Ruh-ul-Quran - Al-Qalam : 37
اَمْ لَكُمْ كِتٰبٌ فِیْهِ تَدْرُسُوْنَۙ
اَمْ لَكُمْ : یا تمہارے لیے كِتٰبٌ : کوئی کتاب فِيْهِ : جس میں تَدْرُسُوْنَ : تم پڑھتے ہو
کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم یہ پڑھتے ہو
اَمْ لَـکُمْ کِتٰبٌ فِیْہِ تَدْرُسُوْنَ ۔ اِنَّ لَـکُمْ فِیْہِ لَمَا تَخَیَّرُوْنَ ۔ (القلم : 37، 38) (کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم یہ پڑھتے ہو۔ اس میں تمہارے لیے وہی کچھ ہے جو تم اپنے لیے پسند کرو گے۔ ) ایک مغالطے کی تردید گزشتہ آیت کی تشریح میں، میں نے عرض کیا ہے کہ مشرکینِ عرب بالعموم اور قریش بالخصوص یہ سمجھتے تھے کہ ہم لوگ اللہ تعالیٰ کے منظورِنظر ہیں، اس لیے اس نے ہمیں دنیا میں عزت و سیادت عطا کی ہے، تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ قیامت کے دن بھی ہمیں نعمتوں سے نوازے گا اور یہ بات وہ اس مفروضے پر کہتے تھے کہ اولاً تو قیامت آئے گی ہی نہیں اور اگر آہی گئی تو ہمیں اس کی کیا فکر ہے ہم چونکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ قرب کا رشتہ رکھتے ہیں تو وہ یقینا ہمیں وہاں بھی نوازے گا۔ اس آیت کریمہ میں فرمایا جارہا ہے کہ کیا تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کوئی کتاب، کوئی صحیفہ موجود ہے جسے پڑھ کر تم اس طرح کی باتیں کرتے ہو کہ قیامت کے دن تمہاری ساری آرزوئیں پوری ہوں گی۔ تم اگر خود اپنی عقل سے بھی پوچھو جیسے کہ اس سے پہلے کی آیت میں فرمایا گیا ہے تو عقل بھی کبھی اسے تسلیم نہیں کرے گی کہ قیامت کا دن جبکہ جزاء و سزا کا دن ہے اور وہاں حُسنِ عمل پر جزاء ملے گی اور بدکرداری پر سزا ملے گی، تو تم نے اس کے لیے محض عزت و وجاہت کو معیار بنا لیا ہے تو آخر یہ بات تم نے کس کتاب میں پڑھی ہے جو خاص طور پر تم پر اللہ تعالیٰ نے نازل کی ہے۔ اور اگر واقعی کوئی ایسی چیز تمہارے پاس ہے تو اسے پیش کرو۔ لیکن کوئی ایسی چیز ہوتی تو وہ پیش کرتے۔ اس لیے جواب میں خاموشی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔
Top