Ruh-ul-Quran - At-Taghaabun : 11
مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ یُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ یَهْدِ قَلْبَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
مَآ اَصَابَ : نہیں پہنچتی مِنْ مُّصِيْبَةٍ : کوئی مصیبت اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ : مگر اللہ کے اذن سے وَمَنْ يُّؤْمِنْۢ : اور جو کوئی ایمان لاتا ہے بِاللّٰهِ : اللہ پر يَهْدِ قَلْبَهٗ : وہ رہنمائی کرتا ہے اس کے دل کی وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کو عَلِيْمٌ : جاننے والا ہے
کوئی مصیبت کبھی نہیں پہنچتی، مگر اللہ کے اذن سے، اور جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہے اللہ اس کے دل کی رہنمائی فرماتا ہے اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے
مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ ط وَمَنْ یُّؤْمِنْ م بِاللّٰہِ یَھْدِ قَلْبَہٗ ط وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْمٌ۔ (التغابن : 11) (کوئی مصیبت کبھی نہیں پہنچتی، مگر اللہ کے اذن سے، اور جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہے اللہ اس کے دل کی رہنمائی فرماتا ہے اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ ) مصائب میں مسلمانوں کے لیے راہ ہدایت یوں تو کسی بھی بڑے مقصد اور کسی بھی صداقت کے لیے اقدام کرنے والا مصائب سے ضرور دوچار ہوتا ہے۔ کیونکہ کوئی بھی بڑا کام محنت اور مشقت اٹھائے بغیر اور موانع کا سامنا کیے بغیر تکمیل کو نہیں پہنچتا۔ بالخصوص جن حالات میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں اس وقت مسلمان سخت مصائب سے دوچار تھے۔ بعض مسلمانوں کے سامنے ہجرت کا سفر درپیش تھا۔ اور جو لوگ مدینے پہنچ چکے تھے انصار کے لیے انھیں سہارا دینا ایک مشکل کام ہورہا تھا۔ اور چاروں طرف سے دشمنوں کی مہربانیوں سے حالات مزید بگاڑ کا شکار ہورہے تھے۔ ایسے حالات میں مصائب کو دیکھ کر طبیعتوں کا ہراساں ہونا چنداں قابل تعجب نہیں۔ اور اس پر مزید ستم یہ کہ جو لوگ اسلام کی طرف بڑھ رہے تھے وہ ان مصائب کو دیکھ کر گہری سوچ میں ڈوب جاتے تھے۔ پروردگار نے ان تمام اندیشوں کو دور کرتے ہوئے فرمایا کہ اصحابِ ایمان کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ کوئی مصیبت ازخود کسی پر نہیں جھپٹتی بلکہ جب بھی کسی شخص کو کسی مصیبت سے دوچار ہونا پڑتا ہے تو اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کا اذن اور اس کی اجازت کارفرما ہوتی ہے۔ راحت ملتی ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی اجازت سے، اور مصیبت آتی ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی اجازت سے۔ محبوب کی جانب سے پتھر بھی آئے تو اسے عشاق پھول سمجھتے ہیں۔ اس طرح جو مصیبت اللہ تعالیٰ کے اذن سے آئے گی وہ مومن کے لیے مصیبت نہیں بلکہ کامیابیوں کا پیشہ خیمہ ہے۔ اور مزید یہ بات کہ ایک مومن کو اس بات کا اطمینان رکھنا چاہیے کہ اگر آنے والی مصیبت اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کی تعمیل میں آرہی ہے تو وہ یقینا ایسی نہیں ہوسکتی جو اس کی قوت برداشت سے زیادہ ہو۔ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر بندوں کی قوت برداشت سے اور کون واقف ہے۔ وہ ایک ایک کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔ جب اس کا کوئی بندہ اس کی خاطر مصائب میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ ان مصائب کو کبھی ناقابلِ برداشت نہیں ہونے دیتا اور وہ برابر اس کے حوصلے کی مدد کرتا ہے۔ مزید تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر یقین رکھتا ہے اور اس کا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی آزمائشیں ہمیشہ مومن کی بھلائی کے لیے ہوتی ہیں۔ تو اسے یقین رکھنا چاہیے کہ اسے کوئی مصیبت پست حوصلہ نہیں کرسکتی۔ بلکہ عین وقت پر اللہ تعالیٰ اس کی کسی نہ کسی ذریعے سے مدد فرمائے گا۔ ہوسکتا ہے روح القدس کے ذریعے اس کے دل کی رہنمائی فرمائے۔ اور اس کی شان یہ ہے کہ وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ تو جو بندہ اس کی خاطر مصائب میں مبتلا ہوا ہے یقینا اللہ تعالیٰ ان مصائب کو بھی جانتا ہے اور اپنے بندے کی قوت برداشت کو بھی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے بندے کی مدد نہ فرمائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک بندہ ٔ مومن کا یہ یقین کہ اللہ تعالیٰ میرے ہرحال سے باخبر ہے اور میں اس کی بندگی اور اطاعت میں اگر کوئی کمی نہیں کروں گا اور ہر کام اس کی خوشنودی کے حصول کے لیے کروں گا تو وہ مجھے کبھی بےسہارا نہیں چھوڑے گا۔ تو یہ تصور اور یقین ایک ایسی دولت ہے جو اسے بڑی سے بڑی مصیبت میں بھی بےحوصلہ نہیں ہونے دیتی۔ اس کے برعکس جو لوگ مصائب کو اتفاقات کا نتیجہ سمجھتے ہیں یا انسانوں کو اس کا سبب سمجھتے ہیں یا ان کے کچھ خیالی سہارے ہیں جن کو وہ موثر مانتے ہیں تو ایسے لوگ کبھی مصائب کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ یا تو وہ حالات کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں یا ہر آستانے پر جھک جاتے ہیں۔ اور ان کے زندگی بھر کے اعتقادات بھی ان کا راستہ روکنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض دفعہ خودکشی کر جاتے ہیں۔ اس لیے ایمان باللہ اور یہ یقین کہ ہر مصیبت اس ذات کے اذن سے آتی ہے جو اس کائنات کا مالک و فرماں روا ہے۔ وہ ٹل سکتی ہے تو اسی کے حکم سے۔ اس لیے مجھے دست سوال دراز کرنا ہے تو اس کے سامنے، امیدیں باندھنی ہیں تو اسی سے۔ تو ایسا شخص کبھی بےحوصلہ نہیں ہوتا اور کبھی اپنے ایمان سے محروم نہیں ہوتا۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اللہ اس کے حق میں جو فیصلہ بھی کرتا ہے، وہ اچھا ہی ہوتا ہے، مصیبت پڑے تو صبر کرتا ہے اور وہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے، خوشحالی میسر آئے تو شکر کرتا ہے اور وہ بھی اس کے لیے اچھا ہی ہوتا ہے، یہ بات مومن کے سوا کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔
Top