Ruh-ul-Quran - Al-Qalam : 17
اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَاۤ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ١ۚ اِذْ اَقْسَمُوْا لَیَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِیْنَۙ
اِنَّا : بیشک ہم نے بَلَوْنٰهُمْ : آزمائش میں ڈالا ہم نے ان کو كَمَا بَلَوْنَآ : جیسا کہ آزمایا ہم نے اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ : باغ والوں کو اِذْ اَقْسَمُوْا : جب انہوں نے قسم کھائی لَيَصْرِمُنَّهَا : البتہ ضرور کاٹ لیں گے اس کو مُصْبِحِيْنَ : صبح سویرے
ہم نے ان کو اس طرح امتحان میں ڈالا ہے جس طرح باغ والوں کو امتحان میں ڈالا جبکہ انھوں نے قسم کھائی کہ وہ صبح سویرے ضرور ہی اس کے پھل توڑ لیں گے
اِنَّا بَلَوْنٰـھُمْ کَمَا بَلَوْنَـآ اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ ج اِذْا اَقْسَمُوْا لَیَصْرِمُنَّھَا مُصْبِحِیْنَ ۔ وَلاَ یَسْتَـثْـنُوْنَ ۔ (القلم : 17، 18) (ہم نے ان کو اس طرح امتحان میں ڈالا ہے جس طرح باغ والوں کو امتحان میں ڈالا جبکہ انھوں نے قسم کھائی کہ وہ صبح سویرے ضرور ہی اس کے پھل توڑ لیں گے۔ اور کچھ بھی نہ چھوڑیں گے۔ ) قریش کے سرداروں کے لیے ایک تمثیل قریش کو اپنی تجارت کی وسعت، اس سے حاصل ہونے والی دولت اور طائف میں ان کے پھیلے ہوئے باغات نے اس غلط فہمی میں مبتلا کر رکھا تھا کہ ہماری یہ دولت و ثروت ہمارے برسرحق ہونے کی دلیل ہے۔ اگر ہم غلط راستے پر ہوتے تو اللہ تعالیٰ ہمیں یہ خوشحالیاں نصیب نہ کرتا۔ علاوہ ازیں مال و دولت کی کثرت نے ان کے اندر عجب اور غرور پیدا کردیا تھا جس کی وجہ سے وہ آنحضرت ﷺ کی دعوت پر کان دھرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دولت و ثروت کی حقیقت کو ظاہر کرنے اور اپنے عذاب سے انذار کے لیے ایک تمثیل بیان فرمائی ہے جس میں ان کو یہ سمجھانے کی کوشش فرمائی ہے کہ اپنے جس اقتدار پر ان کو اس قدر غرور ہے اس کی بنیاد بالکل ریت پر ہے۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے گا چشم زدن میں اس کو خاک میں ملا دے گا۔ اس کی تمثیل کو دیکھنا چاہیں تو اس واقعہ میں دیکھ لیں کہ باغ کے مالکوں کو کس قدر اپنی دولت پر ناز تھا اور اس دولت نے انھیں کس طرح راہ ہدایت سے برگشتہ کر رکھا تھا۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا تو سب کچھ تباہ ہو کر رہ گیا۔ سوال یہ ہے کہ اس باغ کی حقیقت کیا ہے اور یہ کہاں کا واقعہ ہے۔ حضرت ابن عباس ( رض) کا قول ہے کہ یہ باغ یمن میں تھا۔ اور حضرت سعید بن جبیر کی روایت ہے کہ صنعاء یمن کا مشہور شہر اور دارالسلطنت ہے۔ یہ باغ اس سے چھ میل کے فاصلے پر تھا۔ اور بعض حضرات نے اس کا محل وقوع حبشہ کو بتلایا ہے۔ آیات کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ اس باغ کے اندر یا اس کے ملحق کاشت کی زمینیں بھی تھیں۔ لیکن باغ کی شہرت کی وجہ سے اس واقعہ کو باغ والوں کا واقعہ کہا گیا ہے۔ محمد بن مروان حضرت عبداللہ ابن عباس ( رض) سے نقل کرتے ہیں کہ صنعاء یمن کے دو فرسخ کے فاصلے پر ایک باغ تھا جس کو صردان کہا جاتا تھا۔ یہ باغ ایک صالح اور نیک بندے نے لگایا تھا۔ اس کا عمل یہ تھا کہ جب کھیتی کاٹتے تو جو درخت درانتی سے باقی رہ جاتے تھے ان کو فقراء اور مساکین کے لیے چھوڑ دیتا تھا۔ اور یہ لوگ اس سے غلہ حاصل کرکے اور اپنا گزارہ کرتے تھے۔ اسی طرح جب کھیتی کو گاہ کر غلہ نکالتے تو جو دانہ بھوسے کے ساتھ اڑ کر الگ ہوجاتا اس دانے کو بھی فقراء اور مساکین کے لیے چھوڑ دیتا تھا۔ اسی طرح جب باغ کے درختوں سے پھل توڑتے تو توڑنے کے وقت جو پھل نیچے گر جاتا، وہ بھی فقراء کے لیے چھوڑ دیا جاتا۔ یہی وجہ تھی کہ جب اس کی کھیتی کٹنے یا پھل توڑنے کا وقت آتا تو بہت سے فقراء اور مساکین جمع ہوجاتے تھے۔ اس مرد صالح کا انتقال ہوگیا۔ اس کے تین بیٹے باغ اور زمین کے وارث ہوئے۔ انھوں نے آپس میں کہا کہ اب ہمارا عیال بڑھ گیا ہے اور پیداوار ان کی ضرورت سے کم ہے۔ اس لیے اب ان فقراء کے لیے اتنا غلہ اور پھل چھوڑ دینا ہمارے بس کی بات نہیں۔ اور بعض روایات میں ہے کہ ان لوگوں نے آزاد نوجوانوں کی طرح یہ کہا کہ ہمارا باپ تو بیوقوف تھا اتنی بڑی مقدار غلہ اور پھل کی لوگوں کو لٹا دیتا تھا، اب ہمیں یہ طریقہ بند کرنا چاہیے۔ چناچہ قرآن کریم نے اسی واقعہ کو بیان کیا ہے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ ان نوجوانوں نے آپس میں قسم اٹھا کے یہ عہد کیا کہ اب کی مرتبہ ہم صبح سویرے ہی جا کر کھیتی کاٹ لیں گے تاکہ مساکین اور فقراء کو خبر نہ ہو۔ کیونکہ اگر انھیں خبر ہوگئی تو وہ حسب سابق ہم سے غلہ اور پھل کا مطالبہ کریں گے اور انھیں کھیتی کاٹنے کا اس حد تک یقین تھا کہ انھوں نے انشاء اللہ کہنے کی بھی ضرورت نہ سمجھی بلکہ تاکید کے انداز میں کہا کہ ہم صبح سویرے جا کر ضرور کھیتی کاٹ لیں گے۔ وَلاَ یَسْتَـثْـنُوْنَ … اس کا لفظی ترجمہ تو ہے کہ وہ استثنا نہیں کریں گے لیکن اکثر مفسرین نے اس استثنا سے مراد انشاء اللہ کہنا لیا ہے، یعنی انھوں نے انشاء اللہ کہنے کی بھی ضرورت محسوس نہ کی۔ لیکن تفسیر مظہری کے مطابق بعض مفسرین نے اسے لغوی معنی میں ہی لیا ہے۔ ان کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہم سارا غلہ اور پھل اپنے گھر لے آئیں گے، فقراء اور مساکین کے لیے کچھ نہیں نکالیں گے۔ جس طرح ہمارے والد ان کا حصہ چھوڑ دیتے تھے ہم اپنے باغ کی پیداوار میں کوئی استثنا نہیں کریں گے۔
Top