Ruh-ul-Quran - Al-Qalam : 33
كَذٰلِكَ الْعَذَابُ١ؕ وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
كَذٰلِكَ : اسی طرح ہوتا ہے۔ ایسا ہوتا ہے الْعَذَابُ : عذاب وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ : اور البتہ عذاب آخرت کا اَكْبَرُ : زیادہ بڑا ہے لَوْ كَانُوْا : کاش وہ ہوتے يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے
اسی طرح آتا ہے عذاب اور آخرت کا عذاب تو اس سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہے، کاش یہ لوگ اس کو جانتے
کَذٰلِکَ الْعَذَابُ ط وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ م لَوْکَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ۔ (القلم : 33) (اسی طرح آتا ہے عذاب اور آخرت کا عذاب تو اس سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہے، کاش یہ لوگ اس کو جانتے۔ ) حاصلِ نصیحت اور قریش کو تنبیہ باغ والے اپنے باغ کی سرسبزی، پھلوں کی شادابی اور دوسری فصلوں کی تیاری کی خوشی میں سرشار اور مست تھے۔ اب صرف ان پھلوں کو توڑنے اور فصل کو کاٹنے کا مرحلہ تھا۔ اس کے بعد ہر طرح کی نعمت کی فراوانی ہوجاتی اور خوشحالی میں مزید اضافہ ہوجاتا انھیں تصورات میں گم غرور وتکبر میں ڈوبے ہوئے اور مستقبل کے خطرات سے بےنیاز صبح صبح اپنے باغ میں پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ باغ تباہ ہوچکا ہے۔ اور جن نعمتوں کے تصور سے وہ اپنے دلوں میں تکبر کی پرورش کررہے تھے وہ سب فنا ہوگئی ہیں۔ اب انھوں نے محسوس کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے عذاب کی گرفت میں آچکے ہیں۔ اس واقعہ کو بیان کرنے کے بعد روئے سخن قریش کی طرف پھیرتے ہوئے ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ تمہیں جب ہمارے پیغمبر عذاب کی دھمکی دیتے ہیں اور نہایت ہمدردی سے تمہیں اس کی طرف توجہ دلاتے ہیں تو تم کبھی حیرانی اور کبھی برہمی سے پوچھتے ہو کہ عذاب کہاں سے اور کدھر سے آجائے گا۔ ہماری خوشحالیوں کے امکانات بالکل واضح ہیں۔ ہمارے حالات میں کوئی الجھن نہیں۔ ہم شب و روز شادمانی کے شادیانے بجا رہے ہیں۔ اس میں عذاب کے آنے کی کیا تُک ہے۔ ایسی ہی بےسروپا باتوں سے گمان ہوتا ہے کہ تم واقعی مجنون ہو۔ قریش کی اس طرح کی باتوں اور اس طرح کے واہموں کی تردید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جس طرح باغ والوں پر اچانک عذاب آیا اور انھیں دور دور تک اس کا کوئی اندیشہ نہ تھا، اسی طرح جب اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا تم پر بھی عذاب آئے گا۔ اور جس قوم پر بھی عذاب آیا، اسی طرح آیا۔ لیکن یہ یاد رکھو کہ عذاب آجانے کے بعد نہ نالہ ٔ و شیون کام آتا ہے اور نہ وہ سہارے کام آتے ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ کا شریک بنا رکھا ہے۔ اور مزید یہ بات بھی یاد رکھو کہ ایمان و عمل کی خرابی اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی تکذیب کی سزا صرف دنیا میں عذاب سے مکمل نہیں ہوجاتی بلکہ اس سے بھی کہیں بڑا عذاب جس کی ہولناکی کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا وہ آخرت کا عذاب ہے۔ جو لوگ دنیا میں عذاب کی گرفت میں آئے، آخرت کے عذاب میں اس کی وجہ سے ان کی سزا میں کمی نہیں ہوگی بلکہ آخرت کا عذاب اپنی جگہ قائم رہے گا۔ آخر میں فرمایا کہ کاش یہ لوگ اس بات کا یقین رکھتے اور آخرت کو بعیدازقیاس نہ سمجھتے تو پھر یہ اندھوں کی طرح زندگی نہ گزارتے اور آخرت کے عذاب سے بچ جاتے۔ لیکن ان کی بدنصیبی اور محرومی نے ان کی دنیا بھی تباہ کی اور آخرت بھی تباہ کر ڈالی۔
Top