بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Al-Qalam : 1
نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَۙ
نٓ : ن وَالْقَلَمِ : قسم ہے قلم کی وَمَا يَسْطُرُوْنَ : اور قسم ہے اس کی جو کچھ وہ لکھ رہے ہیں
ن، قسم ہے قلم کی اور اس چیز کی جو وہ لکھتے ہیں
نٓ وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَ ۔ مَآ اَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍ ۔ (القلم : 1، 2) (ن، قسم ہے قلم کی اور اس چیز کی جو وہ لکھتے ہیں۔ اور آپ اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہے۔ ) قَسم، جوابِ قسم اور قلم سے مراد ن، حروفِ مقطعات میں سے ہے اور اس سورة کا نام ہے اور ہم سورة کے تعارف میں اس کی وضاحت کرچکے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں پروردگار نے دو قسمیں کھائی ہیں۔ انسانوں کے عام شیوہ مخاطبت میں قسم کا مقصد کسی بات کی تاکید ہوتا ہے، لیکن جب قرآن کریم میں پروردگار کسی بات کی قسم کھاتے ہیں تو کبھی تو اس کا مقصد تاکید ہی ہوتا ہے، لیکن کبھی وہ جوابِ قسم یا مقسم علیہ پر شہادت اور دلیل ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہاں قسم تو دو چیزوں کی کھائی گئی ہے لیکن مقسم علیہ کون ہے ؟ نظمِ کلام پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کے بعد کی آیت ہے جس پر شہادت قائم کرنے یا اس پر دلیل دینے کے لیے یہ قسمیں کھائی گئی ہیں۔ پہلی چیز جس کی قسم کھائی گئی ہے، وہ قلم ہے۔ سوال یہ ہے کہ قلم سے مراد کیا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ( رض) کا قول ہے کہ اس سے مراد قلم تقدیر ہے اور اس قلم تقدیر کے بارے میں حضرت عبادہ بن الصامت ( رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم پیدا فرمایا اور اس کو حکم دیا کہ لکھ۔ قلم نے عرض کیا، کیا لکھوں۔ تو حکم دیا کہ تقدیرِالٰہی کو لکھ۔ چناچہ قلم نے حکم کے مطابق ابد تک ہونے والے تمام واقعات اور حالات کو لکھ دیا۔ ایسی ہی اور بعض روایات میں قلم تقدیر کی اولیت، فضیلت اور اہمیت کو بیان فرمایا گیا ہے۔ اس لیے اگر اس سے قلم تقدیر مراد لیا جائے تو اس سے قلم تقدیر کی مزید فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ ابی حاتم البستی کہتے ہیں کہ اس قلم سے مراد عام قلم بھی ہوسکتا ہے جس میں قلم تقدیر اور فرشتوں اور انسانوں کے سب قلم جن سے کچھ لکھا جاتا ہے، داخل ہیں۔ امامِ تفسیر مجاہد کہتے ہیں کہ قلم سے مراد وہ قلم ہے جس سے قرآن کریم لکھا جارہا تھا۔ ان تمام اقوال کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ قلم اللہ تعالیٰ کے عظیم احسانات میں سے ہے۔ اور سورة العلق میں اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے احسان کے طور پر ذکر فرمایا ہے اور چونکہ اس کا ذکر آنحضرت ﷺ پر نازل ہونے والی پہلی وحی میں آیا ہے اس لیے اس میں یہ اشارہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ امت ایک ایسی امت ہوگی جس کی علم سے وابستگی اس کی علامت بن جائے گی اور وہ دنیا میں سب سے زیادہ علم کی خدمت بجا لائے گی اور اسلام اپنے علوم سے پہچانا جائے گا اور یہ علوم عرصہ دراز تک دنیا کی قیادت کریں گے۔ اور شاید اس طرف بھی اشارہ ہو کہ قرآن کریم اور اس کے توضیحی علوم جن میں اولیت حدیث اور سنت کو حاصل ہے قلم کے ذریعے محفوظ رکھے جائیں گے۔ کیونکہ مذہب کے ابتدائی دور میں انبیائے کرام کی تعلیم زبانی تعلیم کی شکل میں لوگوں تک پہنچتی رہی ہے۔ پھر ایک دور آیا کہ احکامِ عشرہ تحریری شکل میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کیے گئے، لیکن ان کی حفاظت کا بھی وہ اہتمام نہ ہوسکا جو دائمی حفاظت کی ضمانت بن سکتا۔ یہ اعزاز صرف قرآن کریم کو حاصل ہے کہ پہلے دن سے اسے قلم کی رفاقت میسر آئی اور پھر اس کی وسعت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس حوالے سے اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہیں ہوگا کہ ان اہل علم کی رائے میں بڑا وزن ہے جن کے نزدیک قلم دراصل تعبیر ہے تعلیماتِ الٰہیہ کے اس پورے مدوّن سرمایہ کی جو قلم کے ذریعے محفوظ ہوا۔ یعنی تورات، زبور اور انجیل وغیرہ۔ ان مقدس صحیفوں کی تعلیمات بھی آنحضرت ﷺ کی تصدیق کرتی ہیں اور ان کے اندر آپ ﷺ کے ظہور کی ناقابلِ تردید شہادتیں موجود ہیں۔ آنحضرت ﷺ پر الزامات کا رد وَمَا یَسْطُرُوْنَ … ” قسم ہے اس چیز کی جس سے وہ لکھتے ہیں۔ “ قرآن کریم کا جو حصہ بھی نازل ہوتا اسے کاتبانِ وحی میں سے کوئی کاتب ضبط تحریر میں لے آتے تھے۔ یہ قرینہ ہے اس بات کا کہ یہاں جس چیز کی قسم کھائی گئی ہے، وہ قرآن مجید ہے۔ اس طرح سے قرآن مجید کو بطور شاہد اور دلیل کے لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا ہے کہ وہ انصاف سے فیصلہ کریں کہ جس ذات عزیز کی زبان فیض ترجمان سے قرآن کریم جیسی فصیح وبلیغ کتاب جو اپنے الفاظ و معانی، اپنے مضامین، اپنے ربط و ارتباط اور ہر طرح کے اختلاف و انتشار سے محفوظ دستورونظام اور تاریخ کے ان شعبوں کی اصلاح جس تک انسانی تحقیق کی رسائی ممکن نہیں اور کائنات کے سربستہ رازوں کا انکشاف، عالم غیب کی ایسی خبریں جو انسانی دسترس سے ماورا ہیں اور ایسے اخلاقی مسلمات جس کی حکمت علوم کا سرمایہ ہے اور ایسی محیرالعقول پیشگوئیاں جنھیں رفتہ رفتہ حالات نے سچا ثابت کر دکھایا۔ کیا اس طرح کی بیشمار خصوصیات رکھنے والی کتاب کو پیش کرنے والی شخصیت کیا خدا نہ کرے مجنون ہوسکتی ہے ؟ مزیدیہ کہ جس کی صداقت پر گزشتہ آسمانی کتابیں اپنی تمام تحریفات کے باوجود آج بھی گواہ ہوں اور ہر دور کا نبی جس کی اپنی امت کو خبر دیتا رہا ہو اگر کچھ مدعیانِ علم و دانش اس جرم میں اے پیغمبر آپ کو دیوانہ کہہ رہے ہیں کہ آپ انھیں عذاب کی خبر کیوں دے رہے ہیں یا ان کے سامنے زندگی کا وہ نظام کیوں پیش کررہے ہیں جس کی وجہ سے انھیں اپنی غلط زندگی سے دستبردار ہونا پڑتا ہے تو آپ اس سے ملول نہ ہوں۔ دنیا کو جب دیوانگی کا دورہ پڑتا ہے تو انھیں ہمیشہ فرزانے دیوانے ہی معلوم ہوتے ہیں۔ بلاشبہ ہر دور میں مخالفین نے ہمیشہ انبیائے کرام کو دیوانہ ہی قرار دیا ہے۔ کیونکہ انھیں یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی کہ آخر اس شخص پر آسمانوں سے وحی کیسے اتر سکتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے علم سے اس کا رشتہ کس طرح قائم ہوسکتا ہے۔ لیکن بعض ایسی باتیں بھی ہیں کہ جب تک کوئی شخص ایمان کی نگاہ سے انھیں نہیں دیکھتا وہ دیوانگی کے وہم کا شکار ہوجاتا ہے۔ مثلاً آنحضرت ﷺ جس شدومد اور حزم و یقین کے ساتھ انھیں عذاب سے ڈراتے اور قیامت کی خبر دیتے تھے تو انھیں کسی طرح یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ آخر عذاب کہاں سے آجائے گا اور قیامت کیسے برپا ہوسکتی ہے۔ لیکن وہ جب دیکھتے کہ آنحضرت ﷺ جب ہمیں اس کی خبر دیتے ہیں تو نہایت محکم انداز میں دیتے ہیں جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ پھر ان کی بےچینی اور بےقراری اس طرح کی ہوتی ہے کہ جیسے وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ہم جہنم کی آگ میں ڈالے جانے والے ہیں اور عذاب کا کوڑا ہماری پشت پر برسنے ہی والا ہے۔ اور پھر وہ آپ ﷺ کی دردمندی اور شفقت کو دیکھتے کہ ہم انھیں دکھ پہنچاتے اور تکلیفیں دیتے ہیں لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا بلکہ ان کی ہمدردی اور دردمندی میں اور اضافہ ہوجاتا ہے۔ عام آدمی جب اس صورتحال سے متاثر ہونے لگتا تو اشرافِ قریش انھیں یہ کہہ کر روکنے کی کوشش کرتے تھے کہ اس شخص کے دماغ میں خلل پیدا ہوگیا ہے۔ جس طرح مالیخولیا کا مریض جس بات کا شکار ہوجاتا ہے اسے اس کے حتمی ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہوتا، چاہے وہ بات کیسی ہی عقل کے خلاف ہو۔ اسے بھی عذاب کا مالیخولیا ہوگیا ہے اور اسے ہر طرف عذاب ہی دکھائی دیتا ہے۔
Top