Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 54
وَ اِذَا جَآءَكَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلٰى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ١ۙ اَنَّهٗ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوْٓءًۢا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ اَصْلَحَ فَاَنَّهٗ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَاِذَا
: اور جب
جَآءَكَ
: آپ کے پاس آئیں
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ
يُؤْمِنُوْنَ
: ایمان رکھتے ہیں
بِاٰيٰتِنَا
: ہماری آیتیں
فَقُلْ
: تو کہ دیں
سَلٰمٌ
: سلام
عَلَيْكُمْ
: تم پر
كَتَبَ
: لکھ لی
رَبُّكُمْ
: تمہارا رب
عَلٰي
: پر
نَفْسِهِ
: اپنی ذات
الرَّحْمَةَ
: رحمت
اَنَّهٗ
: کہ
مَنْ
: جو
عَمِلَ
: کرے
مِنْكُمْ
: تم سے
سُوْٓءًۢا
: کوئی برائی
بِجَهَالَةٍ
: نادانی سے
ثُمَّ
: پھر
تَابَ
: توبہ کرے
مِنْۢ بَعْدِهٖ
: اس کے بعد
وَاَصْلَحَ
: اور نیک ہوجائے
فَاَنَّهٗ
: تو بیشک اللہ
غَفُوْرٌ
: بخشنے والا
رَّحِيْمٌ
: مہربان
اور جب تمہارے پاس وہ لوگ آیا کریں جو ہماری آیات پر ایمان لائے تو تم ان کو کہو کہ تم پر سلامتی ہو تمہاری رب نے اپنے اوپر رحمت واجب کر رکھی ہے جو کوئی تم میں سے نادانی سے کوئی برائی کر بیٹھے گا پھر اس کے بعد وہ توبہ اور اصلاح کرلے گا تو وہ بخشنے والا اور مہربان ہے
وَاِذَاجَآئَکَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌعَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ لا اَنَّہٗ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوْٓئًما بِجَھَالَۃِ ثُمَّ تَابَ مِنْم بَعْدِہٖ وَ اَصْلَحَ فَاَنَّہٗ غَفُوْرٌرَّحِیْمُٗ ۔ (الانعام : 54) (اور جب تمہارے پاس وہ لوگ آیا کریں جو ہماری آیات پر ایمان لائے تو تم ان کو کہو کہ تم پر سلامتی ہو تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت واجب کر رکھی ہے جو کوئی تم میں سے نادانی سے کوئی برائی کر بیٹھے گا پھر اس کے بعد وہ توبہ اور اصلاح کرلے گا تو وہ بخشنے والا اور مہربان ہے ) اللہ تعالیٰ اہل ایمان پر سلام بھیجتا ہے اشراف قریش کا اصرار تو یہ تھا کہ آپ انھیں اپنے سے دور کریں تاکہ ہم آپ کے پاس آسکیں۔ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ آیات میں آنحضرت ﷺ کو اس سے منع فرما دیا کہ آپ اشراف قریش کی خاطر ان صحابہ کو ہرگز اپنی صحبت سے دور نہ فرمائیں۔ تصور کیجئے کہ آنحضرت ﷺ نے جب یہ مژدہ صحابہ کو سنایا ہوگا تو صحابہ یہ سن کر اپنی قسمت پر ناز کرتے ہوئے یقینا آنحضرت کی بارگاہ کی طرف دیوانہ وار بڑھے ہوں گے۔ کیونکہ انھیں حضور سے چند لمحوں کی جدائی بھی گوارا نہ تھی اور پھر جب انھوں نے دیکھا کہ ان چند لمحوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے خود مداخلت فرمائی ہے تو اب ان کے شوق کی فراوانی اور اس کی وسعت کا کیا اندازہ ہوسکتا ہے کہ وہ کس بےتابی اور بےچینی سے لپکتے ہوئے حضور کی خدمت میں آئے ہوں گے۔ بخدا ان غریب صحابہ کی عزت و حرمت کا کیا ٹھکانہ ہے اور دنیا میں شاید ہی کسی کو اس سے پہلے کبھی یہ عزت ملی ہو اور آئندہ تو ملنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ وحی الٰہی کا سلسلہ بند ہوگیا کہ خود پروردگار اپنے عظیم رسول کو جس کے سامنے کائنات کی عظمتیں ہیچ ہیں حکم دے رہا ہے کہ جب آپ کے یہ غریب صحابہ آپ کے پاس آئیں تو آپ ان کا خیر مقدم کرتے ہوئے ہماری طرف سے انھیں سلام پہنچائیں اور سلامتی کی نوید سنائیں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے اتنے بڑے اعزاز پر صحابہ کی کیفیت کیا ہوگی۔ لیکن آج ہم جب ساڑھے چودہ سو سال کے بعد بھی اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت کرتے ہیں تو بےساختہ یہ خیال آتا ہے ع یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر رحمت واجب کرلی ہے اس آیت میں سَلٰمٌعَلَیْکُمْکا لفظ استعمال ہوا ہے ہم بھی اپنی مجلسی زندگی میں السلام علیکم استعمال کرتے ہیں یہ وہی لفظ ہے ہم اسے کسی مجلس میں آتے ہوئے سلامِ اجازت کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور یا کسی مجلس سے رخصت ہوتے ہوئے سلام رخصت کے طور پر بولتے ہیں لیکن عربوں میں اس کا ایک اور استعمال بھی ہے۔ قرآن کریم نے اسی معنی میں یہاں استعمال کیا ہے وہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی سے ملنے آتا ہے تو اس کا استقبال کرتے ہوئے اسے خود آگے بڑھ کر سلام کہا جاتا ہے اسے خیر مقدمی سلام کہتے ہیں۔ قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے کہ قیامت کے دن فرشتے اہل جنت کا استقبال اسی لفظ سے کریں گے اور ان کو خوش آمدید کہتے ہوئے انھیں جنت میں داخلے کی درخواست کریں گے۔ یہاں بھی حضور سے فرمایا جا رہا ہے کہ جب وہ آپ کی مجلس میں آئیں تو آپ سَلٰمٌعَلَیْکُمْ کہہ کر ان کا خیر مقدم کریں۔ اس سے ان کے دل میں جو کھٹکا پیدا ہوگیا تھا کہ شاید ہمیں حضور کی صحبت سے کبھی کبھی دور رہنا پڑے گا اور کہیں یہ ہمارے لیے محرومی کا باعث نہ بن جائے یہ کھٹکا ان کا دور ہوجائے گا۔ جب انھیں یہ معلوم ہوگا کہ پروردگار خود ان پر سلامتی بھیج رہے ہیں اور چونکہ رسول اللہ ﷺ کی زبان سے یہ سلامتی بھیجی جا رہی ہے اس لحاظ سے کہ سلامتی میں حضور کی دعا بھی شامل ہے۔ پھر اسی پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ مزید ارشاد ہوا کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ ” تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کرلیا ہے “} اس میں مخاطب صحابہ ہیں اگرچہ یہ رحمت پوری کائنات کے لیے ہے ‘ لیکن صحابہ کو مخاطب کر کے بطور خاص نوازا جا رہا ہے۔ احادیث مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت کو بیان کرتے ہوئے حضرت سلمان فارسی فرماتے ہیں کہ ہم نے تورات میں یہ لکھا دیکھا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آسمان زمین اور اس کی ساری مخلوقات کو پیدا فرمایا تو صفت رحمت کے سو حصے کر کے اس میں سے ایک حصہ ساری مخلوقات کو تقسیم کردیا چناچہ انسان اور جانور اور دوسری مخلوقات میں جہاں بھی کوئی اثر رحمت کا پایا جاتا ہے وہ اسی حصہ تقسیم شدہ کا اثر ہے۔ ماں باپ اور اولاد میں ‘ بھائی بہنوں میں ‘ شوہر بیوی میں ‘ عام رشتہ داروں میں ‘ پڑوسیوں اور دوسرے دوستوں میں جو باہمی ہمدردی اور محبت و رحمت کے تعلقات مشاہدہ کیے جاتے ہیں وہ سب اسی ایک حصہ رحمت کے نتائج ہیں۔ باقی ننانوے حصے رحمت کے اللہ تعالیٰ نے خود اپنے لیے رکھے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنی مخلوق پر کیسی اور کس درجے ہے۔ یہ تو عام مخلوقات کا حال ہے۔ لیکن جن خوش نصیب انسانوں سے خطاب فرما کر پروردگار اپنی رحمت کا ذکر فرما رہا ہے کیا کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کیسی کچھ رحمت ان کے حال پر ہوگی اور پھر مزید یہ کہ اس آیت کریمہ میں رحمت کے ذکر کے ساتھ ساتھ رَبُّکُمْ کا ذکر بھی ہے یعنی وہ ذات جس نے اپنے اوپر رحمت لازم کی ہے وہ صرف خالق کائنات اور تمہارا خالق ہی نہیں بلکہ تمہارا رب بھی ہے۔ رب کا معنی ہے زندگی کے ہر دور ‘ ہرحال اور ہر ضرورت کے مطابق تربیت کا سامان کرنے والا۔ اس کی ادنیٰ مثال دیکھنی ہو تو ماں کی ذات میں دیکھ لو اس کے اندر تربیت اور پرورش کا جو بےپناہ جذبہ ہمیں مامتا کی صورت میں دکھائی دیتا ہے کہ وہ دنیا کا ہر دکھ اٹھاکر اپنے بچے کے سکھ کا انتظام کرتی ہے وہ بڑے سے بڑے خطرے کا سامنا کرتے ہوئے اپنے بچے کو خطرے میں مبتلا نہیں دیکھ سکتی۔ وہ زندگی کی ہر راحت اپنے بچے پر قربان کردیتی ہے۔ اس کی نگرانی کی آنکھ اور اس کے دل میں محبت کے جوش سے اٹھنے والا ولولہ برابر اپنا کام کرتا رہتا ہے۔ یہ پرورش کی ایک محدود مثال ہے ‘ پروردگار اس سے بڑھ کر اپنے بندوں کی ضروریات کو جاننے والا اور ایک ماں سے بڑھ کر پرورش کا جوش اپنے اندر رکھنے والا ہے۔ جب وہ کسی کو اپنی رحمت کا حوالہ دیتے ہوئے اپنا تعارف بھی کراتا ہے کہ میں تمہارا رب ہوں اور پھر میں نے اپنے اوپر رحمت لازم کرلی ہے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ پھر ان صحابہ کی قسمت اپنی سرفرازی اور اپنی گراں باری میں کیا قدر و قیمت رکھتی ہوگی۔ توبہ اور اصلاح کے بعد گناہ معاف ہوجاتے ہیں انسانی زندگی کتنی بھی پاکیزہ کیوں نہ ہو ‘ اس میں کبھی کسی چال کا لڑکھڑاہٹ سے آشنا نہ ہونا اور کسی خیال میں گناہ کی آلودگی کا در نہ آنا یہ اللہ کے نبیوں کے سوا بہت مشکل بات ہے۔ اس لیے پروردگار نے اپنے بندوں کی فطری کمزوریوں کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنی رحمت کا اظہار توبہ کی صورت میں فرمایا۔ یہاں بطور خاص ان صحابہ کو سابقہ اور موجودہ غلطیوں اور کوتاہیوں کے حوالے سے یہ مژدہ سنایا جا رہا ہے کہ اس بات کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا کہ تم سے پہلے بھی غلطیاں ہوئی ہوں اور آئندہ بھی شاید ہوں لیکن گھبرانے کی بات نہیں ہم تمہارے لیے بطور خاص اور پوری نوع انسانی کے لیے بطور عام ایک ضابطہ عطا فرما رہے ہیں کہ اَنَّہٗ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوْٓئًما بِجَھَالَۃِ ثُمَّ تَابَ مِنْم بَعْدِہٖ وَ اَصْلَحَ فَاَنَّہٗ غَفُوْرٌرَّحِیْم یعنی جو آدمی جہالت سے کوئی برا کام کر بیٹھے اور اس کے بعد وہ توبہ کرلے اور اپنے عمل کو درست کرلے تو اللہ تعالیٰ بہت مغفرت کرنے والے ہیں ‘ اس کے گناہ کو معاف فرما دیں گے اور بہت رحمت کرنے والے ہیں کہ صرف معافی پر کفایت نہ ہوگی بلکہ انعامات سے بھی نوازا جائے گا۔ اس آیت میں لفظ جہالت سے بظاہر یہ خیال ہوسکتا ہے کہ گناہ کی معافی کا وعدہ صرف اس صورت میں ہے جب کہ ناواقفیت اور جہل کے سبب سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے ‘ جان بوجھ کر گناہ کرنے والا اس حکم میں داخل نہیں ‘ لیکن حقیقت یہ نہیں کیونکہ جہالت سے مراد اس جگہ عمل جہالت ہے ‘ یعنی ایسا کام کر بیٹھے جیسا نتیجہ سے جاہل و بیخبر کیا کرتا ہے ‘ یہ ضرور نہیں کہ وہ واقع میں جاہل ہو ‘ اس کی تائید خود لفظ جہالت سے بھی ہوتی ہے کہ یہاں لفظ جہل کے بجائے جہالت کا لفظ شاید اسی کی طرف اشارہ کرنے کے لیے ہی استعمال کیا گیا ہے کیونکہ جہل تو علم کا مقابل ہے اور جہالت حلم و وقار کے مقابل ہے یعنی لفظ جہالت محاورات میں بولا ہی جاتا ہے عملی جہالت کے لیے اور اگر غور کیا جائے تو گناہ جب بھی کسی سے سرزد ہوتا ہے تو اس عملی جہالت ہی کی وجہ سے ہوتا ہے ‘ اسی لیے بعض بزرگوں کا قول ہے کہ جو شخص اللہ و رسول ﷺ کے کسی حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ جاہل ہے ‘ مراد اس سے یہی عملی جہالت ہے ناواقف اور بےعلم ہونا ضروری نہیں کیونکہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کی بیشمار نصوص اس پر دلالت کرتی ہیں کہ توبہ کرنے سے ہر گناہ معاف ہوسکتا ہے خواہ غفلت و جہل کی وجہ سے سرزد ہوا ہو یا جان بوجھ کر شرارتِ نفس اور اتباعِ ہویٰ کی وجہ سے۔ اس جگہ یہ بات خاص طور پر قابل نظر ہے کہ اس آیت میں گناہگاروں سے مغفرت اور رحمت کا جو وعدہ فرمایا گیا ہے وہ دو چیزوں کے ساتھ مشروط ہے ایک توبہ ‘ دوسرے اصلاحِ عمل ‘ توبہ کے معنی ہیں گناہ پر ندامت۔ حدیث میں ارشاد ہے انما التوبہ الندم ” یعنی توبہ نام ہے ندامت کا “۔ دوسرے آئندہ کے لیے اصلاح عمل ‘ اس اصلاح عمل میں یہ بھی داخل ہے کہ آئندہ اس گناہ کے پاس نہ جانے کا عزم اور پورا اہتمام کرے اور یہ بھی شامل ہے کہ سابقہ گناہ سے جو حقوق کسی کے ضائع ہوئے ہیں تاحد اختیار ان کو ادا کرے خواہ وہ حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد ‘ حقوق اللہ کی مثال نماز ‘ روزہ ‘ زکوٰۃ ‘ حج وغیرہ فرائض میں کوتاہی کرنا ہے اور حقوق العباد کی مثال کسی کے مال پر ناجائز قبضہ و تصرف کرنا ‘ کسی کی آبرو پر حملہ کرنا ‘ کسی کو گالی گلوچ کے ذریعہ یا کسی دوسری صورت سے ایذاء پہنچانا ہے۔ اس لیے تکمیلِ توبہ کے لیے جس طرح یہ ضروری ہے کہ گزشتہ گناہ پر ندامت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرے اور آئندہ کے لیے اپنے عمل کو درست رکھے ‘ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ جو نمازیں یا روزے غفلت سے ترک ہوگئے ہیں ان کی قضا کرے ‘ جو زکوٰۃ نہیں دی گئی وہ اب ادا کرے ‘ قربانی یا صدقۃ الفطر جیسے واجبات میں کوتاہی ہوئی ہے تو ان کو ادا کرے ‘ حج فرض ہونے کے باوجود ادا نہیں کیا تو اب ادا کرے اور خود نہ کرسکے تو حج بدل کرائے اور اگر اپنے سامنے حج بدل اور دوسری قضائوں کا موقع پورا نہ ملے تو وصیت کرے کہ اس کے وارث اس کے ذمہ عائد شدہ واجبات کا فدیہ یا حج بدل کا انتظام کریں ‘ خلاصہ یہ ہے کہ اصلاح عمل کے لیے صرف آئندہ کا عمل درست کرلینا کافی نہیں ‘ پچھلے فرائض و واجبات کو ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ اسی طرح حقوق العباد میں اگر کسی کا مال ناجائز طور پر لیا ہے تو اس کو واپس کرے یا اس سے معاف کرائے اور کسی کو ہاتھ یا زبان سے ایذاء پہنچائی ہے تو اس سے معاف کرائے ‘ اور اگر اس سے معاف کرانا اختیار میں نہ ہو مثلاً وہ مرجائے یا ایسی جگہ چلا جائے جس کا اس کو پتہ معلوم نہیں تو اس کی تدبیر یہ ہے کہ اس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائے مغفرت کرتے رہنے کا التزام کرے ‘ اس سے امید ہے کہ صاحب حق راضی ہوجائے گا اور یہ شخص سبکدوش ہوجائے گا۔ اگلی آیت کریمہ میں حاصل مضمون کے طور پر آخری بات فرمائی گئی۔
Top