Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 54
وَ اِذَا جَآءَكَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلٰى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ١ۙ اَنَّهٗ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوْٓءًۢا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ اَصْلَحَ فَاَنَّهٗ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَاِذَا : اور جب جَآءَكَ : آپ کے پاس آئیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ يُؤْمِنُوْنَ : ایمان رکھتے ہیں بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتیں فَقُلْ : تو کہ دیں سَلٰمٌ : سلام عَلَيْكُمْ : تم پر كَتَبَ : لکھ لی رَبُّكُمْ : تمہارا رب عَلٰي : پر نَفْسِهِ : اپنی ذات الرَّحْمَةَ : رحمت اَنَّهٗ : کہ مَنْ : جو عَمِلَ : کرے مِنْكُمْ : تم سے سُوْٓءًۢا : کوئی برائی بِجَهَالَةٍ : نادانی سے ثُمَّ : پھر تَابَ : توبہ کرے مِنْۢ بَعْدِهٖ : اس کے بعد وَاَصْلَحَ : اور نیک ہوجائے فَاَنَّهٗ : تو بیشک اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
اور جب تمہارے پاس وہ لوگ آیا کریں جو ہماری آیات پر ایمان لائے تو تم ان کو کہو کہ تم پر سلامتی ہو تمہاری رب نے اپنے اوپر رحمت واجب کر رکھی ہے جو کوئی تم میں سے نادانی سے کوئی برائی کر بیٹھے گا پھر اس کے بعد وہ توبہ اور اصلاح کرلے گا تو وہ بخشنے والا اور مہربان ہے
وَاِذَاجَآئَکَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌعَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ لا اَنَّہٗ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوْٓئًما بِجَھَالَۃِ ثُمَّ تَابَ مِنْم بَعْدِہٖ وَ اَصْلَحَ فَاَنَّہٗ غَفُوْرٌرَّحِیْمُٗ ۔ (الانعام : 54) (اور جب تمہارے پاس وہ لوگ آیا کریں جو ہماری آیات پر ایمان لائے تو تم ان کو کہو کہ تم پر سلامتی ہو تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت واجب کر رکھی ہے جو کوئی تم میں سے نادانی سے کوئی برائی کر بیٹھے گا پھر اس کے بعد وہ توبہ اور اصلاح کرلے گا تو وہ بخشنے والا اور مہربان ہے ) اللہ تعالیٰ اہل ایمان پر سلام بھیجتا ہے اشراف قریش کا اصرار تو یہ تھا کہ آپ انھیں اپنے سے دور کریں تاکہ ہم آپ کے پاس آسکیں۔ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ آیات میں آنحضرت ﷺ کو اس سے منع فرما دیا کہ آپ اشراف قریش کی خاطر ان صحابہ کو ہرگز اپنی صحبت سے دور نہ فرمائیں۔ تصور کیجئے کہ آنحضرت ﷺ نے جب یہ مژدہ صحابہ کو سنایا ہوگا تو صحابہ یہ سن کر اپنی قسمت پر ناز کرتے ہوئے یقینا آنحضرت کی بارگاہ کی طرف دیوانہ وار بڑھے ہوں گے۔ کیونکہ انھیں حضور سے چند لمحوں کی جدائی بھی گوارا نہ تھی اور پھر جب انھوں نے دیکھا کہ ان چند لمحوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے خود مداخلت فرمائی ہے تو اب ان کے شوق کی فراوانی اور اس کی وسعت کا کیا اندازہ ہوسکتا ہے کہ وہ کس بےتابی اور بےچینی سے لپکتے ہوئے حضور کی خدمت میں آئے ہوں گے۔ بخدا ان غریب صحابہ کی عزت و حرمت کا کیا ٹھکانہ ہے اور دنیا میں شاید ہی کسی کو اس سے پہلے کبھی یہ عزت ملی ہو اور آئندہ تو ملنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ وحی الٰہی کا سلسلہ بند ہوگیا کہ خود پروردگار اپنے عظیم رسول کو جس کے سامنے کائنات کی عظمتیں ہیچ ہیں حکم دے رہا ہے کہ جب آپ کے یہ غریب صحابہ آپ کے پاس آئیں تو آپ ان کا خیر مقدم کرتے ہوئے ہماری طرف سے انھیں سلام پہنچائیں اور سلامتی کی نوید سنائیں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے اتنے بڑے اعزاز پر صحابہ کی کیفیت کیا ہوگی۔ لیکن آج ہم جب ساڑھے چودہ سو سال کے بعد بھی اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت کرتے ہیں تو بےساختہ یہ خیال آتا ہے ع یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر رحمت واجب کرلی ہے اس آیت میں سَلٰمٌعَلَیْکُمْکا لفظ استعمال ہوا ہے ہم بھی اپنی مجلسی زندگی میں السلام علیکم استعمال کرتے ہیں یہ وہی لفظ ہے ہم اسے کسی مجلس میں آتے ہوئے سلامِ اجازت کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور یا کسی مجلس سے رخصت ہوتے ہوئے سلام رخصت کے طور پر بولتے ہیں لیکن عربوں میں اس کا ایک اور استعمال بھی ہے۔ قرآن کریم نے اسی معنی میں یہاں استعمال کیا ہے وہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی سے ملنے آتا ہے تو اس کا استقبال کرتے ہوئے اسے خود آگے بڑھ کر سلام کہا جاتا ہے اسے خیر مقدمی سلام کہتے ہیں۔ قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے کہ قیامت کے دن فرشتے اہل جنت کا استقبال اسی لفظ سے کریں گے اور ان کو خوش آمدید کہتے ہوئے انھیں جنت میں داخلے کی درخواست کریں گے۔ یہاں بھی حضور سے فرمایا جا رہا ہے کہ جب وہ آپ کی مجلس میں آئیں تو آپ سَلٰمٌعَلَیْکُمْ کہہ کر ان کا خیر مقدم کریں۔ اس سے ان کے دل میں جو کھٹکا پیدا ہوگیا تھا کہ شاید ہمیں حضور کی صحبت سے کبھی کبھی دور رہنا پڑے گا اور کہیں یہ ہمارے لیے محرومی کا باعث نہ بن جائے یہ کھٹکا ان کا دور ہوجائے گا۔ جب انھیں یہ معلوم ہوگا کہ پروردگار خود ان پر سلامتی بھیج رہے ہیں اور چونکہ رسول اللہ ﷺ کی زبان سے یہ سلامتی بھیجی جا رہی ہے اس لحاظ سے کہ سلامتی میں حضور کی دعا بھی شامل ہے۔ پھر اسی پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ مزید ارشاد ہوا کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ ” تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کرلیا ہے “} اس میں مخاطب صحابہ ہیں اگرچہ یہ رحمت پوری کائنات کے لیے ہے ‘ لیکن صحابہ کو مخاطب کر کے بطور خاص نوازا جا رہا ہے۔ احادیث مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت کو بیان کرتے ہوئے حضرت سلمان فارسی فرماتے ہیں کہ ہم نے تورات میں یہ لکھا دیکھا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آسمان زمین اور اس کی ساری مخلوقات کو پیدا فرمایا تو صفت رحمت کے سو حصے کر کے اس میں سے ایک حصہ ساری مخلوقات کو تقسیم کردیا چناچہ انسان اور جانور اور دوسری مخلوقات میں جہاں بھی کوئی اثر رحمت کا پایا جاتا ہے وہ اسی حصہ تقسیم شدہ کا اثر ہے۔ ماں باپ اور اولاد میں ‘ بھائی بہنوں میں ‘ شوہر بیوی میں ‘ عام رشتہ داروں میں ‘ پڑوسیوں اور دوسرے دوستوں میں جو باہمی ہمدردی اور محبت و رحمت کے تعلقات مشاہدہ کیے جاتے ہیں وہ سب اسی ایک حصہ رحمت کے نتائج ہیں۔ باقی ننانوے حصے رحمت کے اللہ تعالیٰ نے خود اپنے لیے رکھے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنی مخلوق پر کیسی اور کس درجے ہے۔ یہ تو عام مخلوقات کا حال ہے۔ لیکن جن خوش نصیب انسانوں سے خطاب فرما کر پروردگار اپنی رحمت کا ذکر فرما رہا ہے کیا کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کیسی کچھ رحمت ان کے حال پر ہوگی اور پھر مزید یہ کہ اس آیت کریمہ میں رحمت کے ذکر کے ساتھ ساتھ رَبُّکُمْ کا ذکر بھی ہے یعنی وہ ذات جس نے اپنے اوپر رحمت لازم کی ہے وہ صرف خالق کائنات اور تمہارا خالق ہی نہیں بلکہ تمہارا رب بھی ہے۔ رب کا معنی ہے زندگی کے ہر دور ‘ ہرحال اور ہر ضرورت کے مطابق تربیت کا سامان کرنے والا۔ اس کی ادنیٰ مثال دیکھنی ہو تو ماں کی ذات میں دیکھ لو اس کے اندر تربیت اور پرورش کا جو بےپناہ جذبہ ہمیں مامتا کی صورت میں دکھائی دیتا ہے کہ وہ دنیا کا ہر دکھ اٹھاکر اپنے بچے کے سکھ کا انتظام کرتی ہے وہ بڑے سے بڑے خطرے کا سامنا کرتے ہوئے اپنے بچے کو خطرے میں مبتلا نہیں دیکھ سکتی۔ وہ زندگی کی ہر راحت اپنے بچے پر قربان کردیتی ہے۔ اس کی نگرانی کی آنکھ اور اس کے دل میں محبت کے جوش سے اٹھنے والا ولولہ برابر اپنا کام کرتا رہتا ہے۔ یہ پرورش کی ایک محدود مثال ہے ‘ پروردگار اس سے بڑھ کر اپنے بندوں کی ضروریات کو جاننے والا اور ایک ماں سے بڑھ کر پرورش کا جوش اپنے اندر رکھنے والا ہے۔ جب وہ کسی کو اپنی رحمت کا حوالہ دیتے ہوئے اپنا تعارف بھی کراتا ہے کہ میں تمہارا رب ہوں اور پھر میں نے اپنے اوپر رحمت لازم کرلی ہے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ پھر ان صحابہ کی قسمت اپنی سرفرازی اور اپنی گراں باری میں کیا قدر و قیمت رکھتی ہوگی۔ توبہ اور اصلاح کے بعد گناہ معاف ہوجاتے ہیں انسانی زندگی کتنی بھی پاکیزہ کیوں نہ ہو ‘ اس میں کبھی کسی چال کا لڑکھڑاہٹ سے آشنا نہ ہونا اور کسی خیال میں گناہ کی آلودگی کا در نہ آنا یہ اللہ کے نبیوں کے سوا بہت مشکل بات ہے۔ اس لیے پروردگار نے اپنے بندوں کی فطری کمزوریوں کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنی رحمت کا اظہار توبہ کی صورت میں فرمایا۔ یہاں بطور خاص ان صحابہ کو سابقہ اور موجودہ غلطیوں اور کوتاہیوں کے حوالے سے یہ مژدہ سنایا جا رہا ہے کہ اس بات کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا کہ تم سے پہلے بھی غلطیاں ہوئی ہوں اور آئندہ بھی شاید ہوں لیکن گھبرانے کی بات نہیں ہم تمہارے لیے بطور خاص اور پوری نوع انسانی کے لیے بطور عام ایک ضابطہ عطا فرما رہے ہیں کہ اَنَّہٗ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوْٓئًما بِجَھَالَۃِ ثُمَّ تَابَ مِنْم بَعْدِہٖ وَ اَصْلَحَ فَاَنَّہٗ غَفُوْرٌرَّحِیْم یعنی جو آدمی جہالت سے کوئی برا کام کر بیٹھے اور اس کے بعد وہ توبہ کرلے اور اپنے عمل کو درست کرلے تو اللہ تعالیٰ بہت مغفرت کرنے والے ہیں ‘ اس کے گناہ کو معاف فرما دیں گے اور بہت رحمت کرنے والے ہیں کہ صرف معافی پر کفایت نہ ہوگی بلکہ انعامات سے بھی نوازا جائے گا۔ اس آیت میں لفظ جہالت سے بظاہر یہ خیال ہوسکتا ہے کہ گناہ کی معافی کا وعدہ صرف اس صورت میں ہے جب کہ ناواقفیت اور جہل کے سبب سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے ‘ جان بوجھ کر گناہ کرنے والا اس حکم میں داخل نہیں ‘ لیکن حقیقت یہ نہیں کیونکہ جہالت سے مراد اس جگہ عمل جہالت ہے ‘ یعنی ایسا کام کر بیٹھے جیسا نتیجہ سے جاہل و بیخبر کیا کرتا ہے ‘ یہ ضرور نہیں کہ وہ واقع میں جاہل ہو ‘ اس کی تائید خود لفظ جہالت سے بھی ہوتی ہے کہ یہاں لفظ جہل کے بجائے جہالت کا لفظ شاید اسی کی طرف اشارہ کرنے کے لیے ہی استعمال کیا گیا ہے کیونکہ جہل تو علم کا مقابل ہے اور جہالت حلم و وقار کے مقابل ہے یعنی لفظ جہالت محاورات میں بولا ہی جاتا ہے عملی جہالت کے لیے اور اگر غور کیا جائے تو گناہ جب بھی کسی سے سرزد ہوتا ہے تو اس عملی جہالت ہی کی وجہ سے ہوتا ہے ‘ اسی لیے بعض بزرگوں کا قول ہے کہ جو شخص اللہ و رسول ﷺ کے کسی حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ جاہل ہے ‘ مراد اس سے یہی عملی جہالت ہے ناواقف اور بےعلم ہونا ضروری نہیں کیونکہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کی بیشمار نصوص اس پر دلالت کرتی ہیں کہ توبہ کرنے سے ہر گناہ معاف ہوسکتا ہے خواہ غفلت و جہل کی وجہ سے سرزد ہوا ہو یا جان بوجھ کر شرارتِ نفس اور اتباعِ ہویٰ کی وجہ سے۔ اس جگہ یہ بات خاص طور پر قابل نظر ہے کہ اس آیت میں گناہگاروں سے مغفرت اور رحمت کا جو وعدہ فرمایا گیا ہے وہ دو چیزوں کے ساتھ مشروط ہے ایک توبہ ‘ دوسرے اصلاحِ عمل ‘ توبہ کے معنی ہیں گناہ پر ندامت۔ حدیث میں ارشاد ہے انما التوبہ الندم ” یعنی توبہ نام ہے ندامت کا “۔ دوسرے آئندہ کے لیے اصلاح عمل ‘ اس اصلاح عمل میں یہ بھی داخل ہے کہ آئندہ اس گناہ کے پاس نہ جانے کا عزم اور پورا اہتمام کرے اور یہ بھی شامل ہے کہ سابقہ گناہ سے جو حقوق کسی کے ضائع ہوئے ہیں تاحد اختیار ان کو ادا کرے خواہ وہ حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد ‘ حقوق اللہ کی مثال نماز ‘ روزہ ‘ زکوٰۃ ‘ حج وغیرہ فرائض میں کوتاہی کرنا ہے اور حقوق العباد کی مثال کسی کے مال پر ناجائز قبضہ و تصرف کرنا ‘ کسی کی آبرو پر حملہ کرنا ‘ کسی کو گالی گلوچ کے ذریعہ یا کسی دوسری صورت سے ایذاء پہنچانا ہے۔ اس لیے تکمیلِ توبہ کے لیے جس طرح یہ ضروری ہے کہ گزشتہ گناہ پر ندامت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرے اور آئندہ کے لیے اپنے عمل کو درست رکھے ‘ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ جو نمازیں یا روزے غفلت سے ترک ہوگئے ہیں ان کی قضا کرے ‘ جو زکوٰۃ نہیں دی گئی وہ اب ادا کرے ‘ قربانی یا صدقۃ الفطر جیسے واجبات میں کوتاہی ہوئی ہے تو ان کو ادا کرے ‘ حج فرض ہونے کے باوجود ادا نہیں کیا تو اب ادا کرے اور خود نہ کرسکے تو حج بدل کرائے اور اگر اپنے سامنے حج بدل اور دوسری قضائوں کا موقع پورا نہ ملے تو وصیت کرے کہ اس کے وارث اس کے ذمہ عائد شدہ واجبات کا فدیہ یا حج بدل کا انتظام کریں ‘ خلاصہ یہ ہے کہ اصلاح عمل کے لیے صرف آئندہ کا عمل درست کرلینا کافی نہیں ‘ پچھلے فرائض و واجبات کو ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ اسی طرح حقوق العباد میں اگر کسی کا مال ناجائز طور پر لیا ہے تو اس کو واپس کرے یا اس سے معاف کرائے اور کسی کو ہاتھ یا زبان سے ایذاء پہنچائی ہے تو اس سے معاف کرائے ‘ اور اگر اس سے معاف کرانا اختیار میں نہ ہو مثلاً وہ مرجائے یا ایسی جگہ چلا جائے جس کا اس کو پتہ معلوم نہیں تو اس کی تدبیر یہ ہے کہ اس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائے مغفرت کرتے رہنے کا التزام کرے ‘ اس سے امید ہے کہ صاحب حق راضی ہوجائے گا اور یہ شخص سبکدوش ہوجائے گا۔ اگلی آیت کریمہ میں حاصل مضمون کے طور پر آخری بات فرمائی گئی۔
Top