Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 52
وَ لَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ١ؕ مَا عَلَیْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَّ مَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَیْهِمْ مِّنْ شَیْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَ : اور لَا تَطْرُدِ : دور نہ کریں آپ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَدْعُوْنَ : پکارتے ہیں رَبَّهُمْ : اپنا رب بِالْغَدٰوةِ : صبح وَالْعَشِيِّ : اور شام يُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں وَجْهَهٗ : اس کا رخ (رضا) مَا : نہیں عَلَيْكَ : آپ پر مِنْ : سے حِسَابِهِمْ : ان کا حساب مِّنْ شَيْءٍ : کچھ وَّ : اور مَا : نہیں مِنْ : سے حِسَابِكَ : آپ کا حساب عَلَيْهِمْ : ان پر مِّنْ شَيْءٍ : کچھ فَتَطْرُدَهُمْ : کہ تم انہیں دور کردو گے فَتَكُوْنَ : تو ہوجاؤ مِنَ : سے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور تم ان لوگوں کو اپنے سے دور نہ کیجئے جو صبح شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی خوشنودی چاہتے ہیں ‘ ان کی ذمہ داری کا کوئی حصہ تم پر نہیں اور نہ تمہاری ذمہ داری کا کوئی حصہ ان پر ہے کہ تم ان کو اپنے سے دور کر کے ظالموں میں سے بن جائو
ارشاد فرمایا : وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ ط مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِھِمْ مِّنْ شَیْئٍ وَّمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْھِمْ مِّنْ شَیْئٍ فَتَطْرُدَھُمْ فَتَکُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ۔ (الانعام : 52) (اور تم ان لوگوں کو اپنے سے دور نہ کیجئے ‘ جو صبح شام اپنے رب کو پکارتے ہیں ‘ اس کی خوشنودی چاہتے ہیں۔ ان کی ذمہ داری کا کوئی حصہ تم پر نہیں اور نہ تمہاری ذمہ داری کا کوئی حصہ ان پر ہے ‘ کہ تم ان کو اپنے سے دور کر کے ظالموں میں سے بن جاؤ ) رسول ﷺ سے فرمایا جا رہا ہے کہ غریب صحابہ کو اشرافِ قریش کی وجہ سے دور نہ کرو روایات میں آتا ہے کہ مشرکینِ مکہ میں سے بعض بڑے بڑے لوگوں نے حضرت ابوطالب سے ملاقات کی اور کہا کہ ہم تمہارے بھتیجے کی باتوں پر غور کرنے کو تیار ہیں اور سمجھنا چاہتے ہیں کہ وہ کیا دعوت پیش کرتا ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ اس نے اپنے ارد گرد ایسے لوگ جمع کر رکھے ہیں جو انتہائی غریب اور معاشرے کے دھتکارے ہوئے لوگ ہیں۔ ان میں سے کچھ غلام ہیں اور کچھ ہمارے ہی آزاد کردہ ہیں ایسے بےیارومددگار ہیں اور کچھ جن کی معاشرے میں کوئی اہمیت نہیں ‘ ظاہر ہے کہ ہم ان کی موجودگی میں کس طرح آپ کے بھتیجے کے پاس جاسکتے اور اس کی بات سن سکتے ہیں۔ اس لیے آپ اپنے بھتیجے سے کہئے کہ وہ ہمارے لیے ایک وقت مقرر کرے اور اس میں ان تمام لوگوں کو دور ہٹا دے ‘ ہمیں ان کی پرچھائیں بھی گوارا نہیں۔ اس طرح ہم الگ بیٹھ کر ان سے بات چیت کرنے کو تیار ہیں۔ چناچہ حضرت ابوطالب نے آنحضرت ﷺ کو اس کا مشورہ دیا کہ آپ ان اشراف قریش سے الگ ملنے کا انتظام کریں یا جب بھی وہ آنا چاہیں تو آپ اپنے غریب ساتھیوں کو وہاں سے دور ہٹا دیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی اس پر سوچنا شروع کیا۔ صحابہ تک جب یہ بات پہنچی تو حضرت عمر فاروق ( رض) نے آنحضرت ﷺ کو مشورہ دیا کہ حضور اس میں حرج ہی کیا ہے ہم لوگ تو ہر وقت آپ کے پاس آنے جانے والے اور خدمت میں بیٹھنے والے لوگ ہیں۔ اگر اشراف قریش ہمارے ساتھیوں کی موجودگی میں ملنا پسند نہیں کرتے تو کوئی حرج نہیں ‘ آپ ان سے الگ مل لیا کیجئے۔ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ حضرت عمر فاروق کو جب یہ معلوم ہوا تو وہ فوراً حضور کی خدمت میں پہنچے ‘ معافی چاہی کہ میں نے آپ کو غلط مشورہ دیا اور آپ سے درخواست کی کہ آپ اللہ سے میرے لیے استغفار کریں تاکہ وہ میرا یہ گناہ معاف فرما دے۔ اس آیت کریمہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ آپ یہ مت سمجھئے کہ یہ لوگ اس طرح امتیازی سلوک کرنے سے راہ راست پر آجائیں گے یہ محض ان کا ایک بہانہ ہے۔ اصل بیماری ان کی وہی ہے کہ وہ اللہ کے سامنے حاضری کا اندیشہ نہیں رکھتے۔ آپ ان کے ساتھ کیسا بھی عزت کا سلوک کریں وہ کبھی آپ پر ایمان نہیں لائیں گے۔ رہی یہ بات کہ آپ ان کی خاطر ان غریب لوگوں کو دور کریں ‘ یہ کسی طرح مناسب نہیں۔ یہاں جو لفظ استعمال کیا گیا ہے وہ ہے وَلَا تَطْرُدِ ۔ اطراد عربی زبان میں دھتکارنے اور بدسلوکی سے نکالنے کو کہتے ہیں۔ قریش چونکہ غریب لوگوں کے لیے یہی لفظ استعمال کرتے تھے اس لیے قرآن کریم نے ان کے مطالبے کو رد کرتے ہوئے انہی کا لفظ استعمال کیا ‘ تاکہ ان کا جرم ریکارڈ پر رہے اور جب وہ اس کا جواب دیکھیں تو مزید انھیں اپنے جرم کی شدت کا احساس ہو اور ان کے خبث باطن پر چوٹ لگے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ایک تھوڑی سی وضاحت ضروری ہے وہ یہ کہ مشرکینِ مکہ کا یہ مطالبہ محض اتفاقی نہیں تھا بلکہ یہ ان کی معاشرتی اقدار اور ان کے تصور حیات کا نتیجہ تھا۔ مکہ معظمہ کی زندگی درحقیقت ایک طبقاتی زندگی تھی۔ وہاں کے رہنے والے یوں تو کئی طبقات میں بٹے ہوئے تھے لیکن امیر ‘ غریب اور حسب و نسب کی تقسیم سب سے زیادہ گہری تھی۔ قریش کسی کو جو ان کے اپنے خاندان سے تعلق نہ رکھتا ہو اپنے ہم پلہ ماننے کو تیار نہیں تھے۔ اور جہاں تک غریب لوگوں کا تعلق ہے وہ ان کو اپنی خدمت کے لیے تو برداشت کرسکتے تھے لیکن یہ سوچنا بھی انھیں گوارا نہیں تھا کہ یہ بھی معاشرے کے قابل ذکر لوگ ہیں۔ حیرت اور تشویش کی بات یہ ہے کہ قرآن کریم یہاں ان کے جس رویے کو بری طرح تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے اور جس طرح اسے جڑ سے اکھاڑ دینا چاہتا ہے اس کا نتیجہ تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ امت مسلمہ میں اس کے آثار بھی باقی نہ رہتے ‘ لیکن انتہائی دکھ کی بات ہے کہ باقی عالم اسلام کو تو چھوڑیئے خود یہ ملک جس کو وجود ہی اسلام کے نام سے ملا ہے ‘ اس میں ابھی تک نہایت گہری طبقاتی تفریق پائی جاتی ہے۔ جاگیردار ‘ امراء ‘ بڑے بڑے خاندانوں کے لوگ ‘ فوج ‘ سیاستدان اور بیوروکریٹس سارے ملک کے عوام کو اپنے ہاری اور کمین سمجھتے ہیں۔ اس لیے اپنے اپنے دوائر میں ان کے ساتھ نہایت توہین آمیز سلوک روا رکھنا بلکہ ظلم کرنا بھی ان کے لیے کوئی غلط بات نہیں۔ یہی حال مشرکینِ مکہ کا تھا اس لیے ان کا حضور سے یہ مطالبہ کوئی حیرت انگیز مطالبہ نہ تھا بلکہ ان کی معاشرتی زندگی کا نتیجہ تھا۔ قرآن کریم نے اس پر آنحضرت ﷺ کو جو ہدایات دی ہیں ‘ اس میں سب سے پہلی بات جو محسوس کرنے کی ہے وہ اس آیت کریمہ کا لہجہ ہے۔ جس میں بظاہر تنبیہ کا انداز ذرا تیکھا ہوگیا ہے۔ اس میں خطاب چونکہ آنحضرت ﷺ کو ہے اس لیے بعض طبیعتوں کو گراں گزرتا ہے۔ لیکن اگر قرآن کریم کا ایک اسلوب سمجھ لیا جائے تو پھر یہ واہمہ پیدا نہیں ہوتا وہ یہ ہے کہ جب بھی کفار کی جانب سے ایسی کوئی بےسروپا بات کہی جاتی ہے یا کوئی لایعنی مطالبہ کیا جاتا ہے تو قرآن کریم میں پروردگار اس کا جواب دیتے ہوئے کفار کو مخاطب نہیں کرتے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ اس قابل نہیں ہیں کہ پروردگار ان کو مخاطب کرے۔ اس لیے اس میں خطاب رسول اللہ ﷺ کو فرمایا جاتا ہے۔ لیکن روئے سخن کفار کی طرف ہوتا ہے ‘ یا یوں کہہ لیجئے کہ بات حضور سے کی جا رہی ہوتی ہے لیکن سنائی کفار کو جاتی ہے۔ اس لیے اس میں تنبیہ کا انداز اگر تیکھا ہوجاتا ہے یا کہیں غضب کا اظہار نظر آتا ہے تو اس کا تعلق اللہ کے رسول سے نہیں بلکہ ان کفار سے ہوتا ہے تاکہ وہ اچھی طرح اپنے انجام کے بارے میں سوچ لیں۔ یہاں بھی خطاب آنحضرت ﷺ سے ہو رہا ہے لیکن تنبیہ اور تہدید کا تعلق مشرکینِ مکہ سے ہے۔ دوسری چیز جو اس میں بہت قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ کفار مکہ جن لوگوں کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں بلکہ انھیں اپنے قریب آنا بھی ان کے لیے گوارا نہیں اور وہ حضور سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہماری موجودگی میں آپ ان کو دور رہنے کا حکم دیں۔ کیسی دلنواز بات ہے کہ اللہ تعالیٰ انہی کی وکالت فرما رہے ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو ابھی تک غلامی کا عذاب جھیل رہے ہیں اور ان میں وہ بھی ہیں جو نئے نئے غلامی کی زنجیریں کاٹ کے نکلے ہیں۔ لیکن معاشرے میں ان کو تحفظ دینے والا کوئی نہیں۔ ان میں ایسے بھی ہیں جو کسی اعلیٰ خاندان سے تعلق نہیں رکھتے باہر سے آئے ہوئے لوگ ہیں اور یہ تمام لوگ ساتھ ساتھ اس قدر بےسروسامان بھی ہیں کہ نہ پہننے کو مناسب کپڑا ہے اور نہ کھانے کو ڈھب کی روٹی پیٹ پر پتھر باندھتے اور چیتھڑے پہنتے ہیں لیکن اسلام کی موجودہ قوت یہی لوگ ہیں۔ ان کے بارے میں پروردگار ارشاد فرما رہے ہیں کہ آپ ان لوگوں کو اپنی صحبت سے دور مت ہٹایئے ان کا حال یہ ہے کہ وہ صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں۔ یعنی اہل دنیا سے اگرچہ ان کو کوئی ایسا قابل ذکر تعلق نہیں اور لوگ بھی ان کا نام لینے کے روادار نہیں ‘ لیکن انھوں نے اپنا رشتہ اللہ سے جوڑ رکھا ہے ‘ وہ اس ذات کو پکارتے ہیں جس کو پکارنے والا کبھی محروم نہیں رہتا اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ انھیں دولت دنیا کے نہ ہونے کے باعث غربت اور غریبی کے طعنے ملتے ہیں۔ انھیں نجانے کیسے کیسے خطابات سے یاد کیا جاتا ہے اور خود ان کے شب و روز اللہ ہی بہتر جانتا ہے کیسی تلخیوں میں گزرتے ہیں۔ لیکن ان سارے دکھوں کے باوجود اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے ان میں سے کوئی چیز نہیں مانگتے ‘ وہ اپنے رب کو پکارتے ہیں تو صرف اس لیے کہ وہ اپنے رب کی خوشنودی چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک اللہ کی خوشنودی کے مقابلے میں دنیا بھر کی دولت خزف ریزوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ سے کہا جا رہا ہے کہ کسی بھی تحریک کا سرمایہ اس کے جانثار اور فداکار لوگ ہوتے ہیں جو اپنی زندگیاں تک اس تحریک پر قربان کردیتے ہیں۔ یہ لوگ جنھوں نے محض اللہ کی رضا کے لیے دنیا کی ہر نعمت سے منہ موڑ لیا ہے اور دنیا کا ہر دکھ اسلام اور ایمان کی خاطر برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ لوگ اس لائق ہیں کہ آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھائیں یا وہ نابکار جنھیں آپ کی نبوت تک گوارا نہیں۔ وہ محض بہانے تراشتے ہیں تاکہ آپ کے لیے ایسے حالات پیدا کریں کہ آپ کے جانثار بھی آپ سے دور ہوجائیں۔ اس لیے آپ ان کو ہرگز اپنے سے دور نہ ہٹایئے۔ وہ لوگ جن کا آپ کے سوا دنیا میں کوئی نہیں اور وہ آپ کی صحبت میں اللہ کی رضا کو ڈھونڈتے ہیں ‘ وہی آپ کی عنایت کے ہر طرح مستحق اور آپ کی توجہ کے حقدار ہیں۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان غریبوں کو جس طرح اپنے سینے سے لگایا کہ انھوں نے اگر اپنی جانثاری میں کبھی کمی نہیں کی تو حضور کی شفقتیں بھی ہمیشہ ان پر پھوار کی طرح برستی رہیں۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ نے غریبوں ہی میں زندگی گزارنا اور غریبوں ہی کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اپنا معمول بنا لیا اور یہاں تک اللہ کے حضور عرض کی کہ یا اللہ میں چاہتا ہوں کہ میں غریبوں کے ساتھ زندہ رہوں اور قیامت کے دن غریبوں کے ساتھ اٹھایا جاؤں۔ سردار دیوان سنگھ مفتون متحدہ ہندوستان میں ریاست اخبار کے ایڈیٹر تھے اور وہ اپنی طرز کے واحد آدمی تھے جب انھوں نے آنحضرت ﷺ کا یہ قول سنا تو بےساختہ کہا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ جن ہونٹوں سے یہ قول نکلا ہے میں ان ہونٹوں کو بوسہ دوں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں غریبوں کا ساتھ دینے کے دعوے تو بہت رہے ہیں لیکن اگر کسی نے غربت کو عزت دی ہے اور فقر کو اپنا فخر فرمایا ہے اور فی الواقع غریبی امیری کا فرق مٹا کے رکھ دیا ہے اور طبقات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے تو وہ صرف رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی ہے۔ غیر مسلموں نے بھی جب کبھی غیر جانبداری سے آپ کے اس طرز عمل کو دیکھا ہے تو تسلیم کیے بغیر نہ رہ سکے۔ یوں تو اس کی مثالیں تاریخ میں بھری پڑی ہیں۔ لیکن ہماری قریبی تاریخ میں لاہور ہی میں ہری چند اختر کے نام سے ایک شاعر گزرے ہیں جو تقسیم کے بعد ہندوستان چلے گئے انھوں نے کہا تھا ؎ جس کی حکمت نے یتیموں کو کیا درِّ یتیم اور غلاموں کو زمانے بھر کا مولا کردیا آنحضرت ﷺ کے اس طرز عمل کے نتیجے میں مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ یہ غریب لوگ جنکو اشراف قریش اپنے قریب نہیں آنے دیتے تھے انکا اس حد تک احترام کرتے تھے کہ دنیا شاید اس کی مثال لانے سے عاجز ہو۔ ان غریب غلاموں میں حضرت بلال ( رض) کا نام سب سے نمایاں ہے کیونکہ انھیں سب سے زیادہ آنحضرت کا قرب اور خدمت کا شرف میسر آیا۔ فتحِ مکہ کے موقع پر حضور نے انھیں کعبۃ اللہ کی چھت پر کھڑے ہو کر اذان کہنے کا حکم دیا تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ کل کا غلام آج کا کس قدر نامور فرد بن چکا ہے اور خلافتِ راشدہ میں انکے مقام و مرتبہ کا عالم یہ تھا کہ ایک دفعہ حضرت ابوسفیان اور حضرت عکرمہ جیسے بڑے بڑے اشرافِ قریش حضرت عمر فاروق ( رض) کے گھر کے سامنے اذن باریابی کے انتظار میں کھڑے تھے۔ دروازے پر ایک لڑکا دربانی کے فرائض انجام دے رہا تھا کہ اتنے میں حضرت بلال ( رض) تشریف لائے انھیں دیکھ کر دربان ایک طرف ہٹ گیا وہ بغیر اجازت طلب کیے اندر داخل ہوئے۔ حضرت فاروق اعظم ( رض) نے جیسے ہی دیکھا کہ بلال آئے ہیں ‘ اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا : جاء سیدنا و خادم سید نا ” ہمارا آقا آگیا اور ہمارے آقا کا خادم آگیا “۔ ابوسفیان برداشت نہ کرسکے ‘ بول اٹھے کہ یہ دن بھی آنا تھا کہ اشراف قریش اجازت کے طلبگار ہیں اور ایک آزاد کردہ غلام آتا ہے تو بغیر اجازت طلب کیے اندر چلا جاتا ہے۔ حضرت عکرمہ جو ابوجہل کے بیٹے تھے کہنے لگے ابوسفیان ہمیں شکایت کرنے کا کوئی حق نہیں بلانے والے نے سب کو ایک ہی وقت میں بلایا تھا۔ اس پکار پر جس نے پہلے لبیک کہا وہ آگے رہے گا اور جو پیچھے رہا وہ پیچھے رہے گا اس لیے اس میں شکایت کا کوئی موقع نہیں۔ مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِھِمْ مِّنْ شَیْئٍ اس میں انبیاء کرام کی طبیعت کے ایک خاص پہلو کی طرف اشارہ ہے اور اس حوالے سے یہ ہدایت دی گئی ہے۔ وہ پہلو یہ ہے کہ انبیاء کرام اللہ کے عطا کردہ مزاج کی وجہ سے اپنے اندر یہ امتیازی چیز رکھتے ہیں کہ انھیں دنیا کی ہر چیز سے زیادہ صرف ایک چیز کی خواہش اور طلب ہوتی ہے کہ جن لوگوں کی طرف وہ ہدایت لے کر آئے ہیں وہ ان کی ہدایت کو قبول کرلیں۔ یہ ان کی خواہش بعض دفعہ اس حد تک ان پر غالب آجاتی ہے کہ وہ زندگی کی تمام آسانیوں بلکہ ضروریات تک کو دعوت و تبلیغ کی نذر کردیتے ہیں اور راتوں کو اٹھ اٹھ کر ان کے ایمان اور ان کی مغفرت کے لیے دعائیں مانگتے ہیں اور ان کے ایمان کے لیے جو بھی مناسب تجویز ان کے سامنے آتی ہے وہ اس پر عمل کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں بعض دفعہ تو یہ صورت حال ہوتی ہے جس کی مثال انجیل میں دی گئی ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ لوگو ! تم نے دیکھا نہیں کہ جب کسی ریوڑ کے مالک کی ریوڑ میں سے کوئی بھیڑ گم ہوجاتی ہے تو وہ اس کی تلاش میں ندیوں ‘ نالوں اور صحرائوں تک میں مارا مارا پھرتا ہے اور وہ اس تگ و دو میں اپنے ریوڑ تک کو بھول جاتا ہے اور جب اسے وہ بھیڑ مل جاتی ہے تو پھر واپس اپنے لوگوں میں آکر کہتا ہے کہ لوگو میرے ساتھ خوشیاں منائو کہ مجھے اپنی بھیڑ مل گئی ہے۔ یہ کیفیت ایک پیغمبر کی ہوتی ہے۔ یہاں پروردگار اس طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ تمہیں اپنی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو تلاش کرنا چاہیے ‘ لیکن ایک ایک بھیڑ کے پیچھے اس قدر سرگرداں نہیں ہونا چاہیے کہ باقی ریوڑ کا خیال بھول جائے اور ممکن ہے کہ ان کو نقصان پہنچ جائے اس لیے کہ اگر آپ کی دعوت کے مخاطبین میں سے ایک ایک آدمی مسلمان نہیں ہوتا یعنی اگر آپ کی ایک ایک بھیڑ واپس اپنے گلے میں نہیں آتی تو آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ جو بھیڑ اپنے گلے سے اتنی دور نکل جائے وہ حقیقت میں بھیڑیئے کا حصہ ہوتی ہے۔ اسی طرح جو آدمی ایمان کے لیے تبلیغ و دعوت کی ساری کاوشوں کو نظر انداز کردیتا ہے۔ آپ سے اس کے بارے میں بالکل نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ ایمان کیوں نہیں لایا۔ البتہ اگر آپ نے ان اشراف قریش کو قریب کرنے کے لیے ان غریب لوگوں کو اپنے سے دور کردیا تو قیامت کے دن جب اس بارے میں آپ سے سوال ہوگا تو یہ اشراف قریش جن کے لیے ایمان کی خواہش میں آپ یہ سب کچھ کر رہے ہیں وہ وہاں آپ کے کسی کام نہیں آئیں گے۔ وہاں آپ کو خود ہی اس کا جواب دینا پڑے گا۔ اس لیے فرمایا کہ آپ ان غریب لوگوں کو اپنے سے دور نہ کریں۔ یہی آپ کی مجلس کی زینت اور آپ کے قافلے کا زیور ہیں اور اگر آپ نے خدانخواستہ ان کو دور کردیا تو آپ ظالموں میں سے ہوجائیں گے۔ ظلم کا مفہوم یہاں بظاہر ظالم کا لفظ آنحضرت ﷺ کے حوالے سے عجیب سا معلوم ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ظلم کا معنی بےانصافی یعنی ایک کا حق دوسرے کو دے دینا ہے یہاں یہ لفظ محبت کے حوالے سے استعمال ہو رہا ہے کہ آپ کی محبت اور شفقت کے مستحق یہ غریب لوگ ہیں جنھوں نے سب کچھ آپ اور اسلام کے لیے قربان کردیا ہے وہی اس قابل ہیں کہ آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھائیں اور آپ کی توجہ سے بہرہ ور ہوں۔ اگر آپ ان کی بجائے یہ حق اشراف قریش کو دے دیں گے تو یہ ان معنوں میں ظلم ہوگا کہ حق ان غریب صحابہ کا تھا آپ نے اشراف قریش کو دے دیا۔ یہ گویا ایک ایسا گلہ ہے جو کبھی کبھی محبت کرنے والوں کی زبان پر آجایا کرتا ہے۔ صحابہ چونکہ جاں نثار اور فداکار ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کے محب اور عشاق بھی تھے ‘ انھیں بجا طور پر یہ گلہ زیب دیتا تھا کیونکہ ان میں بعض تو ایسے تھے جن کے لیے حضور سے چند لمحے دور رہنا بھی بڑا گراں گزرتا تھا جیسے ایک مچھلی پانی سے باہر زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح یہ لوگ حضور کی صحبت سے باہر اپنے لیے زندگی دشوار سمجھتے تھے۔ ایک صحابی کا واقعہ اہل تفسیر نے نقل کیا ہے کہ انھوں نے ایک دن آنحضرت ﷺ نے عرض کیا کہ حضور جب تک میں آپ کی صحبت میں رہتا ہوں ‘ دل کو ایک اطمینان میسر رہتا ہے ‘ لیکن جب گھر چلا جاتا ہوں تو باوجود اس کے کہ اہل خانہ موجود ہوتے ہیں لیکن میرا دل اچاٹ ہوجاتا ہے ‘ میں جب تک آپ کو دیکھ نہیں لیتا مجھے چین نہیں پڑتا۔ کہا حضور یہاں تو ہمیں یہ نعمت میسر ہے کہ بار بار آپ کی زیارت ہوتی ہے لیکن قیامت کے دن جب آپ جنت کے اعلیٰ ترین درجے میں ہوں گے اور اگر ہمیں اللہ تعالیٰ نے جنت عطا کی بھی تو ظاہر ہے کہ ہم بہت نچلے درجے میں ہوں گے وہاں آپ کی زیارت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تو حضور اس جنت کا کیا فائدہ جس میں آپ کی زیارت نہ ہو سکے۔ اس پر قرآن کریم کی ایک آیت نازل ہوئی جس میں بتایا گیا کہ جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے انھیں قیامت کے دن حضور کا ساتھ نصیب ہوگا۔ حضور چاہے کتنے بھی بلند مقام پر ہوں حضور کی زیارت سے وہ برابر سعادت اندوز ہوتے رہیں گے۔ اشراف قریش کا یہ مطالبہ کہ ہم غریب مسلمانوں کے ساتھ آپ سے ملاقات نہیں کرسکتے یہ ہماری بڑائی اور عظمت کے خلاف ہے۔ آنے والی آیت کریمہ میں ان کے اس قول اور ان کی خواہش کے پیچھے جو چیز کارفرما تھی اور جو ان کی اصل بیماری تھی اس سے پردہ اٹھایا جا رہا ہے۔
Top