Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 98
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَّ مُسْتَوْدَعٌ١ؕ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّفْقَهُوْنَ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْٓ : وہ۔ جو۔ جس اَنْشَاَكُمْ : پیدا کیا تمہیں مِّنْ : سے نَّفْسٍ : وجود۔ شخص وَّاحِدَةٍ : ایک فَمُسْتَقَرٌّ : پھر ایک ٹھکانہ وَّمُسْتَوْدَعٌ : اور سپرد کیے جانے کی جگہ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ : بیشک ہم نے کھول کر بیان کردیں آیتیں لِقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّفْقَهُوْنَ : جو سمجھتے ہیں
اور وہی ہے ‘ جس نے تم کو پیدا کیا ‘ ایک ہی جان سے۔ پھر ہر ایک کیلئے ایک مستقر اور ایک مستودع ہے۔ ہم نے اپنی نشانیاں ان لوگوں کیلئے تفصیل سے بیان کردی ہیں ‘ جو سمجھیں
ارشاد فرمایا : وَھُوَ الَّذِیْٓ اَنْشَاَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ فَمُسْتَقَرٌّوَّ مُسْتَوْدَعٌط قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّفْقَھُوْنَ ۔ (الانعام : 98) (اور وہی ہے ‘ جس نے تم کو پیدا کیا ‘ ایک ہی جان سے۔ پھر ہر ایک کے لیے ایک مستقر اور ایک مستودع ہے۔ ہم نے اپنی نشانیاں ان لوگوں کے لیے تفصیل سے بیان کردی ہیں ‘ جو سمجھیں) اس آیت کریمہ کا ایک ایک لفظ گہرے تدبر اور غور و فکر کا طالب ہے گزشتہ آیات میں ہم نے دیکھا ہے کہ دلائل آفاق اور خارجی دنیا کے تذکرے سے اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید پر استدلال کیا ہے۔ لیکن اس آیت کریمہ میں خود انسان کے وجود اور اس کی نفسی حقیقتوں سے استدلال کیا جا رہا ہے کہ اگر کوئی شخص ایسا ہی گیا گزرا ہے کہ وہ خارجی دنیا اور کائنات کے حقائق پر نظر کرنے سے قاصر ہے تو اسے اپنے ظاہر و باطن کو دیکھنا اور اپنے اوپر نعمتوں کو پہچاننا مشکل نہیں ہونا چاہیے اگر وہ تھوڑا سا بھی تامل کرے تو یقینا وہ قرآن کریم کے اس استدلال کو سمجھ سکتا ہے اس لیے یہاں براہ راست انسانوں سے خطاب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ دیکھو اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہیں نفس واحدہ سے پیدا کیا اولاً تو انسان کا مخلوق ہونا اور اس کی تخلیق میں کسی اور کا شریک نہ ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ اللہ کی ذات اور اس کی صفت تخلیق میں کوئی شریک نہیں اور یہی دلیل توحید کے لیے کافی ہونی چاہیے۔ لیکن اس آیت کریمہ میں تخلیق کے لیے خَلَقَ کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا بلکہ اَنْشَاَ کا لفظ استعمال ہوا۔ ان دونوں کے معنی میں فرق ہے۔ خَلَقَ کا معنی ہے کسی چیز کا عدم سے وجود میں لے آنا ‘ ایک معدوم کو موجود کردینا لیکن اَنْشَاَ کے معنی میں اس سے زیادہ وسعت ہے اس میں تخلیق کا معنی بھی شامل ہے لیکن اسی پر اکتفا نہیں بلکہ اس میں نمود و پرداخت اور تربیت کے تمام مراحل کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنا ‘ زندگی کے تمام امکانات کو مہیا کرنا ہر پیدا ہونے والی ضرورت کو وقت سے پہلے جان کر پہلے سے اس کی تدبیر بروئے کار لانا۔ یہ تمام چیزیں اس لفظ کی معنویت میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کر کے نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس کو اس طرح قدم قدم آگے بڑھنے کے امکانات سے بہرہ ور فرمایا اور ہر سطح پر اس کی ضروریات کو اس طرح پورا فرمایا اور ہر مرحلے پر اس کی ہدایات کے ایسے سامان فرمائے کہ ان کی تفصیل دیکھ کر آدمی حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ کیونکہ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ تمام مخلوقات کے بچوں سے زیادہ بےبسی کی تصویر ہوتا ہے۔ ایک بلی کا بچہ آنکھیں کھولتے ہی اپنی ماں کے پستان تلاش کرلیتا ہے ‘ مرغی کا بچہ چند گھنٹوں کے بعد اپنی ماں کے پیچھے چلنے لگتا ہے ‘ ایک بھینس کا بچہ چند ہی گھنٹوں میں اٹھ کر لڑکھڑاتا ہوا اپنی غذا کی جگہ پہنچ جاتا ہے۔ لیکن انسان کا بچہ جب زمین پر اترتا ہے تو نہ خود چل سکتا ہے نہ پکڑ سکتا ہے نہ دیکھ سکتا ہے نہ سن سکتا ہے کسی طرح کا احساس بھی اپنے اندر نہیں رکھتا لیکن عجیب بات ہے کہ ان تمام چیزوں کی تلافی کے لیے ماں کے سینے میں مامتا کا جوش پیدا کردیا جاتا ہے اس کی بانھیں بےتابانہ اپنے بچے کو اٹھانے کے لیے لپکتی ہیں۔ باپ کے کندھے اس کا بوجھ اٹھانے کے لیے بےقرار ہو ہوجاتے ہیں۔ ماں جوش محبت میں اسے سینے سے لگاتی ہے تو وہیں اس کے لیے غذا کے سوتے جاری کردیئے جاتے ہیں پھر وہ آہستہ آہستہ حواس سے نوازا جاتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں واللہ ُ اَخْرَجَکُمْ مِنْم بُطُوْنِ اُمَّھَاتِکُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْئاً لا وَ جَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْئِدَۃَ لا لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ۔ ( اللہ وہ ذات ہے ‘ جس نے تمہیں تمہاری مائوں کے پیٹوں سے اس طرح نکالا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے۔ پھر اس نے تمہیں قوت سماعت عطا کی ‘ قوت بصارت عطا کی اور عقل و خرد سے نوازا تاکہ تم شکر ادا کرو) (النحل : 78) یعنی انسان کو جن علمی خزانوں سے مالامال کیا ان میں سب سے پہلے مشاہداتی قوت پھر سماعی قوت یعنی مشاہدات کے بعد مسموعات کا علم اور سمعی و بصری ذرائع سے کام لینے کا جذبہ اور اسی کے ضمن میں باقی حواس کو بھی شامل سمجھئے کیونکہ یہ دونوں ذرائع باقی حواس کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ لیکن جہاں حواس اپنا سفر مکمل کرلیتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ عقل و خرد کا چراغ روشن فرماتے ہیں جس میں دماغ اپنا کام کرتا ہے اور قلبی بصیرت اپنا فرض انجام دیتی ہے۔ اَفْئِدَۃَ دماغی اور قلبی دونوں قوتوں پر دلالت کرتا ہے۔ پھر ان نعمتوں کے ساتھ ساتھ انسان کی غذائی ضرورتوں کے لیے سطح زمین پر دسترخوان بچھا دیا گیا ہے ‘ آسمان سے پانی برستا ہے اور عناصر قدرت اس دسترخوان کو سجانے کے لیے ہمہ وقت اپنا فرض انجام دیتے ہیں۔ پھر نسل انسانی کی بقا کے لیے انسان ہی کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا گیا اور پھر آگے توالد و تناسل سے انسانی قافلے کو اس طرح پروان چڑھایا گیا کہ آغاز حضرت آدم اور حضرت حوا سے ہوا اور بڑھتے بڑھتے یہ قافلہ اربوں تک پہنچ گیا۔ ان میں اگرچہ شکلوں صورتوں زبانوں اور لہجوں کا اختلاف ہے لیکن جبلی تقاضوں اور فطری داعیات کے لحاظ سے کامل اتفاق پایا جاتا ہے۔ ایک بہت بڑا اختلاف ہم مرد اور عورت میں دیکھتے ہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ ان دونوں کے اندر ایک دوسرے کے ساتھ سازگاری کے جو ظاہری محرکات پائے جاتے ہیں اس کا نتیجہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے ایک کشش اور ایک ضرورت محسوس کرتے ہیں اور ہر ایک اپنی جگہ دوسرے کے لیے اپنے اندر ایک خلا محسوس کرتا ہے اور جب تک ان دونوں میں فطری اور شرعی طریقے سے یکجائی پیدا نہیں ہوتی وہ خلا بھرنے کا نام نہیں لیتا اس طرح انسانی قافلے کا ایک ساتھ چلنا خاندان اور قوموں کی شکل اختیار کرنا اور انسانی معاشرے کا وجود میں آنا کیا بجائے خود اس بات کی دلیل نہیں کہ اگر اس انسانی قافلے کا خالق ایک نہیں بلکہ دو ہوتے تو ان میں یہ یکسانی یہ ہم آہنگی پھر ان کو قدم قدم پر ضرورتوں کا مہیا کرنا ہر سطح پر ان کی نمود و پرداخت اور ان کی تربیت کے امکانات کو بروئے کار لانا کیا دو خدائوں کی صورت میں ایسا دور دور تک ممکن ہوسکتا ہے۔ اس لیے یہاں اللہ کی وحدانیت پر استدلال کرتے ہوئے توجہ دلائی جا رہی ہے کہ انسانو ! خود اپنے تخلیقی عمل اور اپنے گرد و پیش میں پھیلے ہوئے انسانی قافلے کو اور اب تمہاری ضرورتوں کی تکمیل کے لیے اللہ کی بےکراں نعمتوں کو دیکھو یہ سب کس بات پر دلالت کر رہی ہیں کیا اس بات پر کہ خدا ایک ہے اور وہی تمہارا الٰہ ہے یا اس بات پر کہ یہاں مختلف قوتیں ‘ مختلف قوانین یا مختلف دیوتا اپنی اپنی خدائی کا صور پھونک رہے ہیں اور یہ کائنات ان کی ایک رزم گاہ ہے جس میں یہ تصادم جاری ہے ؟ اگر ایسا ہوتا تو یہ جو ہمیں نمود و پرداخت کا عمل دکھائی دیتا ہے اور جس میں قدم قدم پر انسان نوازا جا رہا ہے کیا اس کا دور دور تک امکان ہوسکتا تھا ؟ پھر اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے صرف تمہیں پیدا ہی نہیں فرمایا بلکہ اس نے تمہارے لیے مستقر بھی پیدا فرمایا جس طرح جب ایک بچہ جوان ہوجاتا ہے تو ماں باپ کو اس کا گھر بسانے کی فکر ہوتی ہے ‘ چناچہ جب اس کا گھر بسانے کا فیصلہ ہوتا ہے تو پہلے اس کے لیے گھر بنایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب انسانوں کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو پہلے ان کے لیے ایک مستقر بنایا یعنی ایک ایسی جگہ جہاں جا کر وہ رہ سکیں اور بس سکیں۔ یقینا وہ جگہ ایسی ہونی چاہیے جہاں ان کے قرار ‘ ان کی سکونت اور رہائش کی آسانیاں میسر ہوں ‘ جہاں وہ ساری چیزیں موجود ہوں جو ایک گھر کو گھر بناتی ہیں اور جو رہنے والوں کی ضرورت ہوتی ہیں اس حوالے سے جب ہم دیکھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ تمام زمین پر جہاں جہاں بھی نسل انسانی آباد ہے پروردگار نے کس طرح اس کے رہنے اور بسنے کے امکانات اور وسائل مہیا فرما دیئے ہیں۔ پہاڑوں کے غار اور سایہ دار درختوں کے جھنڈ اور چٹانوں کے سائے یہ تو وہ چیزیں ہیں جو حیوانوں کو بھی میسر ہیں لیکن انسان نے اس سے بہت آگے قدم بڑھایا وار اس کی فطرت میں یہ بات ڈال دی گئی کہ تم اگر اس دنیا میں تسخیر کا عزم لے کر نکلو گے تو اس کی ایک ایک چیز تمہارے لیے ہے۔ صرف اولوالعزمی اور حوصلہ مندی کی ضرورت ہے چناچہ انسان نے پہاڑوں کے سینے چیر ڈالے ‘ فضائوں میں کمندیں ڈالیں ‘ لوہے میں قوت پرواز پیدا کردی ‘ سمندر کی تہوں میں اتر گیا ‘ ہر جگہ سے اس نے اپنی قوت تسخیر سے خراج وصول کیا اور یہ صرف اس لیے ہوا کہ اللہ نے پہلے سے یہ خزانے اسی کے لیے پیدا فرمائے تھے اور اس میں تجسس و جستجو کا مادہ رکھا تھا اور حوصلہ مندی اس کے ہم رکاب کردی گئی تھی اور یہ سب کچھ اس لیے ہوا تھا کہ قدرت نے زمین کو اس کے لیے مستقر ٹھہرایا تھا۔ ذرا اندازہ فرمایئے کہ یہ مستقر انسان کے لیے ایسا کافی ثابت ہوا ہے کہ انسان پیدا بعد میں ہوتا ہے زمین اپنی آغوش اس کے لیے پہلے کھول دیتی ہے وہ اندر سمٹ کر بیٹھتا ہے آکسیجن اسے ڈھونڈ لیتی ہے۔ باہر نکلتا ہے تو ہوائیں اس سے اٹھکیلیاں کرتی ہیں ‘ گھٹائیں اس کے استقبال کے لیے جھوم کے اٹھتی ہیں ‘ سورج اپنی روشنی سے اس کے راستے کو روشن کرتا ہے ‘ زمین اپنا سینہ اس کے لیے وا کردیتی ہے کیونکہ اس کا مستقر اس سے بخل نہیں کرسکتا اور اللہ کے حکم سے سرتابی نہیں کرسکتا۔ قرآن کریم یہاں اس حقیقت کو واشگاف کر رہا ہے کہ انسانو ! اگر اس زمین و آسمان کے الگ الگ خدا ہوتے تو کیا زمین پر اترنے کے بعد تمہارے لیے یہی امکانات مہیا ہوتے اور تمہارے تخلیقی عمل سے لے کر تمہارے زندگی گزارنے کے آخری مرحلے تک اسی طرح تمہاری نگرانی ‘ تمہاری حفاظت اور تمہاری دیکھ بھال ہوتی۔ یقینا یہ پورا سلسلہ عمل ایک ہی اللہ کے وجود اور ایک ہی معبود اور تمہارے عبد ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ مزید فرمایا کہ جس طرح اس نے تمہارے لیے زمین کو مستقر بنایا ہے اور یہاں وہ آنے والے ایک ایک شخص کو جانتا اور پہچانتا ہے اس کے مطابق اسے رہنے کی جگہ کھانے پینے کا سامان اور زندگی کی ضروریات مل رہی ہیں اسی طرح اس نے اس زمین کو مستودع بھی بنایا ہے۔ مستودع اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کسی چیز کو امانتاً ودیعت کردیا جاتا اور دفن کردیا جاتا ہے اور جہاں دفن کیا جاتا ہے اس جگہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ جب اس امانت کو اس سے واپس مانگا جائے تو وہ امانت حوالے کر دے۔ بتایا جا رہا ہے کہ یہ زمین تمہارے لیے مدفن بنائی گئی ہے کہ زندگی گزارنے کے بعد یہی زمین جو تمہیں قرار کے لیے جگہ دیتی تھی وہی تمہیں دفن کے لیے قبر دے گی اور جس طرح اس نے تمہارے قرار اور رہنے کے لیے سہولتیں مہیا کی تھیں اسی طرح تمہارا مدفن بننے کے بعد تمہیں اپنی آغوش میں سنبھال کے رکھے گی لیکن چونکہ تمہیں اس کی آغوش میں امانت کے طور پر رکھا جا رہا ہے اس لیے جب قیامت آئے گی اللہ تعالیٰ اسے حکم دے گا کہ ہماری امانت ہمیں واپس کردو چناچہ وہ ایک ایک دفن ہونے والے کو اپنے اندر سے نکالے گی اور میدان حشر کی طرف ہانک دے گی۔ مزید یہ توجہ دلائی جا رہی ہے کہ جس طرح اللہ نے جتنے انسانوں کو اس زمین پر پیدا فرمایا تھا اور اس زمین پر انھیں ٹھہرایا تھا وہ ان میں سے ایک ایک کو جانتا تھا اس لیے ایک ایک کو اس نے رزق پہنچایا۔ اسی طرح جس جس کو اس زمین میں دفن ہونے کا موقع ملے گا یعنی جو بھی یہاں موت کا شکار ہوگا چاہے اس کی قبر کہیں بھی ہو اسے بھی اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ چناچہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے : وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللہِ رِزْقُھَا وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّھَا وَ مُسْتَوْدَعَھَا ط (اور نہیں ہے ‘ زمین پر کوئی جاندار ‘ مگر اللہ ہی اس کو روٹی دیتا ہے اور دنیا میں اس کے مستقر کو بھی جانتا ہے اور مرجانے پر اس کے سپرد کیے جانے کی جگہ کو بھی جانتا ہے) (ھود : 6) یعنی جس طرح وہ ہر زندہ شخص سے باخبر ہے اور اسے رزق پہنچا رہا ہے اور اس کی زندگی اور موت سے بخوبی واقف ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا نہ آئندہ ہوسکتا ہے کہ کسی شخص کو پیدا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ بھول گیا ہو اور صدیاں اس کو زندگی میں گزر گئی ہوں اور کبھی اس کو موت نہ آئے۔ کیونکہ اللہ کے علم سے وہ نکل چکا اب ظاہر ہے اسے موت کیسے آسکتی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں کیونکہ اللہ کا علم مکمل ہے وہ کبھی کسی سے بیخبر نہیں ہوتا اسی طرح جو آدمی مرجاتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بھی بیخبر نہیں ہوتا وہ خوب جانتا ہے کہ وہ کہاں دفن ہو ازمین میں دفن ہوا یا سمندر میں یا کوئی درندہ اس کو کھا گیا ہر چیز اللہ کے علم میں ہے اس لیے جب قیامت آئے گی تو ہر شخص کو اسی جگہ سے اٹھایا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات ہوگی کہ اس کی موت کہاں ہوئی تھی چاہے اس کے جسم کا کوئی ذرہ بھی باقی نہ رہا ہو اور ہر چیز مٹی ہوچکی ہو یا اس کی لاش گل سڑ چکی ہو تو اگر وہ ایک سڑی ہوئی گٹھلی سے قد آور درخت نکال سکتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس کے اندر زندگی کے آثار ہیں تو وہ زمین کے ذروں سے مرنے والے کا جسم بھی نکال لے گا۔ کیونکہ وہ مستقر سے بھی واقف ہے اور مستودع سے بھی واقف ہے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ اس طرح ہم نے یہ نشانیاں کھول کے بیان کردی ہیں ان لوگوں کے لیے جو سمجھتے ہیں۔ گزشتہ آیت میں یَعْلَمُوْنَ کا لفظ تھا اور یہاں یَفْقَھُوْنَ کا لفظ ہے۔ علم عقل و شعور کا فعل ہے اور تفقہ دل کا۔ قرآن کریم نے ان دونوں لفظوں کو ان معنوں میں کئی جگہ استعمال کیا حقیقت تو اللہ جانتا ہے لیکن غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ خارجی عالم کی نشانیاں اور آفاقی دلائل انسان کی علمی اور مشاہداتی قوتوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ اس لیے ان سے وہی ہدایت پاسکتا ہے جو علمی پیمانوں سے کام لیتا ہے اور دماغی قوتوں کو استعمال کر کے بات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن جہاں تک انسان کے اپنے تخلیقی عمل اور اس کو عطا کردہ اللہ کی نعمتوں اور اس کی عنایات اور انسان کی داخلی زندگی کے احساسات اور انفعالات کا تعلق ہے اس میں دماغی کاوشیں کم اور قلبی بصیرتیں زیادہ کام دیتی ہیں۔ اس لیے پہلے علم و شعور کو متوجہ کیا گیا اور یہاں قلبی بصیرت پر توجہ دلائی جا رہی ہے کیونکہ جب تک ان دونوں کو بروئے کار نہیں لایا جاتا اللہ کی معرفت اور اس کی ہدایت کا سفر طے کرنا آسان نہیں ہوتا۔ خاص طور پر اللہ کی ذات چونکہ حواس اور عقل کی گرفت میں نہیں آتی تو جو آدمی خوگر پیکر محسوس بن کر علم کی دنیا میں داخل ہوتا ہے اور وہ انہی کی مدد سے یقین و اذعان کا سفر طے کرنا چاہتا ہے تو اسے یہ دولت کبھی نصیب نہیں ہوتی۔ اس کے لیے دل کی بصیرت ‘ دل کی ہم آہنگی اور دل کی روشنی ضروری ہے یہ وہ نور ہے جو اس راستے پر چلنے والے کو روشنی مہیا کرتا ہے۔ اس لیے اس آیت کریمہ کے آخر میں بطور خاص اس کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ دلائل آفاق اور دلائل انفس میں سے چند ایک سے استدلال کرنے کے بعد اب پروردگار اپنی رحمت ‘ ربوبیت ‘ قدرت اور حکمت سے توحید اور معاد پر اگلی آیت کریمہ میں استدلال فرما رہے ہیں۔
Top