Ruh-ul-Quran - Al-Qalam : 40
سَلْهُمْ اَیُّهُمْ بِذٰلِكَ زَعِیْمٌۚۛ
سَلْهُمْ : پوچھو ان سے اَيُّهُمْ : کون سا ان میں سے بِذٰلِكَ زَعِيْمٌ : ساتھ اس کے ضامن ہے
ان سے پوچھئے، ان میں سے کون اس کا ضامن بنتا ہے
سَلْہُمْ اَیُّـھُمْ بِذٰلِکَ زَعِیْمٌ۔ اَمْ لَھُمْ شُرَکَـآئُ ج فَلْیَاْ تُوْا بِشُرَکَـآئِہِمْ اِنْ کَانُوْا صٰدِقِیْنَ ۔ (القلم : 40، 41) (ان سے پوچھئے، ان میں سے کون اس کا ضامن بنتا ہے۔ کیا ان کے کچھ شرکاء ہیں تو وہ لائیں اپنے شریکوں کو، اگر وہ سچے ہیں۔ ) گزشتہ آیت میں پوچھا گیا تھا کہ کیا انھوں نے اللہ تعالیٰ سے کوئی عہد و پیمان لے رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مرضی کے مطابق ان سے سلوک کرے گا اور قیامت (اگر آگئی) تو وہاں بھی یہ لوگ نوازے جائیں گے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں آنحضرت ﷺ سے فرمایا جارہا ہے کہ آپ ﷺ ان سے یہ پوچھئے کہ تم جو عہدوپیمان وغیرہ کی باتیں کرتے ہو، کیا کوئی اس کا ضامن بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے نبوت اور فلاح کا غیرمشروط ابدی پروانہ جاری کر رکھا ہے اور اگر کوئی ایسا ضامن نہیں ہے تو شاید ان لوگوں کا گمان یہ ہے کہ جن قوتوں کو ہم نے اللہ تعالیٰ کا شریک بنا رکھا ہے وہ یقینا ان پر اللہ تعالیٰ کو ہاتھ نہیں ڈالنے دیں گے۔ یہ دنیا میں جو کچھ بھی کرتے رہیں ان شریکوں کی انھیں پناہ حاصل ہے، وہ کبھی بھی اللہ تعالیٰ کا عتاب ان پر برسنے نہیں دیں گے۔ فرمایا جارہا ہے کہ اگر کچھ ایسے شرکاء ہیں اور تم اپنے دعوے میں واقعی سچے ہو تو پھر انھیں پیش کرو۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ قریش بت پرستی میں مبتلا تھے۔ فرشتوں کی بھی پوجا کرتے تھے۔ جنات سے بھی استمداد کرتے تھے اور ان کے نام پر چڑھاوے چڑھاتے تھے۔ باایں ہمہ وہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اپنے تحفظ کے لیے کبھی ان کا نام نہیں لیتے تھے۔ کیونکہ قرآن کریم نے مسلسل تنقید سے ان کے اس مشرکانہ کاروبار کی بےحقیقتی مبرہن کردی تھی اور آج اسی کا اثر ہے کہ ہندو جیسی مشرک قوم بھی کبھی اسے تسلیم نہیں کرتی اور وہ اپنے مشرکانہ رویئے پر تاویلات کے عجیب و غریب پردے تان کر اور جھول ڈال کر رکھتی ہے اور عجیب و غریب فلسفے اس نے ایجاد کر رکھے ہیں۔
Top