Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 26
وَ هُمْ یَنْهَوْنَ عَنْهُ وَ یَنْئَوْنَ عَنْهُ١ۚ وَ اِنْ یُّهْلِكُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ
وَهُمْ : اور وہ يَنْهَوْنَ : روکتے ہیں عَنْهُ : اس سے وَيَنْئَوْنَ : اور بھاگتے ہیں عَنْهُ : اس سے وَاِنْ : اور نہیں يُّهْلِكُوْنَ : ہلاک کرتے ہیں اِلَّآ : مگر (صرف) اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ وَ : اور مَا يَشْعُرُوْنَ : وہ شعور نہیں رکھتے
اور یہ اس سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں اور خود بھی گریز کرتے ہیں اور یہ درحقیقت اپنے آپ ہی کو تباہ کر رہے ہیں ‘ لیکن احساس نہیں کر رہے
فرمایا : وَھُمْ یَنْھَوْنَ عَنْہٗ وَ یَنْئَوْنَ عَنْہٗ ج وَاِنْ یُّھْلِکُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ ۔ (الانعام : 26) (اور یہ اس سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں اور خود بھی گریز کرتے ہیں اور یہ درحقیقت اپنے آپ ہی کو تباہ کر رہے ہیں ‘ لیکن احساس نہیں کر رہے) قوموں کے عروج وزوال میں اخلاقی عوامل کا بڑا کردار ہے بجائے اس کے کہ وہ قرآن کریم کی نصیحت ‘ اس کے طرز استدلال اور معذب قوموں کے انجام سے کوئی سبق سیکھتے ‘ ان کا حال یہ ہے کہ وہ خود بھی اسلام کی طرف آنے سے اعراض کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس سے بدگمان کر کے یا بالجبر روکنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے لیے جو بھی ان سے بن پڑتا ہے ‘ وہ کر گزرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ مکی زندگی کی پوری تاریخ اس پر گواہ ہے کہ انھوں نے آنحضرت ﷺ کی دعوت سے جس طرح اعراض کیا اور جو لوگ اس دعوت کو قبول کرلیتے تھے ‘ جس طرح ان کو اذیتوں کا نشانہ بنایا ‘ وہ ایک دلخراش داستان ہے۔ حضور ﷺ کی دعوت اور قرآن کریم کا مذاق اڑانا اور اگر حضور قرآن پڑھیں تو اوباش لوگوں کا قریب کھڑے ہو کر شور مچانا اور دوسروں کو سننے نہ دینا اور اگر کوئی غریب مسلمان ان کے قابو آجاتے تو اسے مار مار کر ادھ موا کردینا ‘ حتیٰ کہ بعض دفعہ غیر انسانی رویہ اختیار کرنا ‘ یہ سب ان کا روزکا معمول تھا۔ اس کا حوالہ دے کر ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ یہ لوگ بظاہر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم شاید اس طرح قرآنی دعوت کو پھیلنے سے روک دیں گے اور رفتہ رفتہ یہ تحریک ختم ہوجائے گی۔ لیکن یہ ان کی خام خیالی ہے۔ وہ حقیقت میں اس تحریک کو روکنے میں تو کامیاب نہیں ہوسکتے اور نہ اس کے اثرات کو پھیلنے سے روک سکتے ہیں کیونکہ اللہ کے دین کی دعوت تو ہوا اور روشنی کی مانند ہے جس کا راستہ روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا البتہ ان کا یہ رویہ خود ان کی ہلاکت کا باعث ضرور ہوگا کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی دعوت ان کے لیے ایک زندگی بخش پیغام ہے۔ اس کا انکار کرنا یا اس کو روکنے کی کوشش کرنا ‘ یہ درحقیقت زندگی سے دشمنی ہے۔ اگر یہ لوگ اس سے باز نہیں آئے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ خود اپنی جانوں کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں۔ لیکن انھیں اس کا شعور نہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ یہ بات کہ اللہ کے دین سے اعراض اور معاشرے میں اس کے نفوذ کی کوششوں کو ناکام کرنا ‘ یہ درحقیقت زندگی کا راستہ روکنا ہے اور یہ معاشرے کی ہلاکت کا باعث ہے۔ اس کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں سب سے پہلی بات تو یہ کہ اللہ کے رسول کی دعوت کو اگر مکمل طور پر پھیلنے سے روک دیا جائے اور اس کے راستے میں ایسے موانع حائل کردیئے جائیں ‘ جس سے وہ یکسر رک کر رہ جائے تو اس کے نتیجے میں بالعموم اللہ کا عذاب آیا کرتا ہے۔ مشرکینِ مکہ کو حقیقت میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ تم رسول اللہ ﷺ کی دعوت کو روک کر فی الحقیقت عذاب کو دعوت دے رہے ہو ‘ اندازہ کرو اگر اللہ کا عذاب آیا تو تمہارا انجام کیا ہوگا اور دوسری بات یہ کہ جس معاشرے میں اللہ کی ہدایت کے اثرات ختم ہوجائیں وہ معاشرہ ہلاکت سے کبھی نہیں بچتا۔ بعض بالکل سامنے کی باتیں ہیں ‘ لیکن نجانے ہم ان باتوں پر کیوں غور نہیں کرتے۔ آخر ہمیں یہ بات سمجھ کیوں نہیں آتی کہ معاشرہ خوبصورت مکانوں کا نام نہیں ‘ بلکہ آسودہ مکینوں کا نام ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو کبھی گھروں میں جھانک کر دیکھ لیجئے کہ جس گھر میں بیوی عفت مآب نہیں اور شوہر غیرت مند نہیں، وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے قابل اعتماد نہیں۔ مزید یہ کہ حقوق و فرائض کے حوالے سے وہ دونوں اگر ایک دوسرے کے لیے امین نہیں تو کیا یہ گھر تباہی سے بچ سکتا ہے۔ اگر ان لوگوں نے حیوانی زندگی اختیار نہیں کی اور انسانی اقدار کی کچھ رمق ان میں باقی ہے تو ان دونوں کے بگاڑ کے بعد ان کی یکجائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اگر ان کو اللہ نے اولاد دی ہے اور یہ ونوں یا ان میں سے کوئی ایک بنیادی اخلاق اور شرم و حیا سے عاری ہوجاتا ہے اور ان کے تعلقات کے بگاڑ کے نتیجے میں ہر وقت گھر میں چخ چخ رہتی ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اس گھر کو دو طرح کے نتیجوں سے نہیں بچا سکتی۔ ایک تو یہ کہ ان کی بداخلاقی کے نتیجے میں ان کے بچے بھی بداخلاق ہوں گے اور یہ گھر گھر نہیں رہے گا بلکہ قحبہ خانہ بن جائے گا اور دوسری یہ بات کہ ان کی نااتفاقی کی صورت میں بچے ان کے نافرمان ہوں گے۔ اس لیے جیسے ہی بچوں کو خود فیصلہ کرنے کا موقع ملے گا اور ان کے والدین کہولت اور ضعیفی کی عمر کو پہنچ جائیں گے تو اس گھر میں ظلم کا وہ تماشہ مچے گا ‘ جس سے لوگ عبرت پکڑیں گے۔ اللہ کے دین سے اعراض ‘ درحقیقت زندگی سے انکار ہے جس معاشرے میں ایسے گھروں کی فراوانی ہوگی اور ایسی ہی اولاد پروان چڑھے گی تو یہ پیشگوئی کرنے کے لیے کسی بڑی عقل کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ معاشرہ ہلاکت و تباہی سے نہیں بچ سکتا۔ اس صورت حال میں والدین مظلومیت کی تصویر بنے اولڈ ہومز میں پہنچ جائیں گے یا ہسپتالوں میں سسک سسک کر جان دے دیں گے اور اولاد بینک لوٹے گی ‘ عزتیں پامال کرے گی ‘ لا اینڈ آرڈر کے مسئلے کو اور گہرا کر دے گی ‘ نتیجتاً یہ قوم ایسے تباہی کے راستے پر چل نکلے گی ‘ جن کے مقدر میں تباہی کے سو اور کچھ نہیں ہوگا یہی وہ بات ہے جو یہاں فرمائی جا رہی ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو ہلاک کر رہے ہیں ‘ لیکن انھیں اس کا شعور نہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ کسی بھی قوم کے لیے سب سے بڑا حادثہ یہ نہیں ہوتا کہ وہ کسی بڑے حادثے کا شکار ہوجائے ‘ بلکہ بڑا حادثہ یہ ہے کہ اس قوم کو حادثے کا احساس نہ ہو۔ سچ کہا کسی نے ؎ حادثے سے بڑا حادثہ یہ ہوا لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر اگلی آیات کریمہ میں قرآن کریم سے انکار کرنے والوں اور اس کی تعلیمات کا تمسخر اڑانے والوں کا انجام ذکر کیا جا رہا ہے :
Top