Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 89
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحُكْمَ وَ النُّبُوَّةَ١ۚ فَاِنْ یَّكْفُرْ بِهَا هٰۤؤُلَآءِ فَقَدْ وَ كَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّیْسُوْا بِهَا بِكٰفِرِیْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰتَيْنٰهُمُ : ہم نے دی انہیں الْكِتٰبَ : کتاب وَالْحُكْمَ : اور شریعت وَالنُّبُوَّةَ : اور نبوت فَاِنْ : پس اگر يَّكْفُرْ : انکار کریں بِهَا : اس کا هٰٓؤُلَآءِ : یہ لوگ فَقَدْ وَكَّلْنَا : تو ہم مقرر کردیتے ہیں بِهَا : ان کے لیے قَوْمًا : ایسے لوگ لَّيْسُوْا : وہ نہیں بِهَا : اس کے بِكٰفِرِيْنَ : انکار کرنے والے
یہ لوگ ہیں جن کو ہم نے کتاب اور حکم اور نبوت عطا فرمائی تو اگر یہ لوگ اس کا انکار کردیں گے تو کچھ پرواہ نہیں ہم نے اس کیلئے ایسے لوگ مامور کردیئے ہیں جو اس کے منکر نہیں
ارشاد ہوتا ہے : اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمْ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ ج فَاِنْ یَّکْفُرْ بِھَا ھٰٓؤُلَآئِ فَقَدْ وَکَّلْنَا بِھَا قَوْمًا لَّیْسُوْا بِھَا بِکٰفِرِیْنَ ۔ (الانعام : 89) (یہ لوگ ہیں جن کو ہم نے کتاب اور حکم اور نبوت عطا فرمائی تو اگر یہ لوگ اس کا انکار کردیں گے تو کچھ پرواہ نہیں ہم نے اس کے لیے ایسے لوگ مامور کردیئے ہیں جو اس کے منکر نہیں ) زندگی کی راہنمائی کے لیے تین چیزیں درکار ہوتی ہیں۔ 1 ایک ایسی کتاب جس میں زندگی کے تمام معاملات کے حوالے سے ایک قانون دیا گیا ہو پھر قانون کے نافذ کرنے کے لیے قوت حاکمہ کی ہیئت ترکیبی کی تفصیل بھی دی گئی ہو اور اللہ سے چونکہ بندوں کا تعلق صرف ضابطے کا نہیں بلکہ رابطے کا بھی ہے۔ اس لیے اس میں پروردگار سے تعلق جوڑنے کی تمام ممکن ہدایات بھی دی گئی ہوں اور پھر اس کے لیے ترغیب اور ترہیب سے کام بھی لیا گیا ہو۔ انسانی زندگی صرف قانون کی عملداری سے مکمل نہیں ہوتی بلکہ اس کی حقیقی پہچان اخلاقیات سے ہوتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس کتاب میں مکارم اخلاق کی تفصیل بھی ہو اور ساتھ ہی ساتھ حقوق و فرائض کا ایک پورا ضابطہ جسے اخلاق کے ساتھ مربوط کردیا جائے اور قانون کا تحفظ بھی اسے حاصل ہو۔ 2 کتاب کے صحیح فہم کا ایک نمونہ اور ایک آئیڈیل ہمارے سامنے ہو جس کو دیکھ کر ہم اندازہ کرسکیں کہ کتاب کے سمجھنے اور اس کے مفاہیم کے تعین میں ہمیں کن حدود کا خیال رکھنا ضروری ہے اور حتی الامکان یہ نمونہ ایسا ہو جو کتاب کے مبہمات کو کھول دے ‘ اس کے اجمالات کی تفصیل بیان کر دے ‘ احکام کو عملی شکل دے دے اور آداب کو شخصیت کا سراپا عطا کر دے۔ 3 اس کتاب پر عمل درآمد کے لیے ایک ایسی مرکزی شخصیت ہو جو پورے جوش و جذبہ سے اس کتاب کے علم کو عام کرے ‘ اس کے فہم کو آسان کرے ‘ اس کے مطابق اخلاق تیار کرے اور پھر اس کے ہمہ جہتی نفاذ کے لیے پوری کوششیں بروئے کار لائے۔ انہی تینوں ضرورتوں کو یہاں کتاب ‘ حکم اور نبوت کے نام سے یاد فرمایا گیا کہ اللہ نے ہدایت دینے کے لیے جو انبیاء مبعوث فرمائے انکے ذریعے سے یہ تینوں ضرورتیں پوری فرمائیں۔ ان پر کتاب نازل کی گئی جو انسانی ہدایت کی تمام ضرورتوں کو پورا کرتی تھی اور پھر انھیں اس کتاب کا صحیح فہم اور اس کے اصولوں کو معاملات زندگی پر منطبق کرنے کی صلاحیت اور مسائل حیات میں فیصلہ کن رائے قائم کرنے کی خداداد قابلیت بھی عطا فرمائی تھی۔ اور پھر انھیں انسانی زندگی کی راہنمائی کے لیے پوری طرح کتاب سے آشنا کرنے اور ان کی زندگیوں میں اس کتاب کو نافذ کرنے کا ایک عزم بالجزم بھی عطا فرمایا تھا جو انکے تمام احساسات پر غالب آگیا تھا۔ اس کو یہاں نبوت سے تعبیر فرمایا گیا۔ یعنی یہ لوگ جنکا یہاں ذکر ہوا ہے انھیں اللہ نے یہ کتاب ‘ حکم اور نبوت کی نعمت سے مشرف فرمایا تھا اور انھوں نے اس نعمت کی قدر کی خود بھی برگزیدہ ہوئے اور انسانوں کو بھی اس سے سیراب فرمایا۔ اب رسول اللہ ﷺ کے واسطے سے مشرکینِ مکہ کو توجہ دلائی جا رہی ہے کہ اب یہی نعمتیں ہم نے محمد رسول اللہ ﷺ کو عطا کی ہیں اور انکے واسطے سے ہم تمہیں نوازنا چاہتے ہیں۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ تم اس نعمت کی قدر کرو اور تم بھی اللہ کے انعامات کے مستحق ٹھہرو جو پہلے اس کی قدر کرنے والے حاصل کرچکے ہیں لیکن اگر تم نے اس کی قدر کرنے کی بجائے اپنا یہی رویہ جاری رکھا تو پھر رسول اللہ ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ اس کی ہرگز پرواہ نہ کریں ہم نے اس ذمہ داری کو اٹھانے کے لیے ایسے لوگوں کو مقرر کردیا ہے جو اس کو اٹھانے میں کبھی تساہل سے کام نہیں لیں گے اور کبھی اس کی ناقدری نہیں کریں گے۔ جن حالات میں یہاں یہ بات کہی جا رہی ہے حقیقت یہ ہے ان حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ اس کتاب خداوندی کی حقانیت اور رسول اللہ ﷺ کی نبوت کی صداقت کی بہت بڑی دلیل ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو تسلی ہم جانتے ہیں کہ یہ سورة مکی سورتوں میں سے ہے اور مکہ معظمہ میں مسلسل تیرہ سال بتدریج جس طرح مخالفت کی چکی شدید سے شدید تر ہوتی گئی ہے وہ کسی بھی تاریخ کے طالب علم سے مخفی نہیں ہے۔ ہر آنے والا دن آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کے لیے اذیت رسانی اور مخالفت کا نیا پیغام بن کر طلوع ہوتا رہا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ مشرکینِ مکہ میں انتقام کی آگ شدید ہوتی گئی۔ زندگی کا کوئی دکھ اور انسانی طاقت کا کوئی حربہ ایسا نہیں جو انھوں نے اس تحریک کا راستہ روکنے اور مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے لیے استعمال نہ کیا ہو۔ بار بار آنحضرت ﷺ کو قتل کرنے کے منصوبے بنے۔ مسلمان اس اذیت رسانی کے عمل سے تنگ آکر ایک سے زیادہ مرتبہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ سازشوں اور منصوبوں کی بڑھتی ہوئی آگ سے بچنے کے لیے تین سال تک آنحضرت اور آپ کے ساتھیوں نے شعب ابی طالب میں محصور رہ کر وقت گزارا۔ حتیٰ کہ مکی زندگی کے آخری سال جب حضور نے طائف کا سفر کیا تو اس میں جو قیامت گزری ہے ہر مسلمان اس سے واقف ہے۔ انہی سالوں میں جبکہ مخالفت کی بھٹی پورے جوش سے دہک رہی تھی ‘ یہ سورة نازل ہوئی ہے۔ اور اس میں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ آپ ان کی مخالفت کی پرواہ نہ کریں۔ حالانکہ ان کی مخالفت مسلمانوں کے لیے ایک بڑا عذاب بن چکی ہے اور تحریک اسلامی کے بچ نکلنے یا آگے بڑھنے کی کوئی صورت بظاہر دکھائی نہیں دیتی۔ ظاہر بیں نگاہیں صاف دیکھ رہی ہیں کہ اس صورتحال سے بچ نکلنا مسلمانوں کے لیے ناممکن ہوتا جا رہا ہے جو مسلمان مکہ معظمہ میں باقی ہیں وہ مسلسل اذیتوں سے حوصلہ ہار دیں گے اور یا موت سے ہمکنار ہوجائیں گے اور آنحضرت ﷺ کو قریش مکہ کسی وقت بھی موقع پا کر قتل کردیں گے اور جو مسلمان ہجرت کر کے دوسرے ملکوں میں جا چکے ہیں وہ غریب الوطنی کی موت مارے جائیں گے۔ لیکن پروردگار فرما رہے ہیں کہ اے پیغمبر آپ ان کے رویے اور ان کی مخالفت کی ہرگز پرواہ نہ کریں اگر یہ آپ پر ایمان نہیں لا رہے تو نہ لائیں ہم نے ایمان لانے کے لیے ایک ایسی قوم مقرر کردی ہے جو اس ذمہ داری کا بوجھ اٹھائے گی اور تم ان کو دیکھو گے کہ وہ کبھی بھی اس ذمہ داری سے پہلو تہی نہیں کرے گی۔ ایسے ناگفتہ بہ اور ناموافق حالات میں اتنی بڑی پیش گوئی اور وہ بھی پوری تحدی اور قطعیت کے ساتھ کرنا جبکہ حالات دور دور تک اس کا ساتھ دیتے نظر نہیں آتے یہ کسی بھی انسان کے بس کی بات نہیں۔ ایسی پیش گوئی پورے یقین کے ساتھ اللہ کی ذات کے سوا اور کوئی نہیں کرسکتا اس لیے کہ اگر رات کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں جبکہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا ہو کوئی آدمی یہ کہے کہ ابھی اس تاریکی سے سورج طلوع ہونے والا ہے تو کوئی سننے والا کبھی اس کا یقین نہیں کرے گا۔ جھلس ڈالنے والے صحرا میں جہاں دور دور تک پانی کا نشان تک نہ ہو کوئی آدمی چشمہ ابلنے کی بات کرنے لگے تو یقینا سننے والے اس کی دماغی صحت کا مذاق اڑائیں گے جبکہ یہ دونوں باتیں کسی نہ کسی حد تک ممکن دکھائی دیتی ہیں۔ صحرا میں چشمے کا نکل آنا اور اندھیرے کے بعد سورج کا طلوع ہوجانا کوئی ناممکن بات نہیں۔ لیکن ڈوبتی ہوئی تحریک اور بند گلی میں گھر جانے والا قافلہ کسی انقلاب کا پیش خیمہ بن جائے یا مستقبل قریب میں اس کے ہاتھوں انقلاب کی شمع جلنے لگے ‘ یہ ایک ایسی انہونی بات ہے کہ جس کا کبھی یقین نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن قرآن کریم پورے یقین و اذعان سے یہ بات کہہ رہا ہے کہ یہ آفتاب طلوع ہو کے رہے گا البتہ کب طلوع ہوگا یہ تم نہیں جانتے ہو۔ یہ ہم جانتے ہیں۔ تمہارا کام صرف اس سحر کی امید میں رات کی تاریکی سے لڑنا ہے اور اپنے سفر کو جاری وساری رکھنا ہے۔ تم اپنے حوصلوں کو باقی رکھو اور اس نوید جانفزا کو یقینی سمجھ کر اس کے انتظار میں اس کشمکش میں ثابت قدم رہو۔ اس لحاظ سے اگر اتنے بڑے دعوے کو قرآن پاک کے سچا ہونے اور رسول اللہ ﷺ کے برحق ہونے کی دلیل نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے۔ دوسری بات جو اس آیت سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں جس طرح یہ نوید سنائی جا رہی ہے کہ عنقریب ایک قوم اس ذمہ داری کا بوجھ اٹھائے گی اور پھر یہ انقلاب تیزی سے آگے بڑھے گا اسی طرح یہ بات بھی اس سے مترشح ہوتی ہے کہ جو لوگ اس وقت تک اسلام قبول کرچکے اور اذیتوں سے گزر رہے ہیں لیکن انھوں نے کسی وقت بھی استقامت کا دامن نہیں چھوڑا۔ انھیں اور مستقبل قریب میں ایمان لانے والوں کی استقامت کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے اور یا یوں کہہ لیجئے کہ اللہ کے راستے میں ان کی ثابت قدمی اور استقامت کو شرف قبول بخشا جا رہا ہے۔ چناچہ تاریخ ان دونوں باتوں کو ثابت کرتی ہے کہ مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد جس طرح تیزی سے اسلام پھیلا اور حدیبیہ کے معاہدے کے بعد جس طرح اس میں مزید تیزی آئی اور فتح مکہ کے بعد جس طرح فوج در فوج لوگوں نے اسلام قبول کرنا شروع کیا وہ تمام اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ اور پروردگار کے اس دعویٰ کی روشن دلیلیں ہیں۔ اسی طرح آنحضرت ﷺ کی حیات طیبہ میں اسلام اور مسلمانوں کو جن مراحل سے گزرنا پڑا اور پھر حضور کے انتقال پر ملال کے بعد صحابہ کو عرب کی جس عظیم بغاوت کو کچلنا پڑا اور پھر جس طرح وقت کی بڑی بڑی قوتیں اسلام اور مسلمانوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑی ہوئیں اور جس طرح مسلمانوں نے استقامت اور شجاعت سے ان کا مقابلہ کیا وہ قرآن کریم کے اس کلمہ تحسین کی زندہ گواہیاں ہیں جو صحابہ کی سرفروشانہ کارناموں نے تاریخ کے سپرد کی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں پروردگار جس طرح یہ فرما رہا ہے کہ یہ لوگ اگر ایمان نہیں لاتے تو نہ لائیں آپ کو ہرگز اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ ہم نے اس کے لیے ایک ایسی قوم اٹھا دی ہے اور مقرر کردی ہے کہ جو اس راستے پر ایسی ثابت قدمی سے چلے گی کہ کبھی لڑکھڑاہٹ ان کے قدموں میں نہیں آئے گی اور کبھی کفر اور نافرمانی کا چھینٹا ان کے دامن پر نہیں پڑنے پائے گا اس حوالے سے جب ہم صحابہ کی زندگیوں کو دیکھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ کیسے کیسے نامساعد حالات میں آنحضرت ﷺ ان کے سامنے جب اس طرح کی پیش گوئیاں فرماتے تھے تو وہ اس کا یقین کیسے کرلیتے تھے اور پھر بڑی سے بڑی مخالفت میں ثابت قدم کیسے رہتے تھے۔ یہ ہر سوچنے والے دماغ کے لیے ایک ایسا لمحہ فکریہ ہے جو قوموں کی تاریخ میں غور کرنے والوں کو ہمیشہ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے۔ مکی زندگی میں جس طرح یہ پیش گوئی ناقابل یقین معلوم ہوتی ہے لیکن مسلمانوں نے اسے دل و جان سے قبول کیا۔ اسی طرح جنگ بدر کے موقع پر جب حضور مسلمانوں کو لے کر قریش کے ایک ہزار کے عظیم اور مسلح لشکر کے مقابلے میں نکلے تو ہر دیکھنے والی نگاہ سہمی جا رہی تھی کہ یا اللہ آخر یہ کیا مقابلہ ہے کہ ایک طرف مسلح لوگوں کا ایک عظیم لشکر ہے اور دوسری طرف مٹھی بھر مدینہ کے بخار کے مارے ہوئے ‘ فاقوں کے ستائے ہوئے غیر مسلح لوگ ہیں۔ لیکن انھوں نے جس پامردی اور حوصلہ مندی سے اس پوری صورتحال کا مقابلہ کیا وہ حیران کردینے والی بات ہے اور دنیا میں شاید ہی ہمیں اس کی کوئی مثال مل سکے۔ سلسلہ نبوت کی آخری کڑی آنحضرت ﷺ سے پہلے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب ان کی گرفتاری کا وقت آیا تو ان کے وہ بارہ حواری جو ان کے خاص مقرب لوگ تھے وہ بھی ثابت قدم نہ رہ سکے اور انھیں تنہا چھوڑ کر بھاگ گئے۔ لیکن ادھر صحابہ کا حال یہ تھا کہ جب راستہ میں آنحضرت ﷺ نے ان سے مشورہ لیا کہ ایک طرف قافلہ تجارت ہے اور دوسری طرف قریش کا لشکر بتائو کدھر جانا چاہیے۔ لیکن ساتھ ہی اشاروں سے یہ بات بھی واضح کردی کہ میں تو لشکر کے مقابلے میں جانے کو ترجیح دیتا ہوں اور اللہ تعالیٰ نے دونوں میں سے ایک میں کامیابی کا وعدہ فرمایا ہے تو صحابہ نے جواب میں جو کہا وہ تاریخ میں ہمیشہ آب زر سے لکھا جائے گا۔ مہاجرین میں سے حضرت مقداد بن عمرو نے اس سوال کے جواب میں عرض کیا۔ یا رسول اللہ جدھر آپ کا رب آپ کو حکم دے رہا ہے اسی طرف چلیے ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ہم بنی اسرائیل کی طرح یہ کہنے والے نہیں ہیں کہ جاؤ تم اور تمہارا خدا دونوں لڑیں ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ نہیں ہم کہتے ہیں چلیے آپ اور آپ کا خدا دونوں لڑیں اور ہم آپ کے ساتھ جانیں لڑائیں گے جب تک ہم میں سے ایک آنکھ بھی گردش کر رہی ہے۔ انصار میں سے حضرت سعد بن معاذ اٹھے۔ انھوں نے عرض کی : لقد اٰمنا بک و صدقناک و شھدنا ان ما جئت بہ ھو الحق و اعطیناک عھودنا ومواثیقنا علی السمع والطاعۃ۔ فامض یا رسول اللہ لما اردت۔ فوالذی بعثک بالحق لو استعرضت بنا ھٰذا البحر فخضتہ لخضناہ معک وما تخلف منا رجل واحد وما نکرہ ان تلقی بناعدونا غدًا انا لنصبر عند الحرب صُدُقٌعندک اللقآء و لعل اللہ یریک منا ما نقر بہٖ عینک نسربنا علیٰ برکۃ اللہ ” ہم آپ پر ایمان لائے ہیں ‘ آپ کی تصدیق کرچکے ہیں کہ آپ جو کچھ لائے ہیں وہ حق ہے اور آپ سے سمع وطاعت کا پختہ عہد باندھ چکے ہیں۔ پس اے اللہ کے رسول ‘ جو کچھ آپ نے ارادہ فرما لیا ہے اسے کر گزریئے۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ اگر آپ ہمیں لیکر سامنے سمندر پر جا پہنچیں اور اس میں اتر جائیں تو ہم آپ کے ساتھ کو دیں گے اور ہم میں سے ایک بھی پیچھے نہ رہے گا۔ ہم کو یہ ہرگز ناگوار نہیں ہے کہ آپ کل ہمیں لے کر دشمن سے جا بھڑیں۔ ہم جنگ میں ثابت قدم رہیں گے ‘ مقابلہ میں سچی جانثاری دکھائیں گے اور بعید نہیں کہ اللہ آپ کو ہم سے وہ کچھ دکھوا دے جسے دیکھ کر آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں پس اللہ کی برکت کے بھروسے پر آپ ہمیں لے چلیں “۔ صحابہ کی زندگی ایسی سرفروشانہ مثالوں سے بھرپور ہے۔ ان کے اسی کردار کی یہاں تحسین فرمائی جا رہی ہے اور آنے والے حالات میں ان کی مزید استقامت کی پیش گوئی بھی فرمائی گئی ہے۔ اگلی آیت کریمہ اسی سلسلہ بیان سے منسلک ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی ذریت کے حوالے سے اس رکوع میں چل رہا ہے۔
Top