Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 45
فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا١ؕ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
فَقُطِعَ : پھر کاٹ دی گئی دَابِرُ : جڑ الْقَوْمِ : قوم الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا : جن لوگوں نے ظلم کیا (ظالم) وَ : اور الْحَمْدُ : ہر تعریف لِلّٰهِ : اللہ کے لیے رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کا رب
بس ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئی ‘ جنہوں نے ظلم کا ارتکاب کیا اور شکر کا سزاوار حقیقی ‘ اللہ ہے۔ تمام عالم کا رب
ارشاد فرمایا : فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ط وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ (الانعام : 45) ” بس ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئی ‘ جنھوں نے ظلم کا ارتکاب کیا تھا اور شکر کا سزاوار حقیقی اللہ ہے۔ تمام عالم کا رب “۔ پھر ان کی جڑ کاٹ کے رکھ دی جاتی ہے۔ یعنی ان کو دنیا سے مٹا دیا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنی بداطواریوں کے باعث شجرِ انسانیت کے برگ و بار تو پہلے ہی ضائع کر ڈالے تھے ‘ وہ زمین پر انسانوں کی طرح نہیں بلکہ حیوانوں یا درندوں کی طرح زندگی گزار رہے تھے۔ انھوں نے ایک ایک کر کے اقدار انسانیت کا جنازہ نکال دیا تھا۔ اب لے دے کے ان کی جڑ باقی تھی کیونکہ پہلے مصائب نے ان کو جڑ سے نہیں اکھاڑا تھا اس عذاب نے آکر انھیں جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور اس کی تاریخی شہادت دیکھنی ہو کہ کس طرح ایسی قومیں اللہ کے عذاب کا شکار ہو کر دنیا سے مٹائی جاتی رہی ہیں تو اس کے لیے قوم عاد ‘ قوم ثمود ‘ قوم صالح اور قوم لوط کے کھنڈرات کو دیکھ لینا کافی ہے۔ آغاز کلام میں اسی کا حوالہ دیا گیا تھا کہ اس تاریخی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے اچھی طرح سمجھ لو کہ تم بھی انہی راہوں پر چل رہے ہو ‘ جن راہوں پر وہ قومیں چلتی ہوئی تباہی کے انجام سے دوچار ہوئیں۔ اگر تم نے راہ ہدایت اختیار نہ کی تو تم بھی اس انجام سے بچ نہ سکو گے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا اللہ کا بسایا ہوا ایک چمن ہے ‘ جس میں قومیں رنگا رنگ پھولوں کی طرح بہار دے رہی ہیں۔ جب ان میں کوئی زہریلا درخت پیدا ہوجاتا ہے اور پھر اس کی ایک ایک چیز بدبو دینے لگتی ہے اس سے نکلنے والی گیس اس سے نکلنے والی شاخیں ‘ اس سے نکلنے والی بو ‘ جب سمیت پھیلانے لگتی ہے تو اللہ جو اس چمن کا نگران ہے وہ شروع شروع میں اسے پھیلنے سے روکتا ہے اور اس کے علاج کی فکر کرتا ہے۔ لیکن جب اس کا پھیلائو بڑھنے لگتا ہے تو پھر وہ اس کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔ قوموں کے ساتھ بھی ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں ایسی قوموں کو ظالم کہا گیا ہے۔ یعنی وہ ظلم کی وجہ سے اپنے برے انجام سے دوچار ہوئیں۔ ظلم کا معنی ہے کسی چیز کو ایسی جگہ رکھنا جو اس کے رکھنے کی جگہ نہیں ہے۔ اسے اس طرح استعمال کرنا جو اس کے استعمال کا طریقہ نہیں۔ یہ لوگ ان معنوں میں ظالم تھے کہ انھوں نے ایک ایک نعمت اور ایک ایک صلاحیت کا غلط استعمال کیا۔ اللہ نے ان کو سر دیا تھا اللہ کے سامنے جھکانے کے لیے انھوں نے غیر اللہ کے سامنے جھکا کر ظلم کیا۔ انھیں دل بخشا گیا تھا اللہ کے تصور اور اس کی محبت سے آباد رکھنے کے لیے۔ انھوں نے تمام طاغوتی قوتوں کو اپنے دل میں بسا کر اس دل سے ظلم کیا۔ اللہ نے ان کو ایک ایک نعمت عطا فرمائی تھی ‘ تاکہ یہ لوگ اللہ کا شکر ادا کریں۔ انھوں نے کفران نعمت کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ اس کے نتیجے میں یہ لوگ اپنے انجام کو پہنچے۔ آج اللہ ظالم قوتوں کی جڑ کیوں نہیں کاٹ رہا ؟ یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے۔ ممکن ہے آپ کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ آج دنیا میں کیسی کیسی ظالم قوتیں ہیں ‘ جنھوں نے انسانیت کا مستقبل ہولناک بنادیا ہے۔ انسانوں پر وہ وہ ظلم ڈھائے جا رہے ہیں کہ گزشتہ ادوار میں جنھیں ہم قرون مظلمہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ایسے ظلم کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا اور جب سے دنیا کی تاریخ معلوم ہے انسان دشمنی کی کوئی ایسی مثال ہمیں ڈھونڈے سے نہیں ملتی ‘ فلسطینیوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے جو کچھ اس سے پہلے بوسینیا میں ہوچکا ہے ‘ چیچنیا میں جو قیامت گزر گئی ‘ افغانستان میں انسان دشمنی اور درندگی کے جو ریکارڈ قائم کیے گئے اور آج تک ان کا سلسلہ جاری ہے اور کرنے والے ہاتھ وہ ہیں جنھیں اپنی تہذیب و تمدن اور انسان دوستی کے بڑے دعوے ہیں۔ آخر ان ظالموں کی جڑ کیوں نہیں کاٹی جاتی۔ یہ ظالم قوتیں روز افزوں سرفراز کیوں ہیں دنیا ان کے سامنے کیوں بےبس ہوتی جا رہی ہے ؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ اللہ کا ایک قانون ہے کہ جب وہ قومیں جو اللہ کے دین کی علمبردار ہیں اور جنھیں دنیا میں عدل و احسان قائم کرنا ہے۔ اپنے مقصد زندگی کو بھول جائیں اور خود اپنے اپنے ممالک میں اللہ کی نافرمانی اور انسانی ظلم کی داستانیں دھراتے ہوئے کبھی اللہ کا خوف محسوس نہ کریں ‘ اللہ اگر انھیں دنیوی جاہ و منزلت اور دولت دنیا کے خزانے حوالے کر دے تو انھیں کفر کی خدمت یا اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے استعمال کریں اور خود دینی قوتوں پر ایسے ایسے مظالم ڈھائیں کہ انھیں دیکھ کر کفر بھی شرمانے لگے تو پھر اللہ تعالیٰ ان ظالم قوتوں سے وہ کام لیتا ہے ‘ جو ایک ڈاکٹر ایک سڑ جانے والے عضو کو کاٹنے اور اسے انسانی جسم سے الگ کرنے کے لیے خنجر اور نشتر سے لیتا ہے۔ پھر دنیا میں بظاہر اسلامی خلافت بھی موجود ہو تو تقدیر چنگیز خان کے نشتر سے مسلمان امت کا آپریشن کرتی ہے ‘ تاکہ اس سے فاسد مادہ نکلے اور اس میں نشاۃ ثانیہ کے امکانات پیدا ہوں اور اگر مسلمان اپنی اصل حیثیت کو برصغیر میں گم کر دے تو تیمور جیسے لوگوں سے تقدیر آپریشن کے نشتر کا کام لیتی ہے۔ اسی کو اقبال مرحوم نے کہا تھا کہ ع تقدیر کے نشتر ہیں تیمور ہوں یا چنگیز قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے : وَ کَذَالِکَ نُوَلِّیْ بَعْضَ الظَّالِمِیْنَ بَعْضًا م بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ (الانعام : 129) (اسی طرح ہم ظالموں کو ظالموں پر مسلط کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے انھیں سزا دلواتے ہیں ) یہ آج جو کچھ ہو رہا ہے ‘ یہ امت مسلمہ کو ان کے اعمال کی سزا مل رہی ہے۔ عوام نے جس طرح ظالموں کو برداشت کیا یا ظالموں کی خوشامد کرتے ہوئے ہمیشہ ان کے ظلم کی تائید کی اور دونوں نے مل کر اللہ کے دین کا راستہ روکا اور بعض علاقوں میں دین کے حوالے سے بےحسی اور بےاعتنائی کا ثبوت دیا گیا اور مجموعی طور پر دنیا کو اپنا مقصد زندگی بنا کر دین کو اجتماعی زندگی سے خارج کردیا اور غضب خدا کا پورے عالم اسلام میں کہیں بھی اللہ کی حاکمیت کو نافذ کرنا تو دور کی بات ہے ‘ برداشت بھی نہیں کیا گیا اور جو قوتیں اس کے لیے کوشاں ہیں انھیں اپنے اپنے ملکوں میں نہ صرف اجنبی بنادیا گیا بلکہ انھیں اذیتوں کا نشانہ بنایا گیا اور اب رفتہ رفتہ انھیں ایک گالی بنادیا گیا ہے۔ یہ وہ اعمال ہیں ‘ جس کی پاداش میں امت مسلمہ آج عذاب کی گرفت میں ہے اور مغربی قوتوں سے ان کے اعمال کی سزا دلوائی جا رہی ہے۔ آج اس عذاب سے بچنے کی صرف ایک صورت ہے کہ امت مسلمہ مجموعی طور پر یا اس کا کوئی ایک ملک اسلام کا نمائندہ بن جائے۔ اسلام کو اپنا آئین بنا کر زندگی کے ہر شعبے کو اسلام کی تحویل میں دے دے اور پھر اول و آخر اسلام کا نمائندہ بن کر اپنے ملک کی ترقی کے اسباب پیدا کرے اور حکمت و بصیرت سے کام لیتے ہوئے مشکلات میں اپنے لیے راستہ نکالے۔ شروع میں قدرت کی طرف سے ان کے اخلاص کی آزمائش ہوگی ‘ لیکن بالآخر یہ ملک ایک عظیم قوت بن کر اٹھے گا اور قدرت ان کو اسی طرح نوازے گی جیسے قرون اولیٰ میں مسلمانوں کو نوازا گیا۔ پھر آج کی ظالم قوتیں یا اس کے سامنے جھک جائیں گی یا مٹ جائیں گی۔ تاریخ کے ہر دور میں قدرت کا یہی قانون کارفرما رہا ہے اور آج بھی اللہ کی اس سنت کے بدل جانے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ آیت کے آخر میں فرمایا گیا ” وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِیْن “ یعنی ہر طرح کا شکر اور ہر طرح کی تعریف اس اللہ کے لیے ہے ‘ جو جہانوں کا رب ہے۔ یعنی جس کی صفت ربوبیت نے تمام انسانوں کو زندگی کے امکانات عطا فرمائے ہیں۔ وہ ایک بچے سے لے کر بوڑھے تک اور ایک عام فرد سے لے کر ایک قوم تک اور قوم سے لے کر تمام اقوام دنیا تک صرف زندگی ہی نہیں دیتا بلکہ زندگی کے امکانات زندگی کے اسباب زندگی کے وسائل ظاہری اور معنوی ‘ ہر حیثیت سے عطا کرتا ہے کیونکہ وہ سب کا رب ہے ‘ سب کا پالنہار ہے۔ ظاہر ہے کہ جس نے اس طرح زندگی کے اسباب فراہم کر کے زندگی کو عام کیا ہے ‘ وہ کبھی یہ برداشت نہیں کرتا کہ دنیا میں زندگی دشوار بنادی جائے۔ چناچہ جب ایسی قومیں سر اٹھاتی ہیں ‘ جو دنیا میں زندگی کو دشوار کردیتی ہیں تو پھر ان کو مٹا دینے اور ان کی جڑ کاٹ دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ایک ایسی قوت کو ختم کردیا ہے جو انسانی زندگی کے لیے تباہ کن اور مہلک تھی اور جس کی موجودگی میں باقی انسانیت کے پھلنے پھولنے کے امکانات روز بروز کم ہوتے جا رہے تھے۔ ایسی قوت کی موت گویا دوسروں کے لیے زندگی کا پیغام ہے۔ اس لیے جب ایسا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو جس طرح ایک بدمعاش اور ڈاکو کے مرجانے سے پوری بستی سکھ کا سانس لیتی ہے اور اس پر اللہ کا شکربجا لاتی ہے ‘ اسی طرح ایسی قوم کے تباہ کردینے سے پوری نوع انسانی ‘ بلکہ کائنات کی دوسری مخلوقات بھی اللہ کی تعریف میں رطب اللساں ہوتی ہیں اور اس کا شکر ادا کرتی ہیں۔ سورة البقرہ اور دوسرے پارے کے آخر میں اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اگر ہم اس طرح بعض قوموں کو تباہ نہ کرتے تو زمین فساد سے بھر جاتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ اہل دنیا پر بہت فضل و کرم کی نگاہ رکھتا ہے۔ اس لیے وہ ظالم قوتوں کو ایک حد سے آگے نہیں بڑھنے دیتا۔ اس لحاظ سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مغربی قوموں کا ظلم جس حد تک پہنچ چکا ہے ‘ شاید وہ تاریخ میں زیادہ عرصہ تک اپنا رویہ باقی نہ رکھ سکیں۔ امت مسلمہ کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ اپنے فرض کو پہچانے اور اللہ کے دین کی علمبردار بن کر شہادتِ حق کا فرض انجام دینے کے لیے اٹھ کھڑی ہو۔ اس کے نتیجے میں اللہ کا یہ قانون ضرور حرکت میں آئے گا کہ وہ کمزوروں کو طاقت عطا فرماتا ہے اور ظالم قوتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔ یہاں ایک اور بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ان آیات میں جو کچھ فرمایا جا رہا ہے اس کے مخاطب وہ لوگ ہیں ‘ جو بار بار اللہ کے عذاب کا مطالبہ کرتے تھے۔ ان کے سامنے اللہ نے اپنی سنت کو پوری تفصیل سے بیان فرما کر یہ واضح کردیا ہے کہ ہم کسی بھی قوم پر عذاب لانے سے پہلے پوری طرح اس پر اسس کو بروئے کار لاتے ہیں جو اس کے لیے ضروری ہے اور اس قوم پر پوری طرح اتمام حجت کرتے ہیں تاکہ کل کو وہ کوئی عذر پیش نہ کرسکیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ تاریخی طور پر پہلی معذب قوموں کا حوالہ دے کر مشرکین مکہ اور ان عذاب کا مطالبہ کرنے والوں پر یہ بات کھول دی گئی ہے کہ جو لوگ اس طرح عذاب کا مطالبہ جاری رکھتے ہیں انھیں کبھی ہدایت سے نو ازا نہیں جاتا۔ وہ بالآخر اس عذاب کی گرفت میں آ کر رہتے ہیں۔ اس لیے اے مشرکین مکہ ! اگر تم نے یہ سلسلہ جاری رکھا اور اپنی روش سے باز نہ آئے تو بالآخر تم بھی اسی انجام کو پہنچو گے ‘ جس انجام سے پہلی امتیں دوچار ہوچکی ہیں۔ مشرکین مکہ کے مطالبہ عذاب پر بہت کچھ کہا جا چکا ‘ لیکن اگلی آیت کریمہ میں ایک دوسرے پہلو سے اسی مطالبہ کا جواب دیا جا رہا ہے : ارشاد ہوتا ہے۔
Top