہ کوئی اور ہاتھ ہے ‘ جو یہاں کارفرما ہے جو کبھی کستوری بناتا ہے اور کبھی ریشم بناتا ہے۔ وہ ہاتھ میرے اللہ کا ہاتھ ہے۔ اندازہ فرمایئے ! چونکہ ہدایت حاصل کرنے والے کا دماغ بالکل صاف اور صحیح رخ پر کام کر رہا ہے ‘ اس لیے صرف ایک شہتوت کے پتے نے اسے معرفتِ حق تک پہنچا دیا۔ اس سے بھی آسان مثال دیکھیے کہ کسی بدوی نے کسی سے پوچھا کہ تم یہ کیسے جانتے ہو کہ اس کائنات کا کوئی خالق بھی ہے ؟ اس نے کہا کہ میں جب صحرا میں سفر کرتے ہوئے کہیں اونٹ کی لید دیکھتا ہوں تو مجھے وہاں سے قافلے کے گزرنے کا یقین ہوجاتا ہے ‘ وہ اسطرح کہ صحرا میں بدامنی کے باعث کوئی اکیلا وکیلا آدمی سفر نہیں کرسکتا۔ میں لید کو دیکھ کر یہ خیال کرتا ہوں کہ یقینا یہاں سے کوئی اونٹ پر سوار مسافر گزرا ہے اور پھر یہ سوچ کر کہ مسافر چونکہ تنہا سفر نہیں کرسکتا ‘ اس لیے مجھے اس بات کا یقین کرنا پڑتا ہے کہ یہاں سے کوئی قافلہ گزرا ہے۔ یہ تمثیل سنا کر اس بدوی نے کہا کہ اگر میں اونٹ کی لید دیکھ کر ایک قافلے کا یقین کرلیتا ہوں تو اس کائنات کو محو سفر دیکھ کر اس کائنات کے خالق ومالک کا یقین کیسے نہ کروں۔ حقیقت یہ ہے کہ دل و دماغ اگر باطل اثرات کی کہر میں لپٹے ہوئے نہ ہوں تو پھر اس کائنات کی ایک ایک نشانی ہر پڑھے لکھے اور ان پڑھ کو اللہ کی معرفت دینے کے لیے کافی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک سائنسدان اپنی لیبارٹری میں کام کر رہا تھا کہ اس کی پوتی کھیلتے کھیلتے وہاں پہنچ گئی۔ اچانک اس سائنسدان کا دھیان اس پوتی کی طرف ہوا تو نظر اس کے کان پر جا پڑی لپکتا ہوا اس بچی کے پاس آیا اور اسکا کان پکڑ کر کہنے لگا کہ سماعت کا یہ چھوٹا سا پرزہ ایک ایسی حیرت انگیز چیز ہے ‘ اگر یہ ناکارہ ہوجائے یا کٹ جائے تو ساری دنیا کے سائنسدان ملکر یہ کان نہیں بنا سکتے۔ پھر تھوڑے سے تأمل کے بعد کہنے لگا کہ جس ذات عزیز نے ایسا حیرت انگیز پرزہ بنایا ہے کہ وہ سنتا ہے تو کیا وہ خود نہیں سنتا ہوگا۔ اس مثالوں سے یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں ہے کہ اگر وہ اپنا رویہ درست کرلیں تو پھر اللہ کے دین کو سمجھنا اور قبول کرنا اور اپنے خالق ومالک کو جان لینا ‘ ان کے لیے کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ -4 چوتھی بات یہ ارشاد فرمائی جا رہی ہے کہ جن طبیعتوں پر نصیحت اور دلیل کا اثر نہ ہوتا ہو ‘ وہ بعض دفعہ مشاہداتی چیزوں سے اثر قبول کرتی ہیں۔ اس لیے ان سے آخری بات یہ کہی جا رہی ہے کہ دیکھو ! تم اپنے تجارتی اسفار میں ان قوموں کی تباہ شدہ بستیوں سے گزرتے ہو ‘ جن کی طرف کبھی ہدایت کے لیے اللہ کے نبی آئے تھے اور انھوں نے بجائے ہدایت قبول کرنے کے ‘ تمہاری طرح رویہ اختیار کیا ‘ بالآخر اللہ کے عذاب سے یہ قومیں تباہ ہوگئیں۔ ان کے کھنڈرات اور ان کی تباہ شدہ بستیاں اور ان کے ہاتھوں سے تراشے ہوئے محلات آج بھی ان کی عبرت کی داستان سنانے کے لیے تمہارے راستوں میں موجود ہیں۔ تم اگر ہر طرح کی دلیل قبول کرنے سے محروم ہوچکے ہو ‘ تو ان مشاہداتی دلائل کو دیکھو اور ان سے عبرت حاصل کرو۔ اس آیت کریمہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب ان کے سامنے پہلی قوموں کی تار یخ ان کی طرف آنے والے انبیاء کے واقعات ان قوموں کا رویہ اور اس کے نتیجے میں ان کے عبرت ناک انجام کی تفصیل بیان کی جاتی ہے تو یہ بجائے اس سے عبرت حاصل کرنے کے یہ کہتے ہیں کہ آپ ہمیں کیا کہانیاں سناتے رہتے ہیں اور آپ یہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن کریم اللہ کی کتاب ہے حالانکہ اس میں سوائے پہلے لوگوں کی بےسروپا کہانیوں کے اور کیا رکھا ہے۔ آپ کے پاس چونکہ کوئی نئی بات کہنے کے لیے نہیں ‘ اس لیے آپ ہمیں پرانی باتیں سناتے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نادان لوگوں کا عموماً یہ قاعدہ ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص انھیں حق کی طرف دعوت دیتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ تم نے نئی بات کیا کہی ‘ یہ تو سب وہی پرانی باتیں ہیں ‘ جو ہم پہلے سے سنتے چلے آرہے ہیں۔ گویا ان احمقوں کا نظریہ یہ ہے کہ کسی بات کے حق ہونے کے لیے اس کا نیا ہونا بھی ضروری ہے اور جو بات پرانی ہے ‘ وہ حق نہیں ہے حالانکہ حق ہر زمانے میں ایک ہی رہا ہے اور ہمیشہ ایک ہی رہے گا۔ اللہ کے دیئے ہوئے علم کی بنا پر جو لوگ انسانوں کی رہنمائی کے لیے آگے بڑھے ہیں ‘ وہ سب قدیم ترین زمانہ سے ایک ہی امر حق کو پیش کرتے آئے ہیں اور آئندہ بھی جو اس منبع علم سے فائدہ اٹھا کر کچھ پیش کرے گا ‘ وہ اسی پرانی بات کو دہرائے گا۔ البتہ ! نئی بات صرف وہی لوگ نکال سکتے ہیں جو اللہ کی روشنی سے محروم ہو کر ازلی و ابدی حقیقت کو نہیں دیکھ سکتے اور اپنے ذہن سے کچھ نظریات گھڑ کر انھیں حق کے نام سے پیش کرتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ بلاشبہ ایسے نادرہ کار ہوسکتے ہیں کہ وہ بات کہیں ‘ جو ان سے پہلے کبھی دنیا میں کسی نے نہ کہی ہو۔ مغرب زدہ افراد کی طرف سے عام طور پر کیا جانے والا سوال اور اس کا جواب -5 پانچویں بات جو اس آیت کریمہ میں ہمیں اپنی طرف متوجہ کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ وہ پہلی معذب قوموں کی تاریخ کا نہ صرف مذاق اڑاتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ یہ صرف پہلی قوموں کی بےسروپا داستانیں ہیں ‘ جو آپ ہم سے بیان کرتے رہتے ہیں بلکہ اس آیت میں ایک لفظ کا استعمال ہوا ہے ” یُجَادِلُوْنَکَ “ کہ وہ آپ سے آکر جھگٹرتے ہیں یعنی برہمی کا اظہار کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انھیں برہمی آخرکس بات سے ہوتی تھی۔ وہ بات اصل یہ تھی کہ قرآن کریم جب ان قوموں کی تاریخ بیان کرتا ہے تو صرف انکے واقعات کو بیان نہیں کرتا بلکہ درحقیقت وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ قوموں کا ابھرنا اور فنا ہونا اتفاقی واقعات کے طور پر ظہور میں نہیں آتا ‘ بلکہ اس میں اصل دخل اخلاقی عوامل کو ہوتا ہے۔ جب کوئی قوم زندگی کے اخلاقی عناصر سے خالی ہوجاتی ہے تو قدرت کا قانون اس کو فنا کردیتا ہے اور کوئی دوسری قوم اس کی جگہ اٹھا کھڑی کرتا ہے ‘ جو کردار و اخلاق میں اس سے بہتر ہوتی ہے۔ یہ عاد ‘ ثمود ‘ مدین ‘ سبا ‘ قوم لوط اور قوم فرعون وغیرہ یونہی اتفاقی طور پر فنا نہیں ہوئیں بلکہ یہ عروج وزوال کے اسی خدائی ضابطہ کا نشانہ بنیں۔ یہ قومیں چونکہ اخلاقی اور روحانی بیماریوں میں مبتلا ہوگئی تھیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کی اصلاح اور ان کے علاج کے لیے روحانی و اخلاقی طبیب یعنی انبیاء بھیجے۔ ان انبیاء نے سرتوڑ کوشش کی کہ اپنی قوم کی بیماریاں دور کریں ‘ لیکن ان کی قوموں نے ان کی باتوں پر کان نہ دھرا ‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو فنا کردیا۔ یہ تاریخ سنا کر قرآن نے عربوں کو متنبہ کیا کہ اس وقت تمہارے سامنے بھی زندگی اور موت کا یہی مرحلہ ہے۔ تمہارے اندر بھی خدا کا رسول آگیا ہے۔ اگر تم نے اس کی بات نہ سنی تو تم بھی اسی طرح فنا کردیئے جاؤ گے۔ یہ وہ بات تھی ‘ جس بات سے اہل عرب کے پندار پر سخت چوٹ پڑتی تھی۔ وہ اس بات پر برہم ہوجاتے تھے کہ وہ کسی اخلاقی اور روحانی بیماری میں مبتلا ہیں ‘ جس کے نتیجے میں ان پر عذاب الٰہی آسکتا ہے۔ مزید یہ بات بھی ان کو بعید از عقل معلوم ہوتی تھی کہ قومی عروج وزوال میں اخلاقی عوامل کو بھی دخل ہوتا ہے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ قومیں بھی اسی طرح جیتی اور مرتی ہیں ‘ جس طرح ایک فرد یا ایک درخت پیدا ہوتا ہے ‘ جوان ہوتا ‘ بوڑھا ہوتا ہے پھر مرجاتا یا سوکھ جاتا ہے۔ اسی طرح قومیں بھی پیدا ہوتیں ‘ جوان ہوتیں اور فنا ہوجاتی ہیں۔ اس کا کردار و ایمان سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے ہرگز تیار نہ تھے کہ قومیں اخلاق و ایمان کی بناء پر تباہ ہوتی ہیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ سب گردش روزگار کے کرشمے ہیں۔ واضح ہے کہ جب ان کا نظریہ یہ تھا تو قرآن کے اس تاریخی نقطہ نظر پر ان کا بھڑک اٹھنا اور لڑنے کے لیے تیار ہوجانا ناقابل فہم نہیں ہے۔ یہ چندنکات جو ہم نے آپ کے سامنے پیش کیے ہیں ‘ یہ مشرکینِ مکہ کے مجموعی طرز عمل اور اس کے اسباب کو پوری طرح ہمارے سامنے اجاگر کردیتے ہیں۔ اس طرز عمل کا نتیجہ یقینا اس سے مختلف نہیں ہوسکتا ‘ جس کا ذکر اگلی آیت میں کیا جا رہا ہے۔
Top