Ruh-ul-Quran - Al-Qalam : 4
وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ
وَاِنَّكَ : اور بیشک آپ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ : البتہ اخلاق کے بلند مرتبے پر ہیں
بیشک آپ اخلاق کے سب سے بڑے مرتبے پر فائز ہیں
وَاِنَّـکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ ۔ (القلم : 4) (بیشک آپ اخلاق کے سب سے بڑے مرتبے پر فائز ہیں۔ ) خلقِ عظیم کا مفہوم جنون کوئی ایسا مرض نہیں جو کسی خاص علاقے یا خاص زمانے کے ساتھ مخصوص ہو۔ ہم آج بھی اپنے دائیں بائیں اس بیماری میں مبتلا لوگوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ اس لیے ہر شخص اس بات کی گواہی دے سکتا ہے کہ جو شخص اختلالِ دماغ کا شکار ہو وہ نہ تو بلند اخلاق کا حامل ہوسکتا ہے اور نہ اس کے مزاج میں اعتدال ہوسکتا ہے اور نہ لوگوں کے ساتھ اس کے معاملات میں ٹھہرائو، وقار، تحمل اور بردباری ہوسکتی ہے، لیکن آنحضرت ﷺ میں نہ صرف یہ صفات پائی جاتی تھیں بلکہ آپ ﷺ اس کا مظہراتم تھے۔ قرآن کریم میں اوامرو نواہی ہیں، مکارمِ اخلاق کی تعلیم ہے، فضائلِ اخلاق کی ترغیب دی گئی ہے، رزائل سے روکا گیا ہے، زندگی کے بلند مقاصد کی خبر دی گئی ہے، ایک نظام زندگی دیا گیا ہے جسے برپا کرنے کا پابند بنایا گیا ہے، اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کے دین کو غالب کرنے کا حکم دیا گیا ہے چاہے اس کے لیے سر کٹوانا پڑے۔ ایک بالکل نئی زندگی ہے جس پر اللہ تعالیٰ کے دین کی چھاپ لگی ہوئی ہے۔ قرآن کی ان تعلیمات اور اس کی دی ہوئی زندگی کی چھاپ کو اگر چلتے پھرتے، بولتے چالتے اور فعال شکل میں دیکھنا ہو تو وہ آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ایک قرآن ساکت ہے جس کی ہم تلاوت کرتے ہیں اور ایک متکلم قرآن ہے جو آنحضرت ﷺ ہیں۔ ایک قرآن کا متن ہے جو ہمارے ہاتھوں میں ہے اور اس کی شرح آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی ہے۔ قرآن قول ہے اور آپ ﷺ اس کا عمل ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جسے یہاں خلق عظیم قرار دیا گیا ہے۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) نے ارشاد فرمایا کَانَ خُلْقُہٗ الْقُرْاٰنَ ” قرآن آپ کا اخلاق تھا۔ “ حضرت ابن عباس ( رض) نے فرمایا کہ خلق عظیم سے مراد دین عظیم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس دین اسلام سے زیادہ کوئی محبوب دین نہیں۔ حضرت عائشہ ( رض) نے فرمایا کہ آپ کا خلق خود قرآن ہے یعنی قرآن کریم جن اعلیٰ اعمال و اخلاق کی تعلیم دیتا ہے آپ ان سب کا عملی نمونہ ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ خلق عظیم سے مراد آداب القرآن ہیں یعنی وہ آداب جو قرآن نے سکھائے ہیں۔ حاصل سب کا تقریباً ایک ہی ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا بعثت لِاُ تَمِّمَ مکارم الاخلاق یعنی مجھے اس کام کے لیے بھیجا گیا ہے کہ میں اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کروں۔ (ابوحیان) حضرت انس ( رض) فرماتے ہیں کہ میں نے دس سال رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی۔ اس پوری مدت میں جو کام میں نے کیا آپ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ ایسا کیوں کیا اور جو کام نہیں کیا اس پر کبھی یہ نہیں فرمایا کہ یہ کام کیوں نہیں کیا (حالانکہ یہ ظاہر ہے کہ دس سال کی مدت میں خدمت کرنے والے کے بہت سے کام خلاف طبع ہوئے ہوں گے۔ ) (بخاری و مسلم) اور حضرت انس ( رض) فرماتے ہیں کہ آپ کے مکارمِ اخلاق کا یہ حال تھا کہ مدینہ کی کوئی لونڈی باندی بھی آپ کا ہاتھ پکڑ کر جہاں لے جانا چاہے لے جاسکتی تھی۔ (رواہ البخاری) حضرت عائشہ ( رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی اپنے ہاتھ سے کسی کو نہیں مارا بجز جہاد فی سبیل اللہ کے کہ اس میں کفار کو مارنا اور قتل کرنا ثابت ہے ورنہ آپ نے نہ کسی خادم کو نہ کسی عورت کو کبھی نہیں مارا، ان میں سے کسی سے خطا و لغزش بھی ہوئی تو اس کا انتقام نہیں لیا بجز اس کے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کی گئی ہو تو اس پر شرعی سزا جاری فرمائی۔ (رواہ مسلم) اور حضرت عائشہ ( رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نہ فحش گو تھے نہ فحش کے پاس جاتے تھے۔ نہ بازاروں میں شور و شغب کرتے تھے برائی کا بدلہ کبھی برائی سے نہیں دیتے تھے بلکہ معافی اور درگزر کا معاملہ فرماتے تھے اور حضرت ابوالدردا ( رض) فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ میزان عمل میں خلق حسن کے برابر کسی عمل کا وزن نہیں ہوگا اور اللہ تعالیٰ گالی گلوچ کرنے والے بدزمان سے بغض رکھتے ہیں۔ (رواہ الترمذی وقال حدیث حسن صحیح) اور حضرت عائشہ ( رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان اپنے حسن خلق کی بدولت اس شخص کا درجہ حاصل کرلیتا ہے جو ہمیشہ رات کو عبادت میں جاگتا اور دن بھر روزہ رکھتا ہو۔ (رواہ ابودائود) اور حضرت معاذ ( رض) نے فرمایا کہ مجھے یمن کا عامل مقرر کرکے بھیجنے کے وقت آخری وصیت جو آپ نے مجھے اس وقت فرمائی جبکہ میں اپنا ایک پائوں رکاب میں رکھ چکا تھا وہ یہ تھی یَامَعاذ اَحْسِنْ خُلْقَکَ لِلنَّاسِ ” اے معاذ لوگوں سے حُسنِ خلق کا برتائو کرو۔ “ (رواہ مالک) یہ سب روایات حدیث تفسیر مظہری سے نقل کی گئی ہیں۔
Top