Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 52
وَ لَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ١ؕ مَا عَلَیْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَّ مَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَیْهِمْ مِّنْ شَیْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَ
: اور
لَا تَطْرُدِ
: دور نہ کریں آپ
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
يَدْعُوْنَ
: پکارتے ہیں
رَبَّهُمْ
: اپنا رب
بِالْغَدٰوةِ
: صبح
وَالْعَشِيِّ
: اور شام
يُرِيْدُوْنَ
: وہ چاہتے ہیں
وَجْهَهٗ
: اس کا رخ (رضا)
مَا
: نہیں
عَلَيْكَ
: آپ پر
مِنْ
: سے
حِسَابِهِمْ
: ان کا حساب
مِّنْ شَيْءٍ
: کچھ
وَّ
: اور
مَا
: نہیں
مِنْ
: سے
حِسَابِكَ
: آپ کا حساب
عَلَيْهِمْ
: ان پر
مِّنْ شَيْءٍ
: کچھ
فَتَطْرُدَهُمْ
: کہ تم انہیں دور کردو گے
فَتَكُوْنَ
: تو ہوجاؤ
مِنَ
: سے
الظّٰلِمِيْنَ
: ظالم (جمع)
اور تم ان لوگوں کو اپنے سے دور نہ کیجئے جو صبح شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی خوشنودی چاہتے ہیں ‘ ان کی ذمہ داری کا کوئی حصہ تم پر نہیں اور نہ تمہاری ذمہ داری کا کوئی حصہ ان پر ہے کہ تم ان کو اپنے سے دور کر کے ظالموں میں سے بن جائو
ارشاد فرمایا : وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ ط مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِھِمْ مِّنْ شَیْئٍ وَّمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْھِمْ مِّنْ شَیْئٍ فَتَطْرُدَھُمْ فَتَکُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ۔ (الانعام : 52) (اور تم ان لوگوں کو اپنے سے دور نہ کیجئے ‘ جو صبح شام اپنے رب کو پکارتے ہیں ‘ اس کی خوشنودی چاہتے ہیں۔ ان کی ذمہ داری کا کوئی حصہ تم پر نہیں اور نہ تمہاری ذمہ داری کا کوئی حصہ ان پر ہے ‘ کہ تم ان کو اپنے سے دور کر کے ظالموں میں سے بن جاؤ ) رسول ﷺ سے فرمایا جا رہا ہے کہ غریب صحابہ کو اشرافِ قریش کی وجہ سے دور نہ کرو روایات میں آتا ہے کہ مشرکینِ مکہ میں سے بعض بڑے بڑے لوگوں نے حضرت ابوطالب سے ملاقات کی اور کہا کہ ہم تمہارے بھتیجے کی باتوں پر غور کرنے کو تیار ہیں اور سمجھنا چاہتے ہیں کہ وہ کیا دعوت پیش کرتا ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ اس نے اپنے ارد گرد ایسے لوگ جمع کر رکھے ہیں جو انتہائی غریب اور معاشرے کے دھتکارے ہوئے لوگ ہیں۔ ان میں سے کچھ غلام ہیں اور کچھ ہمارے ہی آزاد کردہ ہیں ایسے بےیارومددگار ہیں اور کچھ جن کی معاشرے میں کوئی اہمیت نہیں ‘ ظاہر ہے کہ ہم ان کی موجودگی میں کس طرح آپ کے بھتیجے کے پاس جاسکتے اور اس کی بات سن سکتے ہیں۔ اس لیے آپ اپنے بھتیجے سے کہئے کہ وہ ہمارے لیے ایک وقت مقرر کرے اور اس میں ان تمام لوگوں کو دور ہٹا دے ‘ ہمیں ان کی پرچھائیں بھی گوارا نہیں۔ اس طرح ہم الگ بیٹھ کر ان سے بات چیت کرنے کو تیار ہیں۔ چناچہ حضرت ابوطالب نے آنحضرت ﷺ کو اس کا مشورہ دیا کہ آپ ان اشراف قریش سے الگ ملنے کا انتظام کریں یا جب بھی وہ آنا چاہیں تو آپ اپنے غریب ساتھیوں کو وہاں سے دور ہٹا دیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی اس پر سوچنا شروع کیا۔ صحابہ تک جب یہ بات پہنچی تو حضرت عمر فاروق ( رض) نے آنحضرت ﷺ کو مشورہ دیا کہ حضور اس میں حرج ہی کیا ہے ہم لوگ تو ہر وقت آپ کے پاس آنے جانے والے اور خدمت میں بیٹھنے والے لوگ ہیں۔ اگر اشراف قریش ہمارے ساتھیوں کی موجودگی میں ملنا پسند نہیں کرتے تو کوئی حرج نہیں ‘ آپ ان سے الگ مل لیا کیجئے۔ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ حضرت عمر فاروق کو جب یہ معلوم ہوا تو وہ فوراً حضور کی خدمت میں پہنچے ‘ معافی چاہی کہ میں نے آپ کو غلط مشورہ دیا اور آپ سے درخواست کی کہ آپ اللہ سے میرے لیے استغفار کریں تاکہ وہ میرا یہ گناہ معاف فرما دے۔ اس آیت کریمہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ آپ یہ مت سمجھئے کہ یہ لوگ اس طرح امتیازی سلوک کرنے سے راہ راست پر آجائیں گے یہ محض ان کا ایک بہانہ ہے۔ اصل بیماری ان کی وہی ہے کہ وہ اللہ کے سامنے حاضری کا اندیشہ نہیں رکھتے۔ آپ ان کے ساتھ کیسا بھی عزت کا سلوک کریں وہ کبھی آپ پر ایمان نہیں لائیں گے۔ رہی یہ بات کہ آپ ان کی خاطر ان غریب لوگوں کو دور کریں ‘ یہ کسی طرح مناسب نہیں۔ یہاں جو لفظ استعمال کیا گیا ہے وہ ہے وَلَا تَطْرُدِ ۔ اطراد عربی زبان میں دھتکارنے اور بدسلوکی سے نکالنے کو کہتے ہیں۔ قریش چونکہ غریب لوگوں کے لیے یہی لفظ استعمال کرتے تھے اس لیے قرآن کریم نے ان کے مطالبے کو رد کرتے ہوئے انہی کا لفظ استعمال کیا ‘ تاکہ ان کا جرم ریکارڈ پر رہے اور جب وہ اس کا جواب دیکھیں تو مزید انھیں اپنے جرم کی شدت کا احساس ہو اور ان کے خبث باطن پر چوٹ لگے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ایک تھوڑی سی وضاحت ضروری ہے وہ یہ کہ مشرکینِ مکہ کا یہ مطالبہ محض اتفاقی نہیں تھا بلکہ یہ ان کی معاشرتی اقدار اور ان کے تصور حیات کا نتیجہ تھا۔ مکہ معظمہ کی زندگی درحقیقت ایک طبقاتی زندگی تھی۔ وہاں کے رہنے والے یوں تو کئی طبقات میں بٹے ہوئے تھے لیکن امیر ‘ غریب اور حسب و نسب کی تقسیم سب سے زیادہ گہری تھی۔ قریش کسی کو جو ان کے اپنے خاندان سے تعلق نہ رکھتا ہو اپنے ہم پلہ ماننے کو تیار نہیں تھے۔ اور جہاں تک غریب لوگوں کا تعلق ہے وہ ان کو اپنی خدمت کے لیے تو برداشت کرسکتے تھے لیکن یہ سوچنا بھی انھیں گوارا نہیں تھا کہ یہ بھی معاشرے کے قابل ذکر لوگ ہیں۔ حیرت اور تشویش کی بات یہ ہے کہ قرآن کریم یہاں ان کے جس رویے کو بری طرح تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے اور جس طرح اسے جڑ سے اکھاڑ دینا چاہتا ہے اس کا نتیجہ تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ امت مسلمہ میں اس کے آثار بھی باقی نہ رہتے ‘ لیکن انتہائی دکھ کی بات ہے کہ باقی عالم اسلام کو تو چھوڑیئے خود یہ ملک جس کو وجود ہی اسلام کے نام سے ملا ہے ‘ اس میں ابھی تک نہایت گہری طبقاتی تفریق پائی جاتی ہے۔ جاگیردار ‘ امراء ‘ بڑے بڑے خاندانوں کے لوگ ‘ فوج ‘ سیاستدان اور بیوروکریٹس سارے ملک کے عوام کو اپنے ہاری اور کمین سمجھتے ہیں۔ اس لیے اپنے اپنے دوائر میں ان کے ساتھ نہایت توہین آمیز سلوک روا رکھنا بلکہ ظلم کرنا بھی ان کے لیے کوئی غلط بات نہیں۔ یہی حال مشرکینِ مکہ کا تھا اس لیے ان کا حضور سے یہ مطالبہ کوئی حیرت انگیز مطالبہ نہ تھا بلکہ ان کی معاشرتی زندگی کا نتیجہ تھا۔ قرآن کریم نے اس پر آنحضرت ﷺ کو جو ہدایات دی ہیں ‘ اس میں سب سے پہلی بات جو محسوس کرنے کی ہے وہ اس آیت کریمہ کا لہجہ ہے۔ جس میں بظاہر تنبیہ کا انداز ذرا تیکھا ہوگیا ہے۔ اس میں خطاب چونکہ آنحضرت ﷺ کو ہے اس لیے بعض طبیعتوں کو گراں گزرتا ہے۔ لیکن اگر قرآن کریم کا ایک اسلوب سمجھ لیا جائے تو پھر یہ واہمہ پیدا نہیں ہوتا وہ یہ ہے کہ جب بھی کفار کی جانب سے ایسی کوئی بےسروپا بات کہی جاتی ہے یا کوئی لایعنی مطالبہ کیا جاتا ہے تو قرآن کریم میں پروردگار اس کا جواب دیتے ہوئے کفار کو مخاطب نہیں کرتے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ اس قابل نہیں ہیں کہ پروردگار ان کو مخاطب کرے۔ اس لیے اس میں خطاب رسول اللہ ﷺ کو فرمایا جاتا ہے۔ لیکن روئے سخن کفار کی طرف ہوتا ہے ‘ یا یوں کہہ لیجئے کہ بات حضور سے کی جا رہی ہوتی ہے لیکن سنائی کفار کو جاتی ہے۔ اس لیے اس میں تنبیہ کا انداز اگر تیکھا ہوجاتا ہے یا کہیں غضب کا اظہار نظر آتا ہے تو اس کا تعلق اللہ کے رسول سے نہیں بلکہ ان کفار سے ہوتا ہے تاکہ وہ اچھی طرح اپنے انجام کے بارے میں سوچ لیں۔ یہاں بھی خطاب آنحضرت ﷺ سے ہو رہا ہے لیکن تنبیہ اور تہدید کا تعلق مشرکینِ مکہ سے ہے۔ دوسری چیز جو اس میں بہت قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ کفار مکہ جن لوگوں کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں بلکہ انھیں اپنے قریب آنا بھی ان کے لیے گوارا نہیں اور وہ حضور سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہماری موجودگی میں آپ ان کو دور رہنے کا حکم دیں۔ کیسی دلنواز بات ہے کہ اللہ تعالیٰ انہی کی وکالت فرما رہے ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو ابھی تک غلامی کا عذاب جھیل رہے ہیں اور ان میں وہ بھی ہیں جو نئے نئے غلامی کی زنجیریں کاٹ کے نکلے ہیں۔ لیکن معاشرے میں ان کو تحفظ دینے والا کوئی نہیں۔ ان میں ایسے بھی ہیں جو کسی اعلیٰ خاندان سے تعلق نہیں رکھتے باہر سے آئے ہوئے لوگ ہیں اور یہ تمام لوگ ساتھ ساتھ اس قدر بےسروسامان بھی ہیں کہ نہ پہننے کو مناسب کپڑا ہے اور نہ کھانے کو ڈھب کی روٹی پیٹ پر پتھر باندھتے اور چیتھڑے پہنتے ہیں لیکن اسلام کی موجودہ قوت یہی لوگ ہیں۔ ان کے بارے میں پروردگار ارشاد فرما رہے ہیں کہ آپ ان لوگوں کو اپنی صحبت سے دور مت ہٹایئے ان کا حال یہ ہے کہ وہ صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں۔ یعنی اہل دنیا سے اگرچہ ان کو کوئی ایسا قابل ذکر تعلق نہیں اور لوگ بھی ان کا نام لینے کے روادار نہیں ‘ لیکن انھوں نے اپنا رشتہ اللہ سے جوڑ رکھا ہے ‘ وہ اس ذات کو پکارتے ہیں جس کو پکارنے والا کبھی محروم نہیں رہتا اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ انھیں دولت دنیا کے نہ ہونے کے باعث غربت اور غریبی کے طعنے ملتے ہیں۔ انھیں نجانے کیسے کیسے خطابات سے یاد کیا جاتا ہے اور خود ان کے شب و روز اللہ ہی بہتر جانتا ہے کیسی تلخیوں میں گزرتے ہیں۔ لیکن ان سارے دکھوں کے باوجود اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے ان میں سے کوئی چیز نہیں مانگتے ‘ وہ اپنے رب کو پکارتے ہیں تو صرف اس لیے کہ وہ اپنے رب کی خوشنودی چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک اللہ کی خوشنودی کے مقابلے میں دنیا بھر کی دولت خزف ریزوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ سے کہا جا رہا ہے کہ کسی بھی تحریک کا سرمایہ اس کے جانثار اور فداکار لوگ ہوتے ہیں جو اپنی زندگیاں تک اس تحریک پر قربان کردیتے ہیں۔ یہ لوگ جنھوں نے محض اللہ کی رضا کے لیے دنیا کی ہر نعمت سے منہ موڑ لیا ہے اور دنیا کا ہر دکھ اسلام اور ایمان کی خاطر برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ لوگ اس لائق ہیں کہ آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھائیں یا وہ نابکار جنھیں آپ کی نبوت تک گوارا نہیں۔ وہ محض بہانے تراشتے ہیں تاکہ آپ کے لیے ایسے حالات پیدا کریں کہ آپ کے جانثار بھی آپ سے دور ہوجائیں۔ اس لیے آپ ان کو ہرگز اپنے سے دور نہ ہٹایئے۔ وہ لوگ جن کا آپ کے سوا دنیا میں کوئی نہیں اور وہ آپ کی صحبت میں اللہ کی رضا کو ڈھونڈتے ہیں ‘ وہی آپ کی عنایت کے ہر طرح مستحق اور آپ کی توجہ کے حقدار ہیں۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان غریبوں کو جس طرح اپنے سینے سے لگایا کہ انھوں نے اگر اپنی جانثاری میں کبھی کمی نہیں کی تو حضور کی شفقتیں بھی ہمیشہ ان پر پھوار کی طرح برستی رہیں۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ نے غریبوں ہی میں زندگی گزارنا اور غریبوں ہی کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اپنا معمول بنا لیا اور یہاں تک اللہ کے حضور عرض کی کہ یا اللہ میں چاہتا ہوں کہ میں غریبوں کے ساتھ زندہ رہوں اور قیامت کے دن غریبوں کے ساتھ اٹھایا جاؤں۔ سردار دیوان سنگھ مفتون متحدہ ہندوستان میں ریاست اخبار کے ایڈیٹر تھے اور وہ اپنی طرز کے واحد آدمی تھے جب انھوں نے آنحضرت ﷺ کا یہ قول سنا تو بےساختہ کہا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ جن ہونٹوں سے یہ قول نکلا ہے میں ان ہونٹوں کو بوسہ دوں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں غریبوں کا ساتھ دینے کے دعوے تو بہت رہے ہیں لیکن اگر کسی نے غربت کو عزت دی ہے اور فقر کو اپنا فخر فرمایا ہے اور فی الواقع غریبی امیری کا فرق مٹا کے رکھ دیا ہے اور طبقات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے تو وہ صرف رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی ہے۔ غیر مسلموں نے بھی جب کبھی غیر جانبداری سے آپ کے اس طرز عمل کو دیکھا ہے تو تسلیم کیے بغیر نہ رہ سکے۔ یوں تو اس کی مثالیں تاریخ میں بھری پڑی ہیں۔ لیکن ہماری قریبی تاریخ میں لاہور ہی میں ہری چند اختر کے نام سے ایک شاعر گزرے ہیں جو تقسیم کے بعد ہندوستان چلے گئے انھوں نے کہا تھا ؎ جس کی حکمت نے یتیموں کو کیا درِّ یتیم اور غلاموں کو زمانے بھر کا مولا کردیا آنحضرت ﷺ کے اس طرز عمل کے نتیجے میں مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ یہ غریب لوگ جنکو اشراف قریش اپنے قریب نہیں آنے دیتے تھے انکا اس حد تک احترام کرتے تھے کہ دنیا شاید اس کی مثال لانے سے عاجز ہو۔ ان غریب غلاموں میں حضرت بلال ( رض) کا نام سب سے نمایاں ہے کیونکہ انھیں سب سے زیادہ آنحضرت کا قرب اور خدمت کا شرف میسر آیا۔ فتحِ مکہ کے موقع پر حضور نے انھیں کعبۃ اللہ کی چھت پر کھڑے ہو کر اذان کہنے کا حکم دیا تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ کل کا غلام آج کا کس قدر نامور فرد بن چکا ہے اور خلافتِ راشدہ میں انکے مقام و مرتبہ کا عالم یہ تھا کہ ایک دفعہ حضرت ابوسفیان اور حضرت عکرمہ جیسے بڑے بڑے اشرافِ قریش حضرت عمر فاروق ( رض) کے گھر کے سامنے اذن باریابی کے انتظار میں کھڑے تھے۔ دروازے پر ایک لڑکا دربانی کے فرائض انجام دے رہا تھا کہ اتنے میں حضرت بلال ( رض) تشریف لائے انھیں دیکھ کر دربان ایک طرف ہٹ گیا وہ بغیر اجازت طلب کیے اندر داخل ہوئے۔ حضرت فاروق اعظم ( رض) نے جیسے ہی دیکھا کہ بلال آئے ہیں ‘ اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا : جاء سیدنا و خادم سید نا ” ہمارا آقا آگیا اور ہمارے آقا کا خادم آگیا “۔ ابوسفیان برداشت نہ کرسکے ‘ بول اٹھے کہ یہ دن بھی آنا تھا کہ اشراف قریش اجازت کے طلبگار ہیں اور ایک آزاد کردہ غلام آتا ہے تو بغیر اجازت طلب کیے اندر چلا جاتا ہے۔ حضرت عکرمہ جو ابوجہل کے بیٹے تھے کہنے لگے ابوسفیان ہمیں شکایت کرنے کا کوئی حق نہیں بلانے والے نے سب کو ایک ہی وقت میں بلایا تھا۔ اس پکار پر جس نے پہلے لبیک کہا وہ آگے رہے گا اور جو پیچھے رہا وہ پیچھے رہے گا اس لیے اس میں شکایت کا کوئی موقع نہیں۔ مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِھِمْ مِّنْ شَیْئٍ اس میں انبیاء کرام کی طبیعت کے ایک خاص پہلو کی طرف اشارہ ہے اور اس حوالے سے یہ ہدایت دی گئی ہے۔ وہ پہلو یہ ہے کہ انبیاء کرام اللہ کے عطا کردہ مزاج کی وجہ سے اپنے اندر یہ امتیازی چیز رکھتے ہیں کہ انھیں دنیا کی ہر چیز سے زیادہ صرف ایک چیز کی خواہش اور طلب ہوتی ہے کہ جن لوگوں کی طرف وہ ہدایت لے کر آئے ہیں وہ ان کی ہدایت کو قبول کرلیں۔ یہ ان کی خواہش بعض دفعہ اس حد تک ان پر غالب آجاتی ہے کہ وہ زندگی کی تمام آسانیوں بلکہ ضروریات تک کو دعوت و تبلیغ کی نذر کردیتے ہیں اور راتوں کو اٹھ اٹھ کر ان کے ایمان اور ان کی مغفرت کے لیے دعائیں مانگتے ہیں اور ان کے ایمان کے لیے جو بھی مناسب تجویز ان کے سامنے آتی ہے وہ اس پر عمل کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں بعض دفعہ تو یہ صورت حال ہوتی ہے جس کی مثال انجیل میں دی گئی ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ لوگو ! تم نے دیکھا نہیں کہ جب کسی ریوڑ کے مالک کی ریوڑ میں سے کوئی بھیڑ گم ہوجاتی ہے تو وہ اس کی تلاش میں ندیوں ‘ نالوں اور صحرائوں تک میں مارا مارا پھرتا ہے اور وہ اس تگ و دو میں اپنے ریوڑ تک کو بھول جاتا ہے اور جب اسے وہ بھیڑ مل جاتی ہے تو پھر واپس اپنے لوگوں میں آکر کہتا ہے کہ لوگو میرے ساتھ خوشیاں منائو کہ مجھے اپنی بھیڑ مل گئی ہے۔ یہ کیفیت ایک پیغمبر کی ہوتی ہے۔ یہاں پروردگار اس طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ تمہیں اپنی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو تلاش کرنا چاہیے ‘ لیکن ایک ایک بھیڑ کے پیچھے اس قدر سرگرداں نہیں ہونا چاہیے کہ باقی ریوڑ کا خیال بھول جائے اور ممکن ہے کہ ان کو نقصان پہنچ جائے اس لیے کہ اگر آپ کی دعوت کے مخاطبین میں سے ایک ایک آدمی مسلمان نہیں ہوتا یعنی اگر آپ کی ایک ایک بھیڑ واپس اپنے گلے میں نہیں آتی تو آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ جو بھیڑ اپنے گلے سے اتنی دور نکل جائے وہ حقیقت میں بھیڑیئے کا حصہ ہوتی ہے۔ اسی طرح جو آدمی ایمان کے لیے تبلیغ و دعوت کی ساری کاوشوں کو نظر انداز کردیتا ہے۔ آپ سے اس کے بارے میں بالکل نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ ایمان کیوں نہیں لایا۔ البتہ اگر آپ نے ان اشراف قریش کو قریب کرنے کے لیے ان غریب لوگوں کو اپنے سے دور کردیا تو قیامت کے دن جب اس بارے میں آپ سے سوال ہوگا تو یہ اشراف قریش جن کے لیے ایمان کی خواہش میں آپ یہ سب کچھ کر رہے ہیں وہ وہاں آپ کے کسی کام نہیں آئیں گے۔ وہاں آپ کو خود ہی اس کا جواب دینا پڑے گا۔ اس لیے فرمایا کہ آپ ان غریب لوگوں کو اپنے سے دور نہ کریں۔ یہی آپ کی مجلس کی زینت اور آپ کے قافلے کا زیور ہیں اور اگر آپ نے خدانخواستہ ان کو دور کردیا تو آپ ظالموں میں سے ہوجائیں گے۔ ظلم کا مفہوم یہاں بظاہر ظالم کا لفظ آنحضرت ﷺ کے حوالے سے عجیب سا معلوم ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ظلم کا معنی بےانصافی یعنی ایک کا حق دوسرے کو دے دینا ہے یہاں یہ لفظ محبت کے حوالے سے استعمال ہو رہا ہے کہ آپ کی محبت اور شفقت کے مستحق یہ غریب لوگ ہیں جنھوں نے سب کچھ آپ اور اسلام کے لیے قربان کردیا ہے وہی اس قابل ہیں کہ آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھائیں اور آپ کی توجہ سے بہرہ ور ہوں۔ اگر آپ ان کی بجائے یہ حق اشراف قریش کو دے دیں گے تو یہ ان معنوں میں ظلم ہوگا کہ حق ان غریب صحابہ کا تھا آپ نے اشراف قریش کو دے دیا۔ یہ گویا ایک ایسا گلہ ہے جو کبھی کبھی محبت کرنے والوں کی زبان پر آجایا کرتا ہے۔ صحابہ چونکہ جاں نثار اور فداکار ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کے محب اور عشاق بھی تھے ‘ انھیں بجا طور پر یہ گلہ زیب دیتا تھا کیونکہ ان میں بعض تو ایسے تھے جن کے لیے حضور سے چند لمحے دور رہنا بھی بڑا گراں گزرتا تھا جیسے ایک مچھلی پانی سے باہر زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح یہ لوگ حضور کی صحبت سے باہر اپنے لیے زندگی دشوار سمجھتے تھے۔ ایک صحابی کا واقعہ اہل تفسیر نے نقل کیا ہے کہ انھوں نے ایک دن آنحضرت ﷺ نے عرض کیا کہ حضور جب تک میں آپ کی صحبت میں رہتا ہوں ‘ دل کو ایک اطمینان میسر رہتا ہے ‘ لیکن جب گھر چلا جاتا ہوں تو باوجود اس کے کہ اہل خانہ موجود ہوتے ہیں لیکن میرا دل اچاٹ ہوجاتا ہے ‘ میں جب تک آپ کو دیکھ نہیں لیتا مجھے چین نہیں پڑتا۔ کہا حضور یہاں تو ہمیں یہ نعمت میسر ہے کہ بار بار آپ کی زیارت ہوتی ہے لیکن قیامت کے دن جب آپ جنت کے اعلیٰ ترین درجے میں ہوں گے اور اگر ہمیں اللہ تعالیٰ نے جنت عطا کی بھی تو ظاہر ہے کہ ہم بہت نچلے درجے میں ہوں گے وہاں آپ کی زیارت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تو حضور اس جنت کا کیا فائدہ جس میں آپ کی زیارت نہ ہو سکے۔ اس پر قرآن کریم کی ایک آیت نازل ہوئی جس میں بتایا گیا کہ جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے انھیں قیامت کے دن حضور کا ساتھ نصیب ہوگا۔ حضور چاہے کتنے بھی بلند مقام پر ہوں حضور کی زیارت سے وہ برابر سعادت اندوز ہوتے رہیں گے۔ اشراف قریش کا یہ مطالبہ کہ ہم غریب مسلمانوں کے ساتھ آپ سے ملاقات نہیں کرسکتے یہ ہماری بڑائی اور عظمت کے خلاف ہے۔ آنے والی آیت کریمہ میں ان کے اس قول اور ان کی خواہش کے پیچھے جو چیز کارفرما تھی اور جو ان کی اصل بیماری تھی اس سے پردہ اٹھایا جا رہا ہے۔
Top